تحریر:وقار فیاض

ہم ہمیشہ سے یہ پڑھتے اور سنتے آئے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی ناپنے کا پیمانہ اُس ملک کاجی ڈی پی، فی کس آمدنی، بیلنس آف پیمنٹ، سٹاک مارکیٹ اورکھلی منڈی میں کرنسی کی قیمت ہے اور اس کے علاوہ اُسکی فوجی طاقت اُسکے اسلحہ کے ذخائر،بین البر اعظمی اور ایٹم بم لے جانے والے میزائل ہیں۔اس میں وہ پیمانہ موجود نہیں ہے جو دیکھے کہ کیایہ ترقی ہموار ہے اور سب اس سے اجتماعی طورپر مستفید ہورہے ہیں کیونکہ طبقاتی سماج میں ایسا ممکن نہیں ہے اور وہاں ترقی کا مطلب اشرافیہ کی ترقی ہی ہوتاہے۔اس لیے حالیہ کرونا وائرس کی وباء نے اس ترقی کو تار تار کر کے رکھ دیا ہے۔

آج کل پسماندہ ممالک کو تو رہنے ہی دیں ترقی یافتہ ممالک میں بھی عوام کیلئے طبی سہولیات نہیں ہیں سپین اور اٹلی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جوویڈیوز آئیں ہیں ان میں لوگ ہسپتالوں کے کوریڈورز میں لیٹے ہوئے ہیں جب کہ لوگوں کو یہ کہہ کر مطمئن کیا جا رہا ہے کہ یہ تو ناگہانی ہے اور بالکل توقع کے خلاف ہے مگرسوال تویہ پیدا ہوتاہے کہ کیایہ واقعی توقع کے خلاف ہے کیا 1918ء کے سپینش فلوکوتاریخ نے دیکھا تھا یا نہیں پھر طاعون اور چیچک نے کیا تباہی مچائی تھی پھریہ کیسے توقع کے خلاف ہے اور اگر کہا جائے کہ یہ صدی پہلے یا اس سے بھی پرانے واقعات ہیں تو اس صدی کے آغاز پر جو وائرس آئے اور انہوں نے جوہلاکت مچائی کیا یہ ایک انتباہ نہیں تھا اور بارہا سائنسدان ان خطرات کی نشاندہی کرتے رہے۔دنیا بھر میں حکومت پڑھے لکھے ڈگری یافتہ حضرات چلاتے ہیں نیز افسر شاہی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ ادراک ہی نہیں کر سکے کہ اس طرح کہ حالات بھی کبھی پیش آسکتے ہیں جبکہ اس طرح کی مثالیں بھی تاریخ میں تواتر سے موجود تھیں کم از کم عوام کے تناسب سے ہسپتال اور وہاں طبی سہولیات تو موجود ہوتیں لیکن سرمایہ داری میں محنت کش عوام اور ان کی صحت ترجیح نہیں ہوتی اس لیے دنیا بھر میں حکومتیں صحت کے شعبے کی نجکاری کررہی ہیں اور صحت کوبنیادی حق کی جگہ ایک کاروبار میں بدلا جارہا ہے تاکہ نجی سرمایہ دار اس سے منافع کما سکیں۔

ٹائٹینک جو اپنے وقت کا جدید ترین بحری جہاز تھا جب اپنے پہلے ہی سفر میں حادثے سے دوچار ہوا تواُس پر تقریباً 2,224 مسافروں کیلئے صرف 20 لائف بوٹس تھیں جس کی وجہ سے 1,500سے زائدہلاکتیں ہوئیں تھیں اور بچ جانے والوں کی ایک بڑی تعداد اپر کلاس کی تھی جن کو لائف بوٹس پر باقیوں پر ترجیح دی گئی تھی تب بھی یہ حادثہ خلاف توقع ہی تھا۔کیا دنیا نے اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔آج بھی ہسپتالوں کی تعداد عوام کی تعداد سے کہیں کم ہے بالکل جیسے ٹائیٹینک میں جان بچانے کا سامان لوگوں کی تعداد سے بہت کم تھا۔آج بھی تمام تر نام نہاد ترقی کے باوجود عوام کے لئے انتہائی قلیل تعداد میں وینٹی لیٹر،ڈی انفیکٹ کرنے کا سامان اور حد تو یہ ہے کہ ہمارے جیسی ایٹمی قوتوں کے پاس تو ماسک اور دستانے ہی نہیں ہیں البتہ ٹینک،جنگی طیارے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح باکثرت ہیں۔اس لیے ہیلتھ ورکرز کے لیے سلوٹ تو ہے لیکن بنیادی حفاظتی کٹس نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ محنت کش عوام سے ہمیشہ قربانی ہی مانگی گئی ہے۔بیماری امیر اور غریب کو نہیں دیکھتی یہ ایک بے روزگار کو بھی لگ سکتی ہے اور شہزادہ چارلس کو بھی اور کسی وزیراعظم کو بھی لیکن جب غریب کو لگتی ہے تو اس میں اُسکی لاپرواہی کو الزام دیا جاتا ہے لیکن کیا شہزادہ چارلس اور بورس جانسن کو سڑکوں میں پھرنے سے یہ بیماری لگی ہے جبکہ صحت کے بہترین وسائل بھی اُنکو ہی میسر ہیں۔یوں طبقاتی تقسیم دنیا بھر میں واضح ہے کہ کیسے اگر اشرافیہ کے کسی رکن میں کورنا کی ابتدائی علامات بھی ہوں تو ان کے فوراََٹیسٹ ہوتے ہیں اور ان کے لیے بہترین سہولتوں کا بھی انتظام ہوتاہے لیکن غریب اور محنت کشوں کو پہلے تو ٹیسٹ سے ہی منع کردیا جاتاہے اور پھر فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کس کی کتنی اہمیت ہے اور اس بنیا دپر ایمرجنسی علاج ہوتے ہیں۔

