(سوشلسٹ مزاحمت(رپورٹ
۔28اپریل بروز منگل کو لیفٹ کے گروپس اور ٹریڈ یونینزکے درمیان کورونا وائرس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر ایک میٹنگ ہوئی جس میں موجود صورتحال کے تناظر میں ایک اتحاد قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس اتحاد کا نام ورکرز یکجہتی کمیٹی رکھا گیا۔ اس کمیٹی کی تشکیل کے فیصلے میں عوامی ورکرز پارٹی،پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن،نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، مزدور محاذ، این ایس ایف، مزدور اکٹھ،ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ، انقلابی سوشلسٹ موومنٹ،محنت کش تحریک،انقلابی سوشلسٹ اورورکرز ڈیموکریسی شامل ہیں۔ اس میٹنگ میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اس حوالے سے دیگر ٹریڈیونینوں اور لیفٹ کی تنظیموں سے رابطہ کیا جائے گا تاکہ اس بحران کے خلاف عمل میں اکھٹا ہوا جاسکے۔
ورکرز یکجہتی کمیٹی نے یوم مئی پر ایک آن لائین میٹنگ کی جس میں 60کے قریب ساتھی شریک ہوئے۔مقررین کا اس بات پر اتفاق تھا کہ پاکستان کا معاشی اور سماجی بحران انتہائی شدت اختیار کرگیا ہے اور سرمایہ داری کی حدود میں اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ حالانکہ حکومت نے عملی طور پر لاک ڈاؤن ختم کردیا ہے لیکن اس سے صورتحال میں زیادہ بہتری ممکن نہیں ہے پاکستان میں جی ڈی پی کی اس سال گروتھ منفی 1.5سے بھی کہیں زیادہ نیچے جاسکتی ہے اور دوسری طرف عظیم عالمی کسادبازاری کے بعد عالمی معیشت میں شدید سکڑاؤ ہونے جارہاہے اور آئی ایم ایف کے مطابق یہ عالمی معیشت میں منفی تین فیصد گروتھ متوقع ہے۔ان حالات میں یہ واضح ہے کہ پاکستان میں ایک سے دو کروڑنوکریاں ختم ہوسکتی ہیں اور دوسری طرف حکومت سرمایہ داروں اور مالکان کو مسلسل نواز رہی ہے لحاظ ایک بدترین صورتحال سامنا آرہی ہے۔اس میں محنت کشوں کے ساتھ رابطہ میں آنے اور ان کو منظم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف حکمران طبقہ کے حملوں کا مقابلہ کیا جاسکے بلکہ جدوجہد سے مزید مراعات جیتی جاسکیں۔
اس کے ساتھ پچھلے دوہفتوں سے گرینڈ ہیلتھ الائنس احتجاج کررہا ہے کیونکہ ہیلتھ سیکٹر میں حٖفاظتی کٹس فراہم نہیں کی جارہی ہیں اور جہاں یہ مل بھی رہی ہیں وہ اس قابل نہیں ہیں کہ کہ کورونا کا مقابلہ کرسکیں اسی لیے ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر حسیب کہتے ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق 25فیصد ہیلتھ ورکرز کو کورونا ہوسکتاہے۔یہ خوفناک صورتحال کو ظاہر کررہاہے۔ان حالات میں میٹنگ نے فیصلہ کیا کہ گرینڈ ہیلتھ الائنس کی جدوجہد کی حمایت کی جائے اور ان کے احتجاجوں میں جائے اور ہیلتھ سیکٹر اور دیگر شعبوں میں جنم لینے والے مسائل اور جدوجہد کو اکھٹا کیا جائے اور واضح کیا جائے کہ کیسے ینگ ڈاکٹرز،نرسز،پیرامیڈیکل اسٹاف،مزدوروں،طلباء اور عورتوں کی اس نظام کے خلاف جدوجہد مشترکہ ہے اور ہم ملکر ہی حکومت اور مالکان کے حملوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ہماری جدوجہد زندہ رہنے کے حق کی جدوجہد ہے جبکہ ایسی وباء کے موقع پر بھی حکومت اور مالکان انسانی زندگی پر منافع کو ترجیح دئے رہے ہیں۔
یہ اتحاد درجہ ذیل مطالبات کے گرد قائم کیا گیا ہے۔
ریاست سے ہمارے مطالبات:
۔ 1مزدور طبقہ کے روزگار اور زندگیوں کا تحفظ:

