تحریر:منروا طاہر، شہزاد ارشد

۔19 اپریل2024 کو شروع ہونے والے ہندوستانی انتخابات میں اگلے چھ ہفتوں میں تقریباً 969 ملین ہندوستانی اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ یہ دنیا کی آبادی کا 10 فیصد سے زیادہ ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) تیسری مدت کے لیے الیکشن جیتنے کے کافی امکانات ہیں لیکن اس الیکشن میں بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا ہندوتوا543میں سے 400 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو سکے گا یا نہیں۔ اتنی بڑی فتح اسے سیکولر ہندوستانی آئین میں ایک اہم ترمیم کو نافذ کرنے کے قابل بنائے گی۔ جو ملک کو باضابطہ طور پر ایک ”ہندو راشٹر” میں بدل سکے گی یعنی ایک ہندو اکثریتی ریاست میں۔

الیکشن کمیشن آف انڈیا کی طرف سے تعینات 15 ملین لوگوں کی نگرانی میں انتخابات پر تقریباً 8.6 بلین امریکی ڈالر لاگت کا تخمینہ ہے۔ ووٹنگ 1 جون کو بند ہوگی اور 4 جون کو نتائج کا اعلان ہوگا۔

ان انتخابات میں 2600 سے زیادہ جماعتیں حصہ لے رہی ہیں لیکن مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) موضوئی طور پر اپنی جیت کے لیے پراعتماد ہے اور قبل از انتخابات انتخابی سروئے میں معروضی طور پر آگے ہیں۔ پارٹی جو 2014 سے اقتدار میں ہے اس الیکشن میں تیسری بار جیتنے کی خواہاں ہے۔ 2019 میں نریندر مودی کی بی جے پی نے 303 نشستیں حاصل کیں اور اس کے بنائے ہوئے اتحاد نے ہندوستانی پارلیمنٹ لوک سبھا میں 352 نشستیں حاصل کیں تھیں۔ بی جے پی نے اس سال کے انتخابات میں 400 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا وعدہ کیا ہے۔ پارٹی اپنی ہندو قوم پرست پالیسیوں اور ہندوستانی آئین کے سیکولر جوہر کو ختم کرنے کے عزم کی وجہ سے دوسرے کلیدی دعویداروں سے ممتاز ہے جو تمام مذاہب کے لیے رسمی مساوات کی ضمانت دیتا ہے یہ اس کی جگہ ہندو اور اکثریتی حکمرانی لانا چاہتے ہیں۔ یہ رجعتی پالیسیاں معاشی ترقی کے وعدوں سے لیس ہیں۔

بی جے پی ہندوستان کی سب سے امیر جماعت ہے اور اسے مکیش امبانی اور گوتم اڈانی جیسے بڑے سرمایہ داروں کی حمایت حاصل ہے، جو بالترتیب ایشیا کے پہلے اور دوسرے امیر ترین لوگ ہیں۔ اس سے بی جے پی کو بھی بھارتی میڈیا پر آہنی گرفت حاصل ہو گئی ہے۔ اڈانی نے این ڈی ٹی وی میڈیا کارپوریشن خریدی جس کے بعد یہ تنقیدی نیوز چینل بی جے پی کے ماوتھ پیس میں تبدیل ہوگیا۔اس کے بدلے میں بی جے پی حکومت نے اڈانی کی فرموں کو توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے بہت سے سرکاری ٹھیکے دیے ہیں۔ ایک حالیہ عدالتی فیصلے سے پتہ چلتا ہے کہ انتخابی بانڈز کے نام سے جانے والی مہم کے مالیاتی مبہم شکل سے بی جے پی کو کتنا فائدہ ہوا ہے۔ پارٹی کو 60 بلین روپے (£ 570m) سے زیادہ کے عطیات ملے جو کہ کسی بھی دوسری سیاسی جماعت سے کہیں زیادہ ہیں۔ دریں اثنا، انڈین نیشنل کانگریس سمیت 27 سے زیادہ جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد (انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائنس، جسے مختصراً ”انڈیا” کہا جاتا ہے) کے دیگر اہم امیدواروں کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جس میں عام آدمی پارٹی کے رہنما جو دہلی کے وزیر اعلیٰ بھی ہیں اروند کیجریوال کو بدعنوانی کے ایک کیس میں انتخابات سے قبل جیل بھیج دیا گیا تھا جب کہ کانگریس پارٹی کے فنڈز کو ٹیکس حکام کے ذریعے منجمد کر دیا گیا ہے۔

 ہندوستانی معیشت

۔1947 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعدہندوستانی سرمایہ داری کی صنعتی ترقی اور سماجی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے معیشت میں بڑے پیمانے پر ریاستی مداخلت کی گی۔ سیاسی طور پراس کی نگرانی کانگریس پارٹی کرتی تھی جس نے کئی دہائیوں تک ملک پر حکمرانی کی۔ لیکن یہ ماڈل سرمایہ دارانہ ریاستی مداخلت کی دوسری شکلوں کی طرح اپنی حدود کو پہنچ گیا۔

