عمران جاوید
قتل،جبری گمشدگیاں اور سڑکوں پر مسخ شدہ لاشیں ملنا کوئی نئی بات نہیں ہے یہ سلسلہ ایک طویل عرصہ سے جاری ہے اور کوئی مقدس مہینہ یا وبا اس کا خاتمہ نہیں کرسکا ہے لیکن پچھلے عرصہ میں جب دنیا بھر میں کورونا وبا نے ایک خوف مسلط کررکھا تھا تو یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ریاستوں کی بربریت کا شاید خاتمہ ہوگیا ہے اور یہ کہا بھی جارہا ہے کہ دنیا بدل گئی ہے اب ریاستوں کی ترجیحات مختلف ہوں گئی اورسرمایہ داری میں بھی کم از کم انسانی زندگی کو اگر منافع سے نہیں تو جنگ اور اسلحہ سے مقدم جانا جائے گا۔
لیکن یوم مئی کو ساجد حسین کی لاش سویڈن کے ایک دریا سے ملی جبکہ 2مئی کوعارف وزیر جو قاتلانہ کے نتیجے میں شدید زخمی ہوگئے تھے انہوں نے آخری سانس لی،عارف وزیر،علی وزیر اور عالمگیر وزیرکے رشتہ دار اور پشتون تحفظ موومنٹ کے اہم راہنماتھے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے اہم راہنما عارف وزیر کا گڈ طالبان کے ہاتھوں قتل ہوئے۔عارف وزیر جو قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے انہیں پہلے ڈیرہ اسماعیل کے ہسپتال لے جایا گیا اور بعدازں اسلام آباد کے پمز ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں آپریشن کے دوران انہوں نے آخری سانس لی۔عارف وزیراپنے خاندان کے 18رکن تھے جو طالبان کے حملے میں شہید ہوئے۔
پشتون تحفط موومنٹ کی قیادت نے اس قتل کا ذمہ دار پاکستانی ریاست کو قرار دیا ہے۔اس صورتحال کے خلاف ردعمل میں پشتونوں نے نہ صرف بڑی تعداد میں جنازے میں شرکت کی بلکہ بہت سارے علاقوں میں بڑے پیمانے پر احتجاجات بھی ہوئے۔ریاست کسی بھی حالات میں پشتون تحفظ موومنٹ کو قبول نہیں کررہی جو ایک پرامن اور جمہوری حقوق کی تحریک ہے اور پچھلے دوسالوں سے پی ٹی ایم مسلسل ریاست کے حملوں کا سامنا کررہی ہے اور ان کو غدار اور دہشت گرد کے روپ میں پیش کیا جارہاہے۔لیکن پشتون قوم کی حد تک ریاست مکمل طور پر ناکام ہے اس لیے وہ خود بڑا حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو ان حالات میں گڈ طالبان کو استعمال کیا گیاہے۔
بلوچ صحافی ساجد حسین 2مارچ سے لاپتہ ہوئے تھے۔ ساجد حسین آن لائن انگریزی جریدے بلوچستان ٹائمز کے ایڈیٹر انچیف تھے۔ ساجد حسین بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار، بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی، بلوچ عورتوں پر ریاستی ظلم اور دیگر مظلوم اقوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف لکھتے تھے۔ساجد حسین زمانہ طالب علمی میں بی ایس اوکے ممبر اور بعداز ں صحافی بن گئے۔ ان کی رائٹرز کے لیے ایک رپورٹ کی وجہ سے زندگی کو لاحق خطرات نے انہیں جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کیا اور 2017 میں وہ سویڈن چلے گے تھے جہاں بعدازں انہیں پناہ مل گی تھی۔سوشل میڈیا پر اور بلوچ سیاسی کارکنان واضح طور پر اس کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی کاروائی بتارہے ہیں۔صحافیوں کے تحفظ کے لیے قائم تنظیم نے اس قتل پر شدید تحفظ کا اظہار کیا ہے۔اس حملے کا بنیادی مقصد بظاہر بلوچ سیاسی کارکنان میں خوف پیدا کرنا ہے کہ اگر سویڈن میں گمشدگی اور صحافی کا قتل ممکن ہے تو یہ کہیں بھی ہوسکتاہے۔
اسی طرح30اپریل سے سوشل میڈیا پر بلوچ نوجوانوں کی لاشوں کی بے حرمتی کرتے ہوئے تصویر گردش کررہی ہیں اور کچھ ہی دنوں بعد دو بلوچ نوجوانوں کے ایک جھڑپ میں مارے جانے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بلوچستان اور وہاں کے حالات ایک بار پھر توجہ حاصل کررہے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان جو عدم تشدد کی سیاست کے حامی تھے انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور وہ اپنی جوانی میں ہی موت کے منہ میں چلے گے حالانکہ ابھی ان کی زندگی کی ابتداء تھی اور ان کے دوستوں کے مطابق وہ پرامن طلباء ایکٹوسٹ تھے جو ایک بہتر زندگی کے خواہش مند تھے۔
یہ سارے واقعات ریاست کے اندرونی تناؤ کو ظاہر کررہے ہیں اور ریاست اس پر قابو پانے کے لیے زیادہ سے زیادہ آمرانہ ہوتی جارہی ہے۔لاک ڈاؤن اور بڑھتے ہوے معاشی بحران میں اگلے عرصہ میں ریاست مظلوم اقوام اور محنت کشوں پر بڑے حملے کرئے گی اس کا اظہار نہ صرف ان واقعات سے ہوتاہے بلکہ لاک ڈاؤن کے دوران کوئٹہ میں ینگ ڈاکٹرز اور نرسز پر حملہ بھی اس کا ہی ایک اظہار ہے جیسے جیسے نظام کا بحران بڑھے گا ریاست کے جبر میں بھی اضافہ ہوگا اس لیے ریاست خوف اور تشدد کی بنیاد پر نفرت اور علیحدگی کو پروان چڑھا رہی ہے تاکہ مظلوم اقوام اور محنت کش طبقہ اس نظام کے خلاف نہ کھڑے ہو ں اور تقسیم رہیں جبکہ حقیقت یہی ہے کہ اگر اس نظام کی وحشت اور بربریت کیخلاف لڑنا ہے تو اس کے لیے محنت کشوں اور مظلوم اقوام کی متحد تحریک کی ضرورت ہے جو ریاستی جبر وتشدد کا مقابلہ کرسکے۔