تحریر:شہزادارشد
حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد پہلے سے موجود معاشی اور سماجی بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے مزدور طبقہ اور شہری ودیہی غریبوں کی زندگی میں شدید مشکلات میں اضافہ ہوا اور ان کے گھروں میں راشن ختم ہوتاجارہاہے اور بھوک اب محنت کش طبقہ کی آبادیوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔اس کا پہلا بڑا اظہار کراچی میں ابرھیم حیدری اور قائدآباد کی شکل میں ہوا جہاں راشن اور روٹی کے لیے ہزاروں کی تعداد میں محنت کش عوام کورونا کی پروا کیئے بغیر سڑکوں پر آگے۔اسی طرح کے مناظر لاہور کی مختلف کچی آبادیوں میں بھی نظر آرہے ہیں کہ لوگ کسی ”فلاحی تنظیم یا مخیر حضرات“کی طرف سے راشن کی تقسیم کی امید پر سڑکوں امڈ رہے ہیں لیکن محنت کش عوام کی امیدیں تیزی سے دم توڑ رہی ہیں۔
یہ سب صرف پاکستان کے دو بڑے شہروں کی ہی کہانی نہیں ہے بلکہ ایسی اطلاعات ہیں کہ ملک کے دیگر شہروں اور قصبوں میں بھی صورتحال بہت زیادہ خراب ہے اور کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں جس میں محنت کش خود اور اپنے بچوں کی بھوک کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑتے ہیں۔کچھ علاقوں سے یہ اطلاعات بھی ہیں کہ وہاں پر لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو وہ لاک ڈاؤن توڑ دئیں گئے۔ حکومت ابھی تک کسی ایسے طریقہ کار تک نہیں بناسکی جس سے ان لوگوں تک کوئی امداد پہنچاسکے۔ویسے بھی حکومتی امداد نہ ہونے کے برابر ہے یعنی صرف12 ہزاررروپے4مہینوں کے لیے اور یہ بھی آبادی کے انتہائی محدود حصے کو میسر ہو گی جبکہ پاکستان میں 8سے دس کروڑ آبادی غربت کی سطح کے اردگردرہتی ہے۔لیکن اب تو سرمایہ دارانہ پیدوار کافی حد تک رک گئی اور اس وقت 70سے 80فیصد لوگ بے روزگار ہیں اس سے صورتحال مزید خراب ہوگی ہے۔
ان حالات میں جبکہ محنت کش طبقہ،شہری ودیہی غریب اور حتی کہ لوئر مڈل کلاس کے ایک حصہ کو بھوک سے بچنے اور دیگر بنیادی ضروریات کے لیے3ٹریلین سے زیادہ کی رقم چاہیے لیکن محنت کشوں اور غریبوں کے لیے صرف150ارب روپے مختص کیئے گے ہیں۔اس کی وجہ حکمران طبقہ کی ترجیحات ہیں جو ان کی طبقاتی پوزیشن سے متعین ہوتی ہے۔اس لیے حکومت سمیت اگر میڈیا میں کوئی بحث ہے تو وہ یہ کہ کیسے سرمایہ دار طبقہ کو ریلیف دی جائے اور وزیراعظم کے پیکچ میں بھی سرمایہ داروں کو 200ارب روپے کی ریلیف دی گئی ہے جبکہ ڈیلی ویجرز کے نام پر مالکان کو مزید 200روپے دیئے جائیں گئیں۔اس کے علاوہ حکومت جلد ہی 400ارب سے زائد کا تعمیراتی پیکچ بھی دینے جارہی ہے نیز مالکان کو دیگر بہت سی سبسڈیز دی جارہی ہے اور وہ مزید کا بھی مطالبہ کررہے ہیں اور حکومت ہمیشہ کی طرح ان کے مطالبات کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔اس سب کا یہ مطلب ہے کہ سرمایہ داری نظام میں رہتے ہوئے محنت کش طبقہ کے لیے کوئی حل نہیں ہے۔اپوزیشن پارٹیوں نے مطالبات کی جو لسٹ پیش کی ہے وہ حکومتی اقدامات سے بظاہربہتر لگتی ہے لیکن وہ بھی کسی طرح محنت کش عوام کی بنیادی ضروریات کے لیے کافی نہیں ہے اور یہ واضح کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ ان کے مطالبات پر عملدرآمد کیسے ہوگا یعنی اس کے لیے اس طبقاتی نظام میں رہتے ہوئے وسائل کہاں سے آئیں گئیں اور کون اس پر علمدرآمد کروائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ ہی حکومت اور نہ اپوزیشن کو محنت کش عوام کی کوئی پروا ہے لیکن وہ نہیں چاہتے کہ سماجی شیراز بکھیرے کیونکہ اس سے ان کا نظام خطرے میں پر سکتاہے،لحاظ یہ نظام کو بچانے کے لیے مخیر خضرات اور ویلفر اداروں اور اپنی مددآپ پر زور دئے رہے ہیں اور ان کے مطابق حکومت کچھ نہیں کرسکتی اور حکومت سے امید لگا کرنہ بیٹھیں کیونکہ اگر امریکہ اور یورپ ناکام ہورہا ہے تو پاکستان جیسا غریب ملک محدود وسائل کے ساتھ کیا کرسکتاہے۔