۔1990کی دہائی میں کانگریس کی قیادت والی حکومت نے لبرلائزیشن کے اقدامات متعارف کرائے، معاشی پابندیوں کو ڈھیل دی اور نجی شعبے کو خود کو فروغ دینے کی اجازت دی۔ اس کے باوجود حکومت اب بھی دفاع، پاور، بینکنگ اور کچھ دیگر صنعتوں پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھے ہوئے تھی۔ جی ڈی پی میں زرعی شراکت میں کمی آئی ہے لیکن یہ زرعی پیداوار میں کمی کی عکاسی نہیں ہے بلکہ ملک کے صنعتی اور خدمات کے شعبے میں اضافہ ہے۔ کیمیکل اور فارماسیوٹیکل صنعتوں کے ساتھ ساتھ کار اور موٹر بائیک کی تیاری، لوہے، باکسائٹ، سونا، کوئلہ، تیل اور گیس کی کان کنی ہندوستان کی صنعتی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ دریں اثنا، ہنر مند، انگریزی بولنے والے اور تعلیم یافتہ ورکرز کی بڑی تعداد انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بزنس سروسز آؤٹ سورسنگ سیکٹر کی تشکیل کرتی ہے۔ کلیدی شعبے انفارمیشن ٹیکنالوجی، خدمات، زراعت اور مینوفیکچرنگ ہیں۔ خدمات 2022 میں جی ڈی پی کا 48.4 فیصد بنتی ہیں جبکہ زراعت برائے نام 16.7 فیصد تک گر گئی۔

آج ہندوستان کا مقصد چین کے نقش قدم پر چلنا ہے سڑکوں، بندرگاہوں، ہوائی اڈوں اور ریلوے کی تعمیر پر اربوں خرچ کرناہے۔ مودی حکومت نے قومی شاہراہوں کے نیٹ ورک میں 31,000 میل (50,000 کلومیٹر) کا اضافہ کیا ہے، جو کہ 2014 اور 2022 کے درمیان کل لمبائی میں 50 فیصد کا اضافہ ہے۔ سامان کی ہموار نقل و حمل کے لیے ان میگا پراجیکٹس کے کئی ٹھیکے بڑے سرمایہ داروں کو دیئے گئے ہیں جو مودی کے قریب ہیں۔  حکمرانی کی شکل انتہائی بوناپارٹسٹ نوعیت کی ہے جس میں میڈیا، عدلیہ اور فوجداری حکام کی آزادی کو حکومت کی کھلی حمایت میں بدل دیا گیا ہے۔ عوام پر اپنی رٹ نافذ کرنے کے لیے حکومت نہ صرف جابرانہ ریاستی اداروں جیسے کہ پولیس اور فوج پر انحصار کرتی ہے بلکہ سنگھ پریوار کے مختلف انتہائی دائیں بازو کے ہندوتوا گروپوں کی نیم فوجی ملیشیاؤں پر بھی انحصار کرتی ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق ہندوستان میں حقیقی جی ڈی پی 20-21میں کوویڈ19 وبائی بیماری کی وجہ سے سکڑ گئی لیکن 21-22میں نمو میں زبردست واپسی ہوئی۔ مالی سال22-23 میں حقیقی جی ڈی پی میں تخمینہ 6.9 فیصد اضافہ ہوا۔ اس نمو کی وضاحت ”مضبوط گھریلو مانگ، حکومت کی جانب سے انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے لیے زور دینے سے مضبوط سرمایہ کاری کی سرگرمی، اور خاص طور پر زیادہ آمدنی والے افراد میں نجی کھپت” سے ہوتی ہے۔

ہندوستان آج جی ڈی پی کی درجہ بندی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہے اس نے برطانہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کی نوآبادی تھی۔۔ جی ڈی پی کے لحاظ سے یہ صرف امریکہ، چین، جرمنی اور جاپان سے پیچھے ہے۔ 3.94 ٹریلین ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ، یہ 4.11 ٹریلین ڈالر کے ساتھ جاپان سے پیچھے ہے، اور روس جیسی سامراجی طاقتوں سے 2.06 ٹریلین ڈالر اور فرانس 3.13 ٹریلین ڈالر کے ساتھ آگے ہے۔ ہندوستان کی فی کس جی ڈی پی میں 2014 اور 2023 کے درمیان 55 فیصد اضافہ ہوا اور اگلے چند سالوں میں کم از کم 6 فیصد کی سالانہ شرح سے بڑھنے کی امید ہے۔

تاہم ہندوستان کی فی کس جی ڈی پی جو معیار زندگی کا ایک پیمانہ ہے، صرف $2,730 ہے۔ جاپان کی فی کس جی ڈی پی $33,140 ہے جبکہ برطانیہ کی $51,070 ہے۔ بچوں میں غذائیت کی کمی بہت زیادہ ہے، چھ سے 59 ماہ کی عمر کے 67 فیصد بچوں کی گروتھ رک چکی ہے۔ مختصر یہ کہ معاشی ترقی کی شرح ہندوستانی عوام کے معیار زندگی میں بہتری کا اظہار نہیں ہے۔