  • فوری طور پر تمام مزدوروں کو تیس ہزار روپے ماہانہ اجرت کے ساتھ چھٹی پر بھیجا جائے! تمام رقوم ڈیجیٹل ٹرانسفر کے ذریعہ فراہم کی جائیں!
    ۔ تمام بے روزگاروں کو روزگار دیا جائے اور جب تک روزگار نہیں ملتا، ڈیجیٹل ٹرانسفر کے ذریعہ ماہانہ تیس ہزار روپے بے روزگاری الاؤنس دیا جائے! ضرورت کے مطابق اجرت دی جائے!
    ۔ تمام مزدوروں، کسانوں اور چھوٹے درمیانے طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کا کرایہ حکومت ادا کرے! سرمایہ داروں کو ریلیف پیکج اور فوج کو بڑے بڑے بجٹ دینے کے بجائے کچی آبادیوں کے حالات بہتر کرنے پر سرمایہ لگایا جائے تاکہ غرباء کو ایسی رہائش میسر ہو سکے جہاں وہ سماجی دوری پر واقعی عمل درآمد کر سکیں!
    ۔ تمام ہیلتھ ورکروں بشمول ڈاکٹر، نرس، پیرامیڈیکل اسٹاف اور جینیٹر اور دیگر ضروری صنعت میں کام کرنے والے محنت کشوں کو فوری طور پر حفاظتی کٹ اور آلات فراہم کئے جائیں!
  • سرمایہ داروں کو ریلیف دینے کے بجائے وینٹیلیٹرز کی پیداوار پر پیسہ لگایا جائے اور ہر صوبہ کے لئے کم ازکم 10000 وینٹیلیٹر فوری طور پر بنائے جائیں!
  • فوڈ راشن کا نظام محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں فوری طور پر متعارف کرایا جائے!
    پنشن میں کٹوتیوں ختم کی جائیں۔
  • تمام مزدوروں اور چھوٹے کسانوں کو سوشل سیکورٹی اور اولڈ ایج بینیفٹ کی سہولت فوری طور پر فراہم کی جائے!
    -50 ایکڑ سے زیادہ کی تمام زرعی اراضیوں کو قومی تحویل میں لیا جائے اور چھوٹے کسانوں اور بے زمین زرعی مزدوروں میں تقسیم کیا جائے۔ نیشنلائزیشن پر مالکان کو کوئی معاوضہ نہ دیا جائے!
    ۔2 محنت کش عورتوں، بچوں اور نوجوانوں کا تحفظ:
    ۔ آنلائن کلاسز فوری طور پر معطل کی جائیں۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر بھیجا جائے۔ جو تعلیمی ادارے ایسا نہ کریں انہیں قومی تحویل میں لے کر اساتذہ و دیگر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے۔
    ۔ لاک ڈاؤن کے سبب خواتین اور بچوں پر گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ ریاست مزید پناہ گاہیں فوری طور پر قائم کرے! وسائل کے لئے امراء پر ٹیکس لگائے!
  • ریاست خواتین کے لئے علیحدہ قرنطینہ سہولیات عورت محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں فراہم کرے کیونکہ مریضوں کے ساتھ جنسی تشدد کی رپورٹیں سامنے آئی ہیں!

۔ 3بنیادی جمہوری حقوق کا تحفظ:
۔ احتجاج محنت کش عوام کا بنیادی جمہوری حق ہے۔ ایم پی او، دفعہ 144 وغیرہ جیسے کالونیل قوانین کو فوراََمعطل کیا جائے!
۔ مظلوم قوموں کو حق خود ارادیت فراہم کیا جائے!
۔4 عوام دشمن سامراج کی مخالفت:
۔ آئی ایم ایف و دیگر اداروں اور سامراجوں سے قرض لینا بند کئے جائیں اور اب تک لئے گئے قرضوں کی ادائیگی سے انکار کیا جائے۔
ہمارا لائحہ عمل:
مندرجہ بالا مطالبات کو پورا کرنے کے لئے ہمیں ایک لائحہ عمل یعنی پلان آف ایکشن بنانا ہوگا۔ اس لائحہ عمل کے لئے ہماری تجاویز یہ ہیں:

تمام ٹریڈ یونینیں، بائیں بازو کی تنظیمیں اور سماجی تحریکیں ان محنت کشوں کی فہرست تیار کریں جن کو نوکریوں سے نکالا گیا ہے۔ جن علاقوں میں ممکن ہو ان نکالے گئے مزدوروں کی میٹنگیں کی جائیں۔
کام کی جگہ اور مزدور بستیوں میں ورکرز کمیٹیاں قائم کی جائیں۔
محنت کشوں کو نوکریوں سے نکالنے اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کی کال دی جائے۔
۔23 مئی کو ویڈیو کال کے ذریعے ایک مزدور کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ موجود صورتحال کا جائزہ لیا جائے اور مزدور تحریک مل کر حکمران طبقہ کے حملوں خلاف لائحہ عمل تریب دے سکے۔
لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد تمام اضلاع میں مزدور کانفرنسیں کی جائیں جس کے بعد مرکزی مزدور کانفرنس منعقد کی جائے۔