لیکن حقیقت میں یہ غلط ہے اور اس ایمرجنسی کی صورتحال میں جب بھوک بلکہ انسانی زندگی کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگ رہا ہے تو ایسے وقت میں مالکان کو ریلیف پیکچ دیناایک بھیانک مذاق ہے۔ان حالات میں امراء اور مالکان پر ویلتھ ٹیکس کے ساتھ ایسے اداروں کے مالکان سے مطالبہ کیا جائے جن کی پیدوار کی سماج کو فوری ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنے ورکرز کو چھٹی دئے کر تنخواہ ادا کریں کیونکہ یہی وہ ورکرز ہیں جنہوں نے اس دولت کو جنم دیا ہے جو آج ان کی ملکیت ہے اور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کریں تو ان اداروں اور ان کے مالکان کی دیگر ملکیتوں اور دولت کو ریاستی تحویل میں لیا جائے۔جن صنعتوں میں اس وقت کام ہورہا ہے وہاں محنت کشوں کو حفاظتی سامان مہیا کیا جائے اور ان اداروں کو ریاستی ملکیت میں لے کر ورکرز کمیٹیوں کے کنٹرول میں دئے دیا جائے اور وہ پیدوار کے حوالے سے کمیونٹی کے ساتھ ملکر فیصلہ کریں اور اس پیدوار سے حاصل ہونے والے منافع سے ریلیف کے کام میں مدددی جائے۔
تمام غیر ملکی اور ملکی قرضے ادا کرنے سے انکار کیا جائے اور فوجی بجٹ میں بھی کٹوتی کی جائے۔ صدر،وزیراعظم تمام وزراء اور فوجی و سول بیورکریسی تنخواہوں میں کٹوتی اور مراعات کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا جائے اور اس تمام سرمایہ سے موجود بحران میں اس ملک کی اکثریت کو انسانی زندگی گزارنے کے بنیادی وسائل میسر کیئے جائیں۔
لیکن یہ حل حکمران طبقہ کوقبول نہیں اس لیے وہ چاہتاہے کہ محنت کش طبقہ بھوک اور موت کو برداشت کرلے اس لیے سخت قوانین آرہے ہیں اور ریاستی ادارے عوام پر جبر کررہے ہیں اور انہیں سخت سزائیں دئے رہے تاکہ خوف برقرار رہے محنت کش طبقہ اور شہری ودیہی غریب احتجاج نہ کرئیں اور لاک ڈاؤن کے حوالے سے فیصلہ حکمران طبقہ کرئے۔
اس بحران نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ محنت کش ہیں جن کی وجہ سے سماج چلتاہے اور محنت کش طبقہ کی محنت ہی دولت کا منبع ہے۔اگر محنت کش کام کرنے سے انکار کردیں تو سماج رک جاتاہے اس وقت یہی صورتحال ہے جب لاک ڈاؤن کی وجہ کام رک گیا ہے اور سماج میں بہت کم دولت پیدا ہورہی ہے اور اب سوال یہی ہے کہ پہلے سے موجود وسائل کو تقسیم کیا جائے اور اس بنیاد پر اس بحران سے نبٹا جائے لیکن سرمایہ داری نظام میں یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ حکمران طبقہ کی طبقاتی ترجیحات ہیں اور وہ اس بحران کا ملبہ محنت کشوں پر ڈالنا چاہتے ہیں جیسے ہر بحران اور جنگ میں ہوتاہے۔اس لیے اس نظام کے خلاف جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اور یہ جدوجہد اس بحران میں ہی کرنے کی ضرورت ہے جہاں اس سے ایک طرف حکمران طبقہ کو اپنی طبقاتی ترجیحات تبدیل کرنے پر مجبور کیا جائے اور دوسری طرف محنت کش طبقہ کو منظم کرتے ہوئے سرمایہ داری نظام کے خاتمے کی جدوجہدکو منظم کیا جائے۔