۔29 سال کی اوسط عمر کے ساتھ ہندوستان دنیا بھر میں سب سے کم عمر آبادی میں سے ایک ہے۔ پھر بھی انٹر نیشنل لیبر آرگنائزئیشن کے مطابق 15 سے 29 سال کی عمر کے پڑھے لکھے ہندوستانیوں کے بے روزگار ہونے کا امکان ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جن کی کوئی تعلیم نہیں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گریجویٹ ڈگری والے نوجوان ہندوستانیوں کے لیے بے روزگاری کی شرح 29 فیصد سے زیادہ تھی جو ان لوگوں کے مقابلے میں تقریباً نو گنا زیادہ ہے جو پڑھ یا لکھ نہیں سکتے۔ طبقاتی عدم مساوات انتہائی سخت ہے۔ ایک طرف ہندوستان کے 1.3 بلین لوگوں میں سے تقریباً 60 فیصد یومیہ $3.10 سے کم پر گزارہ کرتے ہیں، جو کہ عالمی بینک کی اوسط غربت کی لکیر ہے۔ دوسری جانب مکیش امبانی نے اپنی اہلیہ کو ان کی 44ویں سالگرہ کے موقع پر 60 ملین ڈالر مالیت کی ایئر بس تحفے میں دی جس میں ایک لیونگ روم، بیڈروم، سیٹلائٹ ٹی وی، وائی فائی، اسکائی بار، شاورز اور ایک دفتر شامل ہے۔

 ہندوستان نے پچھلی دہائیوں میں بڑے پیمانے پر ترقی دیکھی ہے جس کا جائزہ مارکسی ماہر اقتصادیات مائیکل رابرٹس نے اپنے مضمون ”مودی اور ارب پتی راج کا عروج” میں کیا ہے۔ سرکاری نمو کے اعدادوشمار کا جائزہ لیتے ہوئے وہ دلیل دیتے ہیں کہ وہ تمام باتیں کہ ہندوستان آخرکار چین کے برابر آجائے گا صرف ایک ”تشہیر” ہے اور وہ ترقی کے اعداد و شمار میں مجموعی غلطیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے”ترقی کے اعداد و شمار کو لے لو“۔ جب چین کی طرف سے ترقی کے اعداد و شمار پیش کیئے جاتے ہیں تو مغربی ماہرین اقتصادیات کی طرف سے بارہا رونا رویا جاتا ہے کہ وہ جعلی ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ ہندوستان کا قومی شماریات کا دفتر ہے جو”معیشت کی حقیقی تصویر کشی“نہیں کرتاہے۔ جی ڈی پی کے اعداد و شمار مشکوک زمرے پر مشتمل ہوتے ہیں یعنی مختلف اعدادوشمار میں تناسب نہیں ہوتاہے۔ یہ 7.5 فیصد سالانہ کی حقیقی GDP نمو اور حقیقی گھریلو اخراجات میں صرف 1.5 فیصد سالانہ کے درمیان فرق کا حوالہ دیتے ہیں۔

مزید برآںوہ ہندوستانی اور چینی معیشت کے درمیان دو اہم فرقوں کی طرف اشارہ کرتا ہے (اور عام طور پر سامراجی ریاستوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)

-ترقی نے معیشت کے بڑے حصوں میں خاص طور پر زراعت میں پیداواری صلاحیت کی کم سطح پر قابو نہیں پایا ہے۔

 محنت کش طبقے کا دو تہائی حصہ چھوٹی کمپنیوں میں ملازم ہے جن کی تعداد 10 سے کم ہے۔ وہاں حاصل ہونے والا منافع ان مزدوروں کی اجرتوں اور حالات کو گزربسرکی لاگت سے نیچے دھکیلنے پر مبنی ہے تاکہ وہ اپنی انتہائی پسماندہ تکنیکی بنیادوں کے باوجود کچھ منافع کما سکیں۔

دوسری طرف، ہندوستان نے کچھ انتہائی ہنر مند شعبے بھی تیار کیے ہیں بلکہ ایک بڑھتا ہوا طفیلی (رئیل اسٹیٹ اور مالیاتی شعبہ) بھی جو کہ فرضی ترقی میں معاون ہے۔ مجموعی طور پرہندوستانی معیشت سرمایہ داری کی ناہموار اور مشترکہ ترقی کی ایک مثال ہے جس کی حکومت واضح طور پر ہندوستان کو ”عالمی طاقت” بنانا چاہتی ہے لیکن ایک نیم نوآبادیاتی ملک کی معیشت اور سماجی ڈھانچے کی بنیاد پر جس میں زبردست عدم تناسب ہے۔.

عالمی سطح پر ہندوستان

اپنی بڑھتی ہوئی آبادی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کے ساتھ ہندوستان کا مقصد عالمی سطح پر ایک اہم کھلاڑی بننا ہے۔ تیل کی درآمد پر انحصار کرتے ہوئے یہ دنیا کا تیل کا تیسرا سب سے بڑا صارف ہے۔ اسے تیزی سے سرمایہ کاروں، مینوفیکچررز اور صارفین کے برانڈز کے لیے چین کے ابھرتے ہوئے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بیجنگ اور مغربی دنیا کے بیشتر ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کے ساتھ خاص طور پر یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کے نتیجے میں امریکی بالادستی کے دوبارہ اعادہ کے بعد ہندوستان کے زیادہ تر بڑی معیشتوں کے ساتھ اچھے تعلقات بن رہے ہیں اور وہ سرمایہ کاری کو راغب کر رہا ہے۔

اس کی وجہ سے مودی سرکار کو بھی روایتی موقف بدلنا پڑا7 اکتوبر کے واقعات کے بعد ہندوستانی حکومت نے کھلے عام اپنے آپ کو اسرائیل کی طرف واشنگٹن کیمپ میں کھڑا کر دیا ہے۔ قابل ذکر حقیقت یہ ہے کہ اڈانی کے ایرو ڈیفنس کا اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنی ایلبٹ کے ساتھ 2016 سے معاہدہ ہے۔

