تحریر:شہزاد ارشد

حکمران طبقہ لاک ڈاؤن پر تضاد سے فی الحال نکال آیا ہے اور اب ہر طرف اسے اور سماجی دوری کو ہی حل کے طور پر پیش کیا جارہاہے۔لیکن پاکستان میں کررونا ٹیسٹ کی شرح 1لاکھ افرادپر 24ہے جس کی وجہ سے اصل تعداد سامنا نہیں آرہی ہے اور کوئی سیاسی جماعت بھی بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کا کوئی خاص مطالبہ نہیں کررہی ہیں کیونکہ سب کا یہ ماننا ہے کہ ہمارے جیسے ملک کے لیے ممکن نہیں ہے اور ہسپتالوں اور قرنطینہ سنٹرز کی صورتحال ایسی ہے کہ لوگ خوفزدہ ہوکر یا تو ہسپتال نہیں جارہے یا بھاگ رہے ہیں۔حکمران طبقہ ایسی صورتحال میں ساری ذمہ داری عوام پر ڈالا رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے 1.2ٹریلین روپے کے ریلیف پیکچ کا اعلان کیاہے۔اس پیکچ میں جس طرح سرمایہ داروں کو نواز گیا ہے وہ اس حکومت کا طبقاتی کردار ظاہر کرتا ہے یعنی محنت کشوں کے نام پر سرمایہ داروں کے نقصانات کا ازال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ابھی تعمیراتی صنعت کے لیے پیکچ کا اعلان ہونا باقی ہے۔اس صورتحال میں بڑے بڑے سرمایہ دار گروپ اپنے نقصانات کے لیے حکومت سے امداد کا تقاضا کررہے ہیں۔لیکن لاک ڈاؤن کو اتنے دن گزارنے کے باوجود مرکزی حکومت یا کسی بھی صوبائی حکومت کی طرف سے ڈیلی ویجرز یا شہری ودیہی غریبوں کو کوئی مدد فراہم نہیں کی گی اور سارا زور اسی بات پر دیا جارہا ہے کہ مخیر حضرات جس قدر ممکن ہو لوگوں کی امداد کرئیں لیکن یہ امداد کسی طرح بھی ریاست کے بغیر ممکن نہیں ہے لیکن ریاست نے ابھی امداد دینے کا کوئی طریقہ کار واضح نہیں کیا اور امداد بھی اتنی جو نہ ہونے کے برابر ہوگی۔اس کا مطلب ہے محنت کش عوام کو بھوک اور فاقوں پر مجبو ر کیا جارہاہے۔جو کوئی بھی محنت کشوں کے علاقوں میں جارہا ہے وہ ایک طوفان کی خبر دئے رہا جو محنت کشوں اور غریب عوام میں پل رہا ہے حالانکہ ابھی امید باقی ہے۔کامریڈ عابد حمید کہتے ہیں پچھلے دنوں وہ ایک مڈل کلاس کے دوست کے کہنے پر ان کے ساتھ ماسک کی تقسیم کے لیے والٹن روڈ لاہورپر گئے تو وہاں ایک مجمع لگ گیا اور لوگ روٹی مانگ رہے تھے تین لوگوں نے ماسک واپس کردئیے اور انہوں نے کہاصاحب ہمیں روٹی چاہیے۔
حکومت نے ڈیلی ویجرز کو دوسو ارب دینے کا اعلان کیا گیا ہے تا کہ مالکان کسی کو نوکری سے برخاست نہ کرئیں۔لیکن ابھی تک جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق محنت کشوں کواس مہینہ کی تنخواہ ادا کرکے گھروں میں بیٹھنے کا کہا گیااور بہت ساری اداروں میں انہوں نے جتنے دن کام کیا ہے اس کی تنخواہ ادا کرکے ان کو کہا گیا ہے کہ اب گھر بیٹھیں اور جب حالات ٹھیک ہوں گئیں تو ان کو کام پر بلا لیا جائے گا۔لیکن ایسے ادارے بھی ہیں جنہوں نے پچھلے مہینے کی تنخواہ بھی نہیں دئی اور یہ سب ہی بڑی کمپنیوں کی پالیسی ہے جیسے ماسٹر ٹائیلز گوجرانوالہ،شوگر ملز کے محنت کش،پاکستان کے بڑے ہوٹلوں و ریسٹورنٹس کے محنت کش اور کولگیٹ جیسی کمپنیوں کے محنت کش شامل ہیں۔