تحریر۔کامریڈفیاض

سرمایہ داری کی سب سے بڑی خصوصیت اور محرک منافع ہوتا ہے اس کی اپنی اقدار،اصول اور اخلاقیات ہوتی ہے چاہے ہم اس کو اپنے سماج میں پسند کریں یا نہ کریں لیکن یہ اپنی جگہ ہمیشہ بنا ہی لیتے ہیں اور تمام دیگرعوامل بشمول انسان صرف جنس ہی ہوتے ہیں۔ اس کا سیاسی نظام جمہوریت کہلاتا ہے جو کہ درحقیقت سرمایہ دارانہ جمہوریت ہوتی ہے جس سے توقع یہ کی جاتی ہے کہ چونکہ اس میں حکومت کوعام آدمی کے ووٹوں سے منتخب کیا جاتا ہے اس لئے یہ حکومت منتخب ہونے کے بعد عوام کی فلاح کے لئے کام کرے گی لیکن سرمایہ داری کو چلانے کا سب سے بڑا اصول زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہے اس لئے پالیسی سرمایہ کے مفاد میں بنتی ہے اور محنت کش عوام کی فلاح اس مفاد کے تابع ہوجاتی ہے۔
سب سے پہلے یہ نعرہ بلند کیا جاتا ہے کہ حکومت کا کام فیکٹریاں اور کارخانے چلانا نہیں بلکہ صرف پالیسیاں بنانا ہے اُس کے بعد حکومتی سطح پر چلنے والے کارخانوں، فیکٹریوں، ہسپتالوں اورتعلیمی اداروں کو پہلے تو نااہل اور بد دیانت لوگوں کے حوالے کرنا پھر اُن کے فنڈز میں کمی کرنا اور آخر میں اُن کو معیشت پر بوجھ ثابت کر کے خود یا اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعہ خرید لینا ہوتا ہے۔ نجی ملکیت میں آنے کے بعد لوگوں کو گولڈن ہینڈ شیک کے ذریعہ مستقل محنت کشوں کو فارغ کر کے پھر سے کنٹریکٹ پر ملازم رکھا جا تا ہے تاکہ اُن کو مراعات نہیں ملیں اور وہ ہر وقت دباؤ میں کام کریں اور لیبر یونین بنا کر اپنے لیئے مراعات حاصل نہ کر سکیں اور یہ منافع مالکوں کی جیب میں ہی جائے۔ جب پیسہ انکی جیب میں آتا ہے تو یہ اشرافیہ اپنے معیار زندگی بلند کر لیتے ہیں اور معاشرے کے نئے پیمانے مقرر کرتے ہیں جس سے عام آدمی کی زندگی مزید دوبھر ہو جاتی ہے۔
ایک تو زرائع روزگار اب محنت کشوں کے لیے سخت ہو جاتے ہیں اوروہ وہاں سے حاصل آمدنی سے وہ اپنے گھر کا خرچ بمشکل چلا سکتا ہے دوسرے حکومت ایسے قوانین بناتی ہے کہ سرمایہ داروں کو ٹیکس میں سہولیات دے کر عام آدمی پر بالواسطہ ٹیکس عائد کیا جاتا ہے تاکہ حکومتی اخراجات انکی جیب سے ادا ہوں اور اس سے عام آدمی بالکل ہی مر جاتا ہے۔ اچھا علاج اور اچھی تعلیم بھی اُس کی دسترس سے باہر ہو جاتی ہے۔مایوسی جب چھا جاتی ہے تو وہ بہت حد تک معاشرے سے بیگانگی اختیار کرتا چلا جاتا ہے یہ مایوسی بعض اوقات طوفان بن کر سامنے آتی ہے جس کا مشاہدہ ہم نے پچھلے سال کے آخر کے چھ ماہ میں بیشتر دنیا میں دیکھا ہے چاہے وہ سوڈان،ایران، چلی، عراق، لبنان یا ہانگ کانگ ہو اس کے علاوہ بہت سارے لاطینی امریکہ کے ممالک، افریقہ اور ایشیاء کے دیگر ممالک میں بھی یہ بے چینی کی لہریں ابھریں لیکن قیادت کے فقدان کی وجہ سے یہ کامیاب نہ ہوسکیں اور یہ دم توڑ گئیں۔یہ بے چینی صرف تیسری دنیا ہی میں نہیں بلکہ سامراجی ممالک میں بھی ہے جیسا کہ یورپ کے ممالک جن میں فرانس، برطانیہ، اٹلی اورسپین وغیرہ ہیں۔امریکہ میں برنی سینڈرز اور برطانیہ میں جرمی کوربن کا اُبھر کر سامنے آنا اور انہیں ممالک میں ڈونلڈ ٹرمپ اور بورس جانسن جیسے پاپولسٹ اور نسل پرست لیڈران کا جیتنا معاشرے میں موجود بداطمینانی کی غمازی کرتا ہے۔
تیسری دنیا کا تو معاملہ ہی عجیب ہے یہاں نظام بدلنے کے عوامی مطالبات کو غداری اور بغاوت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہاں جمہوریت اسکو کہا جاتا ہے جس میں لوگوں کے ووٹوں سے ایک ایسی آمریت قائم کی جائے جو انہی لوگوں کو اپنا غلام بنائے رکھے حالانکہ جمہوریت تو اسکا نام ہے کہ نظام حکومت میں سب کچھ صرف اور صرف عوام کی منشاء کے مطابق ہو۔ اب تو برطانیہ اور امریکہ میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ اور بورس جانسن نے بھی اپنے مخالفین کے لیئے ملک دشمنی جیسے الفاظ استعمال کیئے ہیں۔