تاہم جس طرح معیشت کی سطح پرہندوستان کے عالمی عزائم کو حقیقی چیلنجوں کا سامنا ہے لیکن امریکہ اور چین اور ان کے متعلقہ اتحادیوں کے درمیان عالمی مخاصمت نے اسے کچھ جگہ دی ہے اسی تناؤ کا مطلب یہ ہے کہ ”شراکت دار” بھارت کو ایک اہم لیکن اس کے باوجود ماتحت اتحادی بنانے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔

متضاد پوزیشن جس میں ہندوستانی سرمایہ داری خود کو پاتی ہے،وہ اندرونی طورپر بوناپارٹسٹ حکمرانی کی طرف دھکیلنے اور اس کے لیے پاپولزم، نسل پرستی اور ہندو شاونزم کے ذریعے ایک بڑے پیمانے پر سماجی بنیاد بنانے کی ضرورت کی بھی وضاحت کرتی ہے۔

مسلم اقلیتیں بمقابلہ انتہائی دائیں بازو کے جھتے

اس تبدیلی کی بنیادنہ صرف ہندوستان کا مغرب کی طرف بڑھتا ہوا جھکاؤ ہے بلکہ ملک کے 200 ملین مسلمانوں پر ظلم کرنے کی ایک دہائی سے جاری ریاستی منظور شدہ پالیسی کی وجہ سے ہے۔ بی جے پی کے دور حکومت میں اسلامو فوبیا کو ریاستی پالیسی کے طور پر معمول بنا لیا گیا ہے۔ رام مندر کی تعمیر جہاں کبھی بابری مسجد کھڑی تھی ہندوستان میں مسلم مخالف نسل پرستی اور نفرت کا سب سے شدید اظہار ہے۔ یہ نسل پرستی عمر خالد اور شرجیل امام جیسے مسلم ایکٹوسٹوں پر سیاسی جبر سے بھی ظاہر ہوتی ہے، جو برسوں سے ناقابل ضمانت الزامات کے تحت قید ہیں۔

اس سال کے انتخابات سے پہلے وزیر داخلہ امیت شاہ اور مودی نے رجعت پسند شہریت ترمیمی قانون سی سی اے کو نافذ کرنے اور لاگو کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ یہ قانون دسمبر 2019 میں منظور کیا گیا تھاجس کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے جس میں سینکڑوں لوگ مارے گئے تھے اور دیگر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے صرف غیر مسلم مذہبی اقلیتوں کو ہی ہندوستان میں شہریت حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ مودی حکومت نے اسی سال جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی ختم کر دیااور مؤثر طریقے سے مقبوضہ علاقے کو الحاق کر لیاتھا۔ مزید برآں شمال مشرقی ریاست آسام میں نیشنل سٹیزن رجسٹری (NRC) متعارف کروائی گئی جس کے نتیجے میں تقریباً 20 لاکھ افرادجن میں زیادہ تر مسلمان تھے ان سے ہندوستانی شہریت چھین لی گئی۔ امیت شاہ نے نومبر 2019 میں NRC کے ملک گیر نفاذ کا وعدہ کیا تھا اس کے بعد دسمبر میں CAA کی منظوری دی گئی تھی۔ جس سے حکومت کا امتیازی ارادہ عیاں ہو گیاہے۔

دہلی میں سی سی اے اور این سی آر کے بعد پھوٹنے والے تشدد کو بجا طور پر مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت قرار دیا گیا ہے۔ یہ منظم تشدد تھا جس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور جو بھی چیز مجرموں کے خلاف ثبوت کے طور پر استعمال کی جا سکتی تھی جیسے کہ سی سی ٹی وی کیمروں کو پولیس نے تباہ کر دیا۔ مسلمانوں سے تعلق رکھنے والی دکانوں اور مکانات کی نشاندہی کی گئی تھی اور ان کو اس انداز سے نشانہ بنایا گیا تھا کہ ان سے ملحقہ تمام محفوظ رہیں۔ مسلم خواتین کے حجاب اتارے گئے اور انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ1930 کی دہائی میں یہودیوں کے خلاف کیے جانے والے قتل و غارت سے ایک پریشان کن مماثلت تھی کیونکہ ہندو ہجوم نے مساجد اور اسلامی عبادت گاہوں پر حملہ کیا مذہبی کتابوں کو جلایا اور اقلیتی برادری کو مارنے تباہ کرنے اور دہشت زدہ کرنے کے لیے مختلف ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ پولیس نے یا تو مداخلت کرنے سے انکار کر دیا یا ایسے معاملات میں جب اہلکار پرتشدد مقامات پر پہنچے انہوں نے مجرموں کو سرپرستی فراہم کی یا مسلمانوں پر پتھراؤ کیا یا لاتعلق تماشائی بن کر کھڑے رہے جب کہ ہجوم نے ”دہلی پولیس زندہ باد“کا نعرہ لگایا۔