یہ تو صرف چند ایک کا ذکر ہے ایسا ہی ہر طرف ہے،پورے کے پورے شعبے ہی بند ہوگے ہیں اور محنت کشوں کو نوکریوں سے فارغ کردیا گیا اور یہ سب کچھ صوبائی حکومتوں کے احکامات کے برعکس ہورہاہے جنہوں نے مالکان کوورکرز کو برخاست کرنے سے منع کیا تھا۔یہ سرمایہ داری کا خوفناک چہرہ ہے حالانکہ یہ مالکان جو محنت کشوں کو نوکریوں سے نکال رہے ہیں انہوں نے انہی محنت کشوں کی وجہ سے اربوں روپے کا منافع کمایا ہے اور اگر یہ چاہیں تو ان میں سے اکثریت اپنے ورکرز کو طویل عرصہ تک گھر بیٹھے تنخواہ دسکتے ہیں اور اس سے دولت کے اس انبار پر کوئی فرق نہیں پڑتا جو ان کے پاس ہے۔
ابھی سے محنت کشوں نے کچھ کام کی جگہوں پرتنخواہوں کی ادائیگی کے لیے احتجاج کیا ہے،اسی طرح کراچی میں ابرھیم حیدری کے مچھیروں نے احتجاج کیا اور روڈ بلاک کیا ہے کہ ہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روزگار ہیں اور حکومت کی طرف سے کوئی امداد نہیں آرہی۔اسی طرح ہیلتھ سیکٹر کے ورکرز میں جو ایک شاندار خدمت سرانجام دئے رہے ہیں ان کی بڑی تعداد کررونا وائرس سے متاثر ہورہی ہے کیونکہ ریاست اُن کو بنیادی حفاظتی کٹس فراہم کرنے میں ناکام ہوگی ہے بلکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ نجی شعبے کو ایسی امداد فروخت کی جارہی ہے یا اشرافیہ اس میں سے ایک حصہ اپنے لیے رکھ رہا ہے۔ان حالات میں ہیلتھ سیکٹر کے ورکرز مسلسل سوشل میڈیا پر آواز بلند کررہے ہیں۔یہ صوتحال کسی بھی وقت ایک احتجاج کی صورتحال اختیار کرسکتی ہے۔

معاشی بحران نے پہلے ہی مزدور طبقہ کی کمر توڑدی ہے اور اب لاک ڈاؤن اس کا بھرکس نکال رہاہے۔حکومت اور میڈیا میں ان دنوں سیلانی ویلفیر،عیدی اور مخیر حضرات کا چرچا ہے کہ ریاست کچھ نہیں کرسکتی اور لوگوں کو اپنی مد دخود ہی کرنی ہے۔ابھی لاک ڈاؤن و چند دن ہی ہوئے اور بھوک کا ننگ ناچ شروع ہوگیا ہے ہر طرف ترسی آنکھیں سوال کررہی ہیں کہ کیا کررونا سے پہلے ہی ہمیں بھوکا مارو گے۔ان حالات میں اپنی مدد آپ کےاور انسانی ہمدردی کے تحت عام نوجوان،محنت کش،ٹریڈ یونینز،طلباء کی تنظیمیں اور عورتوں کی تنظیمیں محنت کشوں اور شہری ودیہی غریبوں کو راشن پہنچا رہی ہیں۔یہ حکومت کا کام ہے اور ہمیں اس کے لیے ریاست سے فوری خورا ک اور راشن کی فراہمی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
اس صورتحال سے حکمران طبقہ بھی پوری طرح آگاہ ہے اس لیے حکمران طبقہ ریاست کے پیچھے اکھٹے ہونے کی کوشش کررہاہے اور حکمران طبقہ اسے سب کی لڑائی بناکرپیش کررہاہے۔پولیس اور رینجرز ہر جگہ ناکے لگا رہی ہے،سخت قوانین منظور کیئے جارہے ہیں تاکہ خوف پیدا کرکے احتجاج کو دبایا جاسکے۔اس لیے سوشلسٹوں کو جمہوری آزادیوں کے مطالبہ کو مرکز پر رکھنا چاہیے اور جو ورکرز اس وقت کام کررہے ہیں ان کی ٹریڈیونینز کو محنت کشوں کی کمیٹیاں بنانے کے لیے کہنا چاہیے اور محنت کشوں کے محلوں،علاقوں اور قومی سطح پر کمیٹیوں کی تشکیل کے ذریعے شہروں کی انتظامیہ اور خوراک کی ترسیل اور دیگر معاملات اپنے کنٹرول میں لیں تاکہ دوہری طاقت کا جنم لے سکے جو موجود حکومت سے اپنے مطالبات کے لیے اور سرمایہ داری نظام کے خلاف جدوجہد منظم کرئے۔