تحریر:شہزاد ارشد
ورکرزیکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام 19مئی بروز منگل ملک بھر میں احتجاجات ہوئے۔ان احتجاجوں میں مختلف فیکٹر یوں سے نکالے گئے مزدوروں کے علاوہ سیاسی کارکن،طلباء اور عورتیں موجود تھیں۔ورکرز یکجہتی کمیٹی کا مقصد محنت کش طبقہ پر ہونے والے حملوں کے خلاف آواز اٹھانا اور محنت کشوں کو منظم کرنا ہے۔ اس محاذ میں عوامی ورکرز پارٹی، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، مزدور محاذ، ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ، محنت کش تحریک، انقلابی سوشلسٹ موومنٹ ورکرز ڈیموکریسی، مزدور اکٹھ، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔
مزدوروں کی بڑھتی ہوئی جدوجہد ہی حقیقت میں ورکرز یکجہتی کمیٹی کے قیام کی وجہ بنی کیوں کہ ہر کسی کو لگ رہا ہے کہ جدوجہد ممکن ہے اس لیے متحدہ محاذ کی اپیل پر فوری طور پر لیفٹ کی مختلف تنظیمیں،ٹریڈ یونینز،طلباء اور عورتوں کی تنظیمیں تیار ہوں گئیں۔ابتداء میں ہم یہ سمجھتے تھے کہ آن لائین ویڈیو کانفرنس اور چند شہروں میں مظاہرے ایک اچھی شروعات ہوگی لیکن پچھلے چند دنوں میں صورتحال بدل گی اور بہت سارے شہروں سے ساتھی احتجاج کے لیے تیار ہوگے۔یہ صورتحال ایک بدلتے ہوئے معروض کو ظاہر کررہی ہے جس میں مل کراکھٹے جدوجہد کی جاسکتی ہے۔
ورکرز یکجہتی کمیٹی کا مزدور احتجاج ایک ایسے دن منعقد ہوا جب کراچی،لاہور اور شیخوپورہ میں مزدور تنخواہوں کی ادائیگی اور بونس کے لیے سراپا احتجاج بن گے۔ورکرز یکجہتی کمیٹی کے ساتھی ان احتجاجات میں بھی شامل ہوئے۔لیکن مزدور کی یہ احتجاجی لہر یک دم سامنے نہیں آئی بلکہ لاک ڈاؤن کے فوراََ بعد سے ہی مزدور جبری برطرفیوں،تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں اور تنخواہوں اور الاونسز میں کمی کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔کراچی میں یہ احتجاج پہلے دیگر فیکٹریوں یعنی روف،لکی اور انٹرنیشنل ٹیکسٹائل میں ہوچکے ہیں اور ان میں کسی تک مزدوروں کی جیت نے مزدوروں میں حوصلہ پیدا کیا ہے کہ مالکان اور انتظامیہ کا مقابلہ کیا جاسکتاہے۔
کراچی میں ورکرز یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام دو مظاہرے ہوئے ایک غنی چورنگی میں ہوا جس میں تقریر کرتے ہوئے مزدور کسان پارٹی کے رہنما قمر عباس نے بتایا کہ ”محنت کشوں کو مسلسل نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے اور اب تک غنی گلاس سے قریب 700،آرٹسٹک ملینئر کورنگی سے قریب 500، الکرم سے قریب 800 سے 1000،، گل احمد سے700 کے قریب,رجبی ٹیکسٹائل سے قریب200 مزدوروں اور صدیق سنز کے تو تمام ہی مزدوروں کو نوکریوں سے نکالنے کی رپورٹ ہمیں موصول ہو چکی ہے“۔
جبکہ دوسرا مظاہرہ حبیب چورنگی میں ہوا جس کی قیادت نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کررہی تھی اس مظاہرے کی قیادت اور مظاہریں میں بڑی تعداد میں علاقے کی فیکٹریوں کے ورکرز اور ٹریڈ یونین قیادت شامل تھی جن میں سے بہت سارے پچھلے عرصے میں مختلف احتجاجات کا حصہ رہے ہیں۔جبکہ نیشنل ٹریڈ یونین کے ارکین ڈینم ٖفیکٹری کے مزدوروں کی جدوجہد سے مسلسل جڑے ہوئے ہیں۔
کراچی میں ڈینم فیکٹری کے محنت کش پچھلے تین روز سے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کررہے تھے جب آج پولیس اورفیکٹری مالکان کی ملی بھگت سے ان پرفائرنگ کی گی اور اطلاعت کے مطابق اس میں کچھ مزدور زخمی بھی ہوئے۔نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے راہنما عبداللہ باسط لکھتے ہیں کہ”کورنگی صنعتی زون پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی زون ہے