ان واقعات کے بعد بہت سے مسلمان اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ پولیس نے بعد میں ان میں سے بہت سے لوگوں کو ان کی جان و مال پر حملوں کے خلاف درج مقدمات واپس لینے پر مجبور کیا۔ بلاوئے کے ساتھ مرکزی دھارے اور سوشل میڈیا میں مسلم کمیونٹی کی ٹارگٹ کرکے ان کی بے عزتی کی گئی۔ مودی حکومت کی شہریت کی نئی تعریف کرنے کی کوشش 1935 کے نازی شہریت کے قوانین کی یاد دلا رہی ہے جس نے یہودیوں کی نسل کشی کی طرف پہلا قدم اٹھایا تھا اس سے محروم رہنا مشکل ہے۔ درحقیقت بی جے پی کے کئی لیڈروں نے سنگھ پریوار کی دیگر ہندوتوا دائیں بازو اور فاشسٹ پارٹیوں کے لیڈروں کے ساتھ واضح طور پر مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی نسل کشی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ مختصراًمسلمان مخلوط محلوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور انہیں دوسرا بننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

”جئے شری رام“ کا نعرہ اب کوئی مذہبی اظہار نہیں ہے۔ یہ قتل کے لیے ایک اہم ہتھیار بن گیاہے سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز کے ساتھ جس میں دکھایا گیا ہے کہ ہندو ہجوم مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں اور انہیں ہراساں کرتے ہیں اور انہیں نعرے کو دہرانے پر مجبور کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو اکثر ”غیر ملکی” قرار دیا جاتا ہے اور مسلمان مردوں پر ”لو جہاد” کے ارتکاب کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے جو کہ ہندو خواتین کو ان سے محبت کر کے انہیں ”چوری“کرنے کی سازش ہے۔

بیپھرے ہوئے ہندو ہجوم نے گائے کا گوشت کھانے پر مسلمانوں قتل کیالیکن انہیں سزا نہیں دی گئی۔ انہوں نے صحافیوں اور آزاد سوچ رکھنے والوں کو قتل کیا ہے۔دیگر وائرل ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ مسلمان خواتین کو ہندو تہوار ہولی کے موقع پر رنگین پانی کا چھڑکاؤ کر کے ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان مجرموں کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی مختلف انتہائی دائیں بازو اور فاشسٹ تنظیموں نے بنیاد پرستی اور انپرتشدد طریقہ کار کی تربیت دی ہے جس کا مودی آٹھ سال کی عمر سے ہی رکن ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ مسلم مخالف یوگی آدتیہ ناتھ نے دھمکی دی کہ جو بھی سورج کو یوگک سلام کرنے سے انکار کرے گا اسے سمندر میں غرق کر دیا جائے گا۔اس کی باضابطہ طور پر منتشر عسکریت پسندوں کی نجی فوج جسے ہندو یووا واہنی کے نام سے جانا جاتا ہے یہ ابھی تک وجودرکھتی ہے۔اس نے نوجوانوں کو گائے کے تحفظ کو نافذ کرنے کے لیے متحرک کیا،”لو جہاد“کے خلاف لڑنے اور ”گھر واپسی“موقع دینے کے لیے یعنی”دوبارہ واپسی“ہے۔یہ سب مسلمانوں اور عیسائیوں کوہندو مذہب میں لانے اور ایک حد تک سکھ مذہب میں تبدیلی سے ہے۔

گھر واپسی آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد (ایک اور انتہائی دائیں بازو کی ہندو قوم پرست تنظیم) کے اشتراک سے ایک پروگرام ہے، جس کی جڑیں اس غلط خیال سے جڑی ہوئی ہیں کہ ہندوستان کے تمام لوگ آبائی طور پر ہندو ہیں۔ پروگرام کے بالادست جوہر کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ تبدیلی کے عمل کو ”شدھی” کہا جاتا ہے، جس کا مطلب پاکیزگی ہے، اور اسے ان کے ”سچے” مذہب کی طرف واپسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

بی جے پی 400 سیٹیں کیوں نہیں جیت سکتی؟

۔2019 میں زبردست جیت کے باوجود مودی کی پارٹی نے گزشتہ انتخابات میں براہ راست کل ووٹوں کا صرف 37 فیصد حاصل کیا تھا۔ شمالی ہندوستان میں ہندی بولنے والی پٹی میں بی جے پی کا غلبہ ہے لیکن مشرقی اور جنوبی ریاستیں خاص طور پر کیرالہ اور تمل ناڈو، مودی لہر موجود نہیں ہے۔ بی جے پی ان علاقوں میں خود کو مقبول بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ ان کوششوں کی کامیابی ابھی دیکھنا باقی ہے۔

دریں اثناراہول گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا 2019 میں ووٹوں کا حصہ 20 فیصد تھا۔ پارٹی کی حمایت سیکولر ہندو، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر مشتمل ہے۔  اس کے مرکزی موضوعات میں یہ مودی کو ایک خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ جمہوریت اور سیکولرازم کا دفاع اور عدم مساوات مخالف پالیسیوں کی تجویز جیسے اپرنٹس شپ کا قانونی حق، کسانوں کے لیے کم از کم امدادی قیمتیں، غریب خاندانوں کو 100,000 روپے کی نقد رقم کی منتقلی اور 400 روپے یومیہ کی کم از کم اجرت شامل ہے۔ ان وعدوں کے باوجود کانگریس پارٹی سرمائے کی پارٹی ہے جس کا واضح ثبوت پارٹی لیڈروں نے ایودھیا میں رام مندرکے افتتاح، پارٹی کی مجوزہ ذات پات کی مردم شماری اور7 اکتوبر کے واقعات پرجو رسپانس دیا ہے۔ مزید برآں انڈیا اتحاد ابھی تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس کے کئی رہنما بی جے پی میں چلے گئے ہیں اور دیگر مختلف مسائل پر آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔

گزشتہ انتخابی مہم میں بی جے پی نے لاکھوں بے روزگار ہندوستانیوں کے لیے نوکریاں پیدا کرنے اور فلاح و بہبود کے ذریعے عوام کی زندگیوں کو بلند کرنے کا وعدہ کیا تھا۔یہ وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دائمی بے روزگاری خاص طور پر نوجوانوں کے لیے اور مہنگائی میں اضافہ انتخابات میں بی جے پی کے خلاف جاسکتاہے۔ مزید برآں نسلی اور فرقہ وارانہ منافرت کے جرائم کا شکار ہونے والوں کی اکثریت بی جے پی کو ووٹ دے کر دائیں بازو کے ہندو وں کو مضبوط نہیں کرے گی۔

ہندوستانی لیفٹ

کمیونسٹ پارٹیاں اور ٹریڈ یونین اب بھی ہندوستان کے کچھ حصوں میں سماجی بنیاد یں رکھتی ہیں اور ایک سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ مودی کے عروج کا متبادل فراہم کر سکتے تھے۔ تاہم انہوں نے طبقاتی تعاون کی اپنی سٹالنسٹ روایت کو برقرار رکھا اور کانگریس پارٹی کے زیرقیادت اتحاد ”انڈیا” میں شمولیت اختیار کی۔ انڈیا کے امیدوار بشمول سٹالنسٹ یہ خیال پیش کر رہے ہیں کہ ہندو بالادستی کے این ڈی اے اتحاد کو ”جمہوریت کو تباہ” کرنے سے روکنے کا واحد راستہ انڈیا (اتحاد)کی حکومت کا انتخاب ہے۔

مودی حکومت کی طاقت،جابرانہ ریاستی قوتوں پر اس کا کنٹرول اور ہندو شاونسٹ اور نیم فاشسٹ طاقتوں کے محنت کش طبقے اور کسانوں، مذہبی اور نسلی اقلیتوں، طلباء اور خواتین پر حملے کے پیش نظر بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انڈیا (اتحاد)ایک کم برائی کے طور پر اور بی جے پی کی طاقت کو روکنے یا کم از کم اس پر قابو پانے کا واحد طریقہ ہے۔

یہ مخالف طبقات کااتحادہے جس میں وہ پارٹیاں شامل ہیں جو ہندوستانی بورژوازی کے حصوں کی نمائندگی کرتی ہیں اور کمیونسٹ پارٹیوں جیسی پارٹیاں جو کہ محنت کش طبقے اور ٹریڈ یونینوں سے باضابطہ طور پر جڑی ہوئی ہیں یہ سب ہندو قوم پرست دشمن کے خلاف قوتوں کو بڑھاتی نظر آتی ہیں لیکن حقیقت میں مخالف طبقات کی قوتیں اگر آپس میں مل جائیں تو ایک مضبوط قوت میں اضافہ نہیں کرتیں بلکہ درحقیقت ایک دوسرے کو مفلوج کردیتی ہیں۔ زیادہ واضح طور پروہ محنت کش طبقے اور معاشرے کے مظلوم طبقے کو مفلوج کر دیں گئی۔ کانگریس ہندوستانی بورژوا طبقے کی ایک پارٹی کے طور پرایسے اتحاد پر تب ہی اتفاق کرے گی جب کمیونسٹ پارٹیاں، ٹریڈ یونینز اور سماجی تحریکیں خود کو بورژوا مفادات کے تابع کر لیں۔ کانگریس کی حکومت اس جدوجہد کو اپنے مفاد میں رکھے گی اور اس طرح عوامی بنیاد کو کمزور اور بے حوصلے کردئے گی۔اگرنڈیااتحادجیت جاتا ہے جس کے امکانات کم ہیں میں یہ محنت کشوں کی تنظیموں کے لیے ایک تباہی ہوگی۔

اس لیے ہم ایسے اتحاد کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔اگر انڈیا کی حکومت برسراقتدار آتی ہے تو یہ بھی دائیں بازو کی سرمایہ دارانہ حکومت ہوگی جو نیو لبرل سرمایہ دارانہ پالیسیوں کو متعارف کرانے اور نافذ کرنے کی کانگریس پارٹی کی دیرینہ روایت کو جاری رکھے گی۔