عراق، لیبیا، افغانستان اور شام تو وہ ممالک ہیں جہاں سامراجی کشمکش نے تباہی و بربادی کو پھیلا دیا ہے جس سے اُن کی عوام دربدر مختلف ممالک میں ہجرت کر رہی ہے اور وہ بیچارے جہاں جاتے ہیں وہاں کی حکومتیں انکے لئے سرحدیں بند کر دیتی ہیں۔ یہ محنت کش عوام ہیں جس کے استحصال سے ان ممالک کا ریاستی ڈھانچہ چل رہا تھا آج محنت کش عوام کے ٹیکس کا پیسہ جو اُنہوں نے”اپنے ملک“ کی حفاظت کیلئے دیا تھا وہ بموں کی صورت میں اُسی محنت کش عوام کو ہی مار رہا ہے۔ جنوبی ایشیا کے ممالک،مشرق وسطی اور روس سمیت بہت ساری حکومتیں نظام کو بچانے کیلئے اس طرح کی حکومت کر رہی ہیں جس میں اختلاف رائے کی گنجائش کم سے کم ہوتی جارہی ہے اور اس کے لیئے قوم پرستی، مذہب پرستی سے لے کر کرپشن تک کو استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ دراصل اس سرمایہ داری کا بحران ہے جو اپنے عروج کے بعد اب اپنے زوال کی جانب رواں ہے اور اب اُس کے پاس محنت کش عوام کو دینے کے لیئے کچھ بھی نہیں ہے ماسوائے معاشی بحران، جنگوں، مذہبی، نسلی تعصبات اور ماحولیاتی تباہی کے جو کہ خود زندگی کی بقاء کیلئے ایک خطرہ ہے اور اب کورونا جیسی وباء جس نے یہ ظاہر کر دیا کہ حکمران طبقہ نے اپنے تعیش کے لیئے تو سب کچھ کر رکھا ہے لیکن عوام کے لیئے وینٹی لیٹر اور بستر تک موجود نہیں ہے۔ ان تمام حالات میں اب لوگوں کا ریاست اور نظام پر سے اعتبار اُٹھتا چلا جارہا ہے جس کی وجہ سے آئے دن کہیں نہ کہیں تلاطم برپا ہورہے ہیں اور موجودہ حالات بتا رہے ہیں کہ شائد کورونا کے بعد پھر بڑے پیمانے پر لوگ کھڑے ہوں گے کیونکہ نظام کی ناکامی انہیں جدوجہد میں دھکیلے گی۔ اصلاحات بھی انقلابی جدوجہد کی وجہ سے ملتی ہیں لیکن حکمران طبقہ اس پر حملہ کرکے جلد ہی ان کو ختم کردیتا ہے۔ اس لیئے انقلابی پارٹی کو اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی بتانا ہے کہ نہ صرف موجودہ نظام اب متروک ہو چکا ہے بلکہ اس کا متبادل کیا نظام ہوگا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اصلاح پسند ی سرمایہ داری کی حدود سے آگے نہیں جاتی جس کی مثالیں ہمیں خود یورپ کے اندر موجود سوشلسٹ اور سوشل ڈیموکریٹ پارٹیوں کی شکل میں نظر آتی ہیں اور ہندوستان میں موجود کمیونسٹ پارٹی جو اتنی منظم ہوتے ہوئے بھی کبھی سرمایہ داری کے لیئے خطرہ نہ بن سکی۔
پیرس کمیون کی مثال موجود ہے جہاں مزدور طبقہ نے اپنے آپ کو منظم کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا، مارکس اور اینگلز نے پیرس کمیون کے تجربے سے ہی سیکھ کہ پرانی ریاستی مشینری پر قبضہ کر کے آپ اس کو اپنے لیئے استعمال نہیں کر سکتے۔کارل مارکس نے لکھا ہے کہ سوشلسٹ نظام ایک ایسی مزدورریاست قائم کرے گئی جو کہ اپنے آغازسے ہی ایک ٹوٹتی ہوئی ریاست ہوگی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹوٹتی ہوئی ریاست کے کیا معنی ہیں جو لوگ ریاست اور ملک کو ہم معنی سمجھتے ہیں وہ اس کو ملک کے خاتمے سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ ریاست کے معنی وہ ادارے ہوتے ہیں جو ملک کو چلا رہے ہوتے ہیں جیسا کہ پارلیمان، عدلیہ، بیوروکریسی اور اس کے ماتحت محکمے جس میں فوج اور پولیس وغیرہ سب آجاتی ہیں۔ کورونا کی وجہ سے تمام لوگ اس وقت اپنے اپنے علاقوں میں محصور ہیں اور مزدورں کو کام سے نکالا جارہا ہے۔ان حالات میں محنت کش طبقہ اپنے محلوں اور کام کی جگہ پر کمیٹیوں میں منظم ہوکر انتظامی معاملات خود سنبھال سکتاہے اور یوں ایک دوہری طاقت جنم لے سکتی ہے جو انقلابی پارٹی کے تحت سرمایہ داری نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے اقتدار سنبھال سکتی ہے لیکن اس حکمت عملی کی کامیابی عالمی انقلاب سے جڑی ہوئی ہے۔سرمایہ داری کے خاتمے سے ہی یہ ممکن ہے کہ لوگ اپنی زندگیاں اپنی مرضی سے گزار سکیں۔