پاکستان میں تو اب تک میں نے کہیں بھی ڈس انفیکٹک کرنے کا سپرے ہوتے کہیں نہیں دیکھا ہے حکومت ایمرجنسی قرضہ دوسرے ممالک سے مانگ رہی ہے جبکہ یہ سب کچھ اپنے ملک میں امراء پر ٹیکس لگا کر کافی حد تک پورا کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ صدر،وزیراعظم اور ارکان پالیمنٹ کی تنخواہوں کو مزدور کی کم ازکم تنخواہ کی سطح پر لایا جائے اور دیگر مراعات مکمل طور پر ختم کردی جائیں اسی طرح گریڈ 17 اور اُس سے اوپر تمام سرکاری ملازمین کی مراعات کابشمول فوج اور عدلیہ مکمل طور پر ختم کردیاجائے اور اُس پیسے کو استعمال میں لا کر طبی سامان خریدا جائے۔ اس سے حکومت کی سنجیدگی اور وباء سے نبٹنے کے لیے اُسکے عزم کا پتہ چلے گا۔ ہر علاقے کے تمام ایم این ایز اور ایم پی ایزجو کروڑہا روپیہ اپنے الیکشن میں لگاتے ہیں لیکن اس وقت یہ لوگ مناظر سے غائب ہیں یہ اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کی حقیقت واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

تمام سبزی اور پھل منڈیوں میں بھی مکمل سپرے ہو اور پھر جب سامان دوکانوں پر آئے تو پھر یونین کونسل اور محلے کی سطح پر ایک بار پھر اُن پر سپرے ہو اور اس کا خرچ مالکان ا دا کرئیں۔ اسی طرح تمام کاروباری لوگوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ویئرہاوسز میں روزانہ کی بنیاد پر سپرے کریں تاکہ جو سامان بازاروں میں موجود ہے وہ مکمل طور پر ڈس انفیکٹ ہو اور لوگ اپنے گھروں میں بیماری لے کر نہ جائیں۔مری بیوری اور اس طرح کی دیگر کمپنیوں کوپابند کیا جائے کہ وہ اس وقت وسیع پیمانے پر ڈس انفیکشن کا محلول تیار کریں۔

پاکستان امراء کی کمی نہیں ہے تمام امیر لوگوں پر سپر ویلتھ ٹیکس عائد کیا جائے اور جنوبی ایشیا میں تو جتنے بڑے زمین دار ہیں وہ اور کہیں پائے بھی نہیں جاتے ایسے تمام وڈیروں اور زمین داروں کی کُل پیداوار پر ٹیکس عائد کیا جائے۔وہ لوگ جوشہروں میں دو کنال یا اس سے بڑے گھروں میں رہ رہے ہیں اوروہ جن کے پاس سولہ سو سی سی یا اس سے بڑی امپورٹیڈ کاریں ہیں اُن تمام لوگوں پر لگژری ٹیکس عائدکیا جائے۔ یہ تمام وہ اقدامات ہیں جو بمشکل پاکستان کے 2سے3 فیصدلوگوں پر اثراندازہونگے لیکن اس سے 97 یا 98 فیصد لوگوں کی زندگی بچ سکتی ہے اور جس سے ہم اپنے وسائل اس حد تک بڑھا سکتے ہیں کہ ا س سے ہم اپنا یہ کڑا وقت احسن طریقے سے گزار سکیں۔لیکن حکومت کے اقدامات ظاہر کررہے ہیں کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرئے گی اور اب بھی اس کے پیش نظر سرمایہ اور اس کا منافع اہم ہے اور یہی پوری دنیا کا حال ہے اور اگر ابھی پاکستان اور دنیا میں کچھ اقدامات ہوئے بھی تو یہ ادھورے اور نیم دلی سے ہوں گے کیونکہ سرمایہ داری ایک طبقاتی نظام ہے جو سرمایہ دار طبقہ کے مفاد میں ہی کام کرتاہے اس وباء نے حکومت کا طبقاتی کردار ننگ کردیا ہے۔ اس لیے اب محنت کش عوام کو ان پر اعتمادکی بجائے کام کی جگہ اور محلے کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دینی چاہیں جوخوراک کی تقسیم و ترسیل اور صحت کے انتظامات میں بنیادی کردار ادا کرئیں اور یہ ورکرز کمیٹیاں ضلعی اور قومی سظح پر کورڈینیشن کے ذریعے جدوجہد سے حکومت کو مجبور کرئے کہ یہ محنت کش عوام کے وسیع تر مفاد میں کام کرئے اور اس جدوجہد کو اس حکومت اور نظام کے خلاف جدوجہد میں بدل دئیں۔