بڑا سرمایہ مودی کی پشت پناہی کرتا ہے کیونکہ اس نے نجکاری اور مزدوروں کے حقوق پر حملوں کے حوالے سے ان کی تمام خواہشات کو پورا کیا ہے، اور بھارت کو عالمی سطح پر ایک ایسی طاقت کے طور پر قائم کرنے کے جارحانہ عزائم رکھتا ہے جسے عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے۔ مودی اقتدار میں آنے کے بعد یقیناً اس سیاسی پروگرام کو جاری رکھے گے اور راہول گاندھی بھی ایسا ہی کرئے گاسوائے اس کے کہ وہ اسی پروگرام کو سماجی جمہوری زبان میں پیش کرئے گے۔ اس پروگرام کے تحت ہندوستانی معیشت نے ترقی کی ہے اور ملک ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرا ہے لیکن یہ ایک ”بے روزگاری کی ترقی“ہے۔ گاندھی یا کیجریوال کی زیرقیادت حکومت میں اس میں سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ روزگار کے بحران اور مہنگائی پر عوامی بیان بازی کے باوجوداہم اپوزیشن بورژوا پارٹیاں مودی کی محنت کش عوام سے نفرت اور عوام اور اقلیتوں کے جمہوری حقوق پر پابندیوں کی مخالف نہیں ہیں۔ پاکستان مخالف بیان بازی، دہلی کے قتل عام کے دوران کیجریوال کی بے عملی اور 1990 کی دہائی میں کانگریس پارٹی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام نیز یہ حقیقت کہ انتہائی دائیں بازو کی شیو سینا اس اتحاد کا حصہ ہے،جواس ”سیکولر” اتحادکی چند اہم خصوصیات میں ایک ہے لہٰذا ہم اس وہم کو مسترد کرتے ہیں کہ ہندوستانی عوام کو ایک چھوٹی برائی کے ذریعے ملک کی حفاظت کے لیے انڈیا نامی اس پاپولر فرنٹ کو ووٹ دینا چاہیے۔

آگے بڑھنے کا راستہ

اس کے بجائے ہم کمیونسٹ پارٹیوں، ٹریڈ یونینوں اور طلباء، خواتین، کسانوں، دلتوں، قومی اور مذہبی طور پر مظلوموں کی تمام سماجی تحریکوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے بورژوا ”اتحادیوں ” سے ناطہ توڑ لیں اور آنے والی ناگزیرجدوجہدوں کی تیاری کریں۔

ہندوستانی انتخابات میں اتحاد ہر حلقے میں صرف ایک امیدوار کھڑا کر سکتا ہے۔ ہم مزدوروں، کسانوں اور ہندوستان کے تمام مظلوم لوگوں جیسے خواتین اور جنسی، مذہبی اور قومی اقلیتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان حلقوں میں خالی ووٹ ڈالیں جہاں انڈیا اتحاد کا بورژوا امیدوار کھڑا ہے۔ جن حلقوں میں کمیونسٹ پارٹیوں اور ٹریڈ یونینوں سے تعلق رکھنے والے امیدوار کھڑے ہیں ہم استحصال زدہ اور مظلوم عوام سے ان کے حق میں ووٹ ڈالنے کی اپیل کرتے ہیں اور ان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آنے والی جدوجہد کی تیاری کریں۔

 اس طرح کا ووٹ انتہائی اہم ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم انہیں ووٹ دینے کے لیے کہتے ہیں کیونکہ وہ کم از کم متعدد انتخابی اضلاع میں بڑے پیمانے پر محنت کش طبقے کی حمایت رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی ہم ان کی طبقاتی سمجھوتے کی سیاست اور ان کے اصلاح پسند پروگرام کو مسترد کرتے ہیں۔ ہندوستان کی مختلف کمیونسٹ پارٹیوں کے پاس اقتدار میں نہ ہونے پر مزدور نواز وعدے کرنے اور پھر محنت کش طبقے کے ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آنے پر سرمایہ کاروں کی حامی پالیسیاں نافذ کرنے کا ریکارڈ موجود ہے۔ وہ کبھی بھی اپنی بنیاد کے سامنے جوابدہ نہیں رہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بہت کم کام کیا کہ اقتدار استحصال زدہ اور مظلوم عوام کے پاس ہو۔ اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

اس لیے ہم ان امیدواروں اور ان کی جماعتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اگلی حکومت کے خلاف ورکرز یونائیٹڈ فرنٹ کی تشکیل کرئیں، جمہوری اور سماجی حقوق پر حملوں کے دفاع میں تمام مظلوم پرتوں سمیت متحدہ محاذ بنائیں۔ انتہائی دائیں بازو کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے دور میں ہمیں دفاعی ملیشیا کے ذریعے ایک مؤثر دفاع کرنے کی بھی ضرورت ہے جو منظم فاشسٹ ہجوم، ہڑتال توڑنے والوں کے گروہوں یا ریاستی جبر کے حملوں کا مقابلہ کر سکے۔ یہ کام ہندوستان کے محنت کش عوام پر فرض ہے چاہے اصلاح پسند پارٹیوں کے لیڈران ان پر کان دھرنے سے انکار کر دیں۔ ہم ہندوستانی محنت کش اور مظلوم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں اور متحدہ محاذ اور دفاعی ملیشیا کو منظم کرنے کے لیے درج ذیل مطالبات کا استعمال کریں۔

سی سی اے، این آر سی نامنظور! رجعتی قوانین کو منسوخ کریں۔ذات پات، مذہب، جنس، جنسی رجحان کے بغیر سب کے لیے مساوی حقوق!

– سب کے لیے نوکریاں! مزید ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے کام کے اوقات کم کریں!

سب کے لیے کم از کم اجرت 20000 ! اجرتوں کا سلائیڈنگ سکیل۔مہنگائی میں 1 فیصد اضافے کے ساتھ اجرت میں بھی 1 فیصد اضافہ

– کسانوں کے لیے سبسڈی! بڑے زمینداروں کے قبضے سے زمین کی دوبارہ تقسیم!

– سب کے لیے مفت بجلی، گیس، کھانا اور رہائش!

– خواتین اور جنسی اقلیتوں کے لیے محنت کشوں کے زیر انتظام پناہ گاہیں!

– عمر خالد اور شرجیل امام سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے! غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کو منسوخ کریں!

