رپورٹ
زاہد خان کہتے ہیں کہ وہ لاہور کی مختلف کچی آبادیوں میں جارہے ہیں اور وہاں حالات نہایت خراب ہیں اور لوگ راشن کی فریاد کررہے ہیں۔کل مختلف علاقوں میں اعلان ہوا کہ گورنر ہاوس کے باہر سے راشن ملے گا اس لیے لوگوں کی بڑی تعداد صبح سے ہی گورنر ہاوس کے باہر راشن کی امید پر جمع ہوگی لیکن گھنٹوں کے انتظار کے بعد انہیں جواب ملا کہ اپنے علاقوں کے تھانوں میں جائیں وہاں سے راشن ملے گا جس کے بعد لوگ نے اس دھوکے کے خلاف احتجاج کیا اور کہا یہ حکومت ہمیں بھوکا ماررہی ہے۔لیکن اپنے علاقوں میں بھی انہیں کوئی راشن نہیں ملا۔ایک محنت کش اشفاق احمد نے بتایا کہ وہ دو ماہ سے بے روزگار ہے لاک ڈاؤن سے پہلے تو پھر بھی وہ مزدوری کرئے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا اب کیا ہوگا پتہ نہیں ہے گھر جانے کو دل نہیں کرتا بچے کھانا مانگتے ہیں۔
شاہدرہ سے رمضان خان کہتے ہیں کہ وہ قالین بنانے والی ایک فیکٹری میں کام کرتے ہیں اور ان کی دوبٹیاں ہیں۔وہ خود بیمار ہیں لیکن پھر بھی اپنی بچیوں کے لیے کام کرتے ہیں اور روز کا تین سو سے چار سوتک دیہاڑی کما لیتے تھے لیکن جب سے لاک ڈاؤن ہو ا ہے انہوں نے کوئی کام نہیں کیا اور مالکان تو دیہاڑی ہی دیتے تھے۔ہمارے حالات تو پہلے بھی اچھے نہیں تھے میری بہن کچھ مدد کردیتی تھی لیکن اب تو وہ بھی کچھ نہیں دئے پارہی کل سے میری بچیوں نے رات کا کھانا کھایا ہوا ہے۔یہ لاک ڈاؤن تو بھوکا ہی مار دئے گئی، میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مزدوروں کو راشن فراہم کرئے۔
کامریڈ پیرل آزادلکھتے ہیں کہ وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لارکانہ کے قریب اپنے گاؤں محمد عیسی ہلیومیں ہیں یہاں اس وقت یہاں گندم کی کٹائی ہورہی ہے کسانوں کے حالات ابھی تک مزدور طبقے سے بہتر ہے۔آج شام جب وہ گھر سے باہر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ مزدر طبقہ کے حالات انتہائی خراب ہیں وہ لوگ راشن اور روز مرہ کے استعمال میں آنے والی اشیاء کے لیئے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کبھی کبھار کوئی کچھ دے جاتا ہے لیکن اس سے گذارہ نہیں ہوتا یہاں کہ مقامی سیاسی لوگوں نے نہ تو ان سے رابطہ کیا ہے اور نہ ہی ان کی کوئی رسائی ہے۔گورنمنٹ بظاہر مزدور اور دیہاڑی دار کی بات کرتی ہے لیکن ان کو کوئی ریلیف میسر نہیں ہے البتہ حکومت تاجروں کو حکومت ریلیف دئے رہی ہے۔
علی رضا شیخوپورہ سے لکھتے ہیں ملک کے دیگر شہروں کی طرح شیخوپورہ میں لاک ڈاؤن 21 مارچ سے جاری ہے لیکن آج یعنی 5 اپریل کی شہر کی صورتحال سے نظر آ رہا ہے کہ عوام اب گھروں میں مزید نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ ریاست کی طرف سے محنت کشوں کو کوئی ریلیف نہیں دیا جارہا اور اگر کہیں کچھ کسی کو مل بھی رہا تو وہ بھی کسی کی انفرادی کوشش سے ہی ہے اجتماعی طور پہ یا حکومت کی طرف سے کوئی اقدام نہیں اٹھائے جارہے۔
وزیراعظم کے کل کے اعلان کے بعد جس میں انہوں نے تعمیرات کو صنعت کا درجہ دیا اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں ٹیکسوں کی چھوٹ اور کالے دھن کے بے دریغ استعمال کی اجازت کے بعد زمین کے لین دین اور تعمیراتی کاموں میں تیزی آنے کا امکان ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سرمایہ داری کالے دھن کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔
آٹے چاول چینی اور دوسری اشیاء ضروریہ کے دام بڑھ چکے ہیں کوئی پرائس کنٹرول کمیٹی ریٹس چیک کرنے پہ توجہ نہیں دے رہی اور صوبائی وزیر برائے قدرتی آفات میاں خالد محمود کا چہرہ سوائے فلیکسوں کے کہیں دکھائی نہیں دیا۔
مارکیٹ میں کپڑے کے بنے ناقص ماسک کی بہتات ہے جو کہ گھروں میں ہی تیار کیے جارہے ہیں این 95 ماسک مارکیٹ میں ناپید ہے اور اگر ہے بھی تو عوام اور حتی کہ ہیلتھ ورکرز کی پہنچ سے دورہے۔
جو معاشی حالات جا رہے عوام یہ فیصلہ کرتی نظر آ رہی کہ کرونا سے پتہ نہیں مرنا کے نہیں مرنا لیکن بھوک سے لازمی مر جائیں گے اگر حکومت نے ریلیف دئیے بغیر لاک ڈاؤن بڑھایا تو شدید عوامی رد عمل کا سامنا کرنے پڑے گا۔