کل سے ڈینم کلاتھنگ کمپنی کورنگی میں مظاہرے جاری ہیں کل کمپنی کی انتظامیہ نے بونس دینے کا وعدہ کیا تھالیکن جیسے ہی آج ورکرز ڈینم کلاتھنگ کمپنی کی گیٹ پر صبح پہنچے تو انتظامیہ نے دروازہ بند کیا اور بولا کہ مالک نے کمپنی بند کردی ہے،مزدور مین گیٹ پر پر امن بیٹھے رہے مگرانتظامیہ نے پولیس کی مدد سے فائرنگ شروع کردی اور ورکرز کو پارٹیوں کی مدد سے ڈرایا دھمکایالیکن ورکرز متحد رہے، کمپنی کے ایڈمن مینیجر طارق محمود جو خود پاکستان تحفظ قومی موومنٹ کا صدر ہے اس نے ورکرز کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے اور اکیس مئی کو بونس دینے کا اعلان کیا۔ڈینم کلاتھنگ کمپنی انٹرنیشنل برانڈز کے لیے کام کرتی ہے اورکمپنی ایس او پی کو فالو بھی نہیں کرتی ہے اور لیبر لاز کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوے سندھ حکومت کے حالیہ پاس کیے ہوے آرڈیننس کے برعکس 15 ہزار ورکرز کونوکریوں سے نکالا ہے اور لاک ڈاون کے دوران تنخواہیں بھی نہیں دیں۔لیکن یہ جدوجہد کارآمد ثابت ہوئی اور کورنگی صنعتی زون میں تمام بڑی کمپنیوں نے بونس دینے کا اعلان کردیا۔
لاہور میں جہاں ورکرز یکجہتی کمیٹی نے احتجاج کیا ہے اس سے کچھ فاصلے پر عمر ایوب فیکٹری کے 5000ورکرز نے صبح تنخواہیں اور بونس نہ ملنے پر احتجاج شروع کردیا یہاں بھی مالکان نے پہلے پولیس گردی کی لیکن اس میں ناکامی کے بعد کل ادائیگیوں کا کہا ہے۔مزدوروں نے واضح کیا ہے کہ اگر مالکان نے ادائیگیاں نہ کی تو وہ احتجاج کریں گیں۔پہلے ہی اس صنعتی علاقے میں مختلف فیکٹریوں سے ہزاروں مزدور نوکریوں سے نکالے جاچکے ہیں اور بہت ساروں کی تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہیں۔آج لاہور کے احتجاج میں بی ایس ایل اورڈی ایس ایل کے برطرف مزدور موجود تھے۔عمر ایوب فیکٹری اور دیگر ملوں میں پچھلے عرصہ میں ہونے والی جدوجہد سے اس علاقے میں مزدورطبقہ میں کام کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح شیخوپورہ میں جہاں مزدور احتجاج کا اہم مطالبہ پنشن میں کٹویتوں کا خاتمہ تھا وہاں کچھ فاصلے پرشیخوپورہ -فیصل آباد روڈ پر سفائر ٹیکسٹائل کے مزدوروں نے احتجاج کیا انہوں نے کہا مالکان نے تین ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کیں جبکہ وہ کام بھی کرتے رہے ہیں اگر مالکان نے کل تک تنخواہیں ادا نہ کیں تووہ شیخوپورہ-فیصل آباد روڈ کو بند کردیں گئیں۔
یہ ساری صورتحال ایک اہم تبدیلی کو ظاہر کررہی ہے،سطح کے نیچے تبدیلی جنم لے رہی ہے مزدور طبقہ احتجاج کی طرف آرہا ہے اور اس کی چھوٹی چھوٹی جدوجہد اس کے اعتماد میں اضافہ کررہی ہیں جس سے علاقے میں دیگر مزدوروں کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ اگر مالکان کے حملوں سے بچنا ہے تو ؒلڑنا پڑے گا اور یہ واضح ہے کہ پاکستان کی موجود معاشی صورتحال میں امن ممکن نہیں مالکان موجود صورتحال سے فائدہ اٹھا کراس بحران کا بوجھ محنت کشوں پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ان حالات میں طبقاتی جدوجہد ابھر رہی ہے اور نئے امکانات س جنم لے رہے ہیں لیکن ہمیں پاکستان میں ٹریڈیونین اور لیفٹ کی کمزوری کوتسلیم کرتے ہوئے ان حالات میں کام کرنے کی حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی۔ جہاں اب یہ ضروری ہے کہ سوشلسٹ صنعتی علاقوں کا رخ کریں وہاں ٹریڈ یونینز کے ساتھ ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ٹریڈ یونینز کی محدودیت کو بھی سمجھنا ہوگا اور انقلابی حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی اور مزدور طبقہ کو سوشلزم پر جیتنا ہوگا۔یہ ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے لیکن اس کے آغاز کے لیے اس سے بہتر کوئی وقت نہیں ہوسکتاجب سرمایہ دارانہ نظام کا بحران محنت کشوں کو جدوجہد میں دھکیل رہاہے۔