– آزاد کشمیرکی خود مختاری بحال کرو، بھارتی فوجیں کشمیر سے نکل جائیں! شمال مشرق کی تمام ریاستوں کے لیے خود مختاری۔

– امیروں اور منافع پر بڑے پیمانے پر ٹیکس لگائے جائیں! امبانیوں، اڈانیوں اور دولت کے دیگر ذخیرہ اندوزوں کی دولت کو ضبط کرو! صحت کی مفت سہولت، بے روزگاری کے فوائد اور دیگر فلاح و بہبود کے لیے محنت کشوں کے کنٹرول میں ان کی دولت کا استعمال کریں!

اس طرح کے مطالبات عوام کو درپیش اہم مسائل کو حل کریں گے۔ لیکن انہیں ایک نئی مودی حکومت اور سرمایہ دار طبقے کی طرف سے اعلان جنگ کے طور پر دیکھا جائے گا (اور حقیقت میں کانگریس کی قیادت والی حکومت کی طرف سے بھی)۔ ان کو پرعزم جدوجہد سے ہی نافذ کیا جا سکتا ہے۔پچھلی دہائی میں 100 ملین سے زیادہ مزدوروں کی کئی ایک دن کی ہڑتالوں کے ساتھ، ٹریڈ یونینوں، کسان تنظیموں، خواتین اور طلباء کی تحریکوں یا CAA اور NRC کے خلاف جدوجہد نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ وہ سماجی طاقتیں جو آخر کار مودی کو شکست دے سکتی ہیں۔ یہ موجود ہیں اور بڑی تعداد میں باہر آنے کو تیار ہیں۔

لیکن ایسی تحریک کو ایک دن کی علامتی ہڑتالوں یا بڑے پیمانے پر مظاہروں سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہوگی۔ اسے ایک تحریک بننے کی ضرورت ہوگی جو ہندوستانی سرمایہ داری کو ایک عام ہڑتال، قبضوں، مظاہروں اور عوامی جدوجہد کی دوسری شکلوں کے ذریعے روک سکے۔ ایسی تحریک کے لیے نہ صرف کیمونسٹ پارٹیوں، یونینوں اور سماجی تحریکوں کے قائدین کے متحدہ محاذ کی ضرورت ہوگی۔ سب سے بڑھ کر اسے خود عوام کا ایک متحدہ محاذ بننے کی ضرورت ہوگی جس کی بنیاد کام کی جگہ، اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں لڑنے والی تنظیموں پر ہو۔ اسے فیکٹریوں اور دفاتر، قصبے اور دیہی علاقوں میں کونسل آف ایکشن کوتعمیر کرنا ہوگا۔

ایسی جدوجہدچاہے اس کا آغاز معاشی اور جمہوری ”فوری“مطالبات سے ہوا ہویہ اقتدار کی جدوجہد میں تبدیل ہو سکتی ہے – جزوی طور پر اس کی اندرونی حرکیات کی وجہ سے لیکن اس کی وجہ سے بھی کہ اسے مودی انتظامیہ کی طرف سے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہٰذااسے اپنے دفاع کے ادارے تیار کرنے اور مفلوج کرنے کے لیے لڑنے کی بھی ضرورت ہو گی اور بالآخر فوجیوں کی کمیٹیاں بنانے کے لیے رینک اور فائل سپاہیوں کی کمیٹیاں تشکیل دینی ہوں گئیں جو ریاست کا خاتمہ کرسکیں۔

ہندوتوا آمریت کے ذریعے چلائی جانے والی نسلی ریاست کے قیام کے انتہائی دائیں بازو کے خواب کو محنت کش طبقے کی جدوجہد کے ذریعے کچلا جا سکتا ہے جس سے محنت کشوں کی حکومت بنانے کی ضرورت پیش آئے گی جس کی بنیاد بورژوا ریاستی اداروں پر نہیں بلکہ ان کے اپنے بنائے گئے اداروں پر ہو گی اور جدوجہدیعنی مزدوروں اور کسانوں کی کونسلوں اور مسلح مقبول ملیشیا پر مبنی ہوگی۔ ایسی حکومت بڑے پیمانے پر سرمائے کو ضبط کرے گی اور مرکزی منصوبہ بند معیشت کی طرف ترقی کرتے ہوئے عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہنگامی منصوبہ متعارف کرائے گی۔ یہ تمام استحصال زدہ اور مظلوم عوام کے لیے حقیقی مساوی حقوق اور مواقع متعارف کرائے گا۔ اس حکومت کو بنانے کے لیے ہمیں محنت کش طبقے کی ضرورت ہے جو ایسے انقلاب کے لیے قیادت فراہم کرے۔

قیادت کا بحران، جو ہندوستان میں کئی دہائیوں سے موجود ہے انقلابی پروگرام کی بنیاد پر ورکرز پارٹی کی تعمیر کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر کار سب کے لیے حقیقی امن اور مساوات صرف محنت کشوں کی حکومت کے ذریعے ہی قائم ہو سکتا ہے جو جنوبی ایشیا کی متحدہ سوشلسٹ ریاستوں کی تشکیل کے لیے جدوجہد کا آغاز کرے۔ ہم تمام محنت کشوں، کسانوں، سوشلسٹوں اور مظلوموں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس مشن میں ہمارا ساتھ دیں اور پانچویں انٹرنیشنل کی تعمیر کا حصہ بنیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *