تحریر:ریسا لوڈیوین

عورت کیا چاہتی ہے؟
اپنی مرضی کالباس پہننے کی آزادی
جووہ چاہتی ہے اس پر یقین کرنے کی آزادی
آزادی جو میں چاہتی ہوں
محفوظ رہنے کی آزادی
عورت مر گئی ہے۔ مہسا (کرد نام جینا) امینی کی عمر صرف 22 سال تھی۔ ایرانی ”اخلاقی پولیس” نے ابتدائی طور پر اسے غلط لباس پہننے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ جیناکے کوما میں جانے کے بعد موت ہوئی اس کی وجہ پولیس کا بدترین تشدد ہے پولیس اسے نے قتل کیا ہے۔. اپوزیشن حلقوں کا خیال ہے کہ اس کی موت کھوپڑی کے فریکچر کی وجہ سے ہوئی ہے۔ پولیس نے ایک ویڈیو کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کہ جینا خود سے گری ہے جس سے اس کی بعد میں موت ہوئی ہے۔
احتجاج اور جبر
لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ ایک نوجوان لڑکی کو گرفتار کرنا اس لیے جائز ہے کہ اس نے ریاست کی نظروں میں غلط لباس پہنا ہوا تھا۔ غم و غصہ بہت زیادہ ہے کیونکہ اس سے بہت سے دوسرے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ غصہ، غم اور خوف خواتین اور مردوں دونوں کو سڑکوں پر لے آیا ہے۔ یہ مظاہرے آمریت کے خلاف ہیں اور وحشیانہ جبر کے باوجود کئی شہروں میں پھیل چکے ہیں۔ خواتین نے جس طرح2017 اور 2019 کے درمیان ڈریس کوڈ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے سر کے پوشاک اتارے اور بال کاٹ لیے تھے اسی طرح کی یکجہتی خواتین کی طرف سے پھر ہورہی ہے۔
ریاست کا ردعمل انتہائی جارحانہ، سفاکانہ، ظالمانہ ہے۔ سوشل میڈیاپر موجود ویڈیوز میں واٹر کینن اور پولیس کے دستے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ 23 ستمبر تک 36 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف حکومت اپنے وفادار رجعتی مظاہرین کو متحرک کرکے اور مظاہرین کے خلاف مظاہرے کر کے صورتحال کوکنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ صدر رئیسی نے اقوام متحدہ کی اسمبلی میں صرف اتنا کہا کہ موت کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر مظاہروں کو ”افراتفری” قرار دیاہے۔ فوج اور خفیہ سروسزبھی ”دشمنوں ” اور ”غیر قانونی اجتماعات” کو کھلم کھلا دھمکیاں دے رہے ہیں۔
بحران اور جبر
احتجاج اب جینا امینی کے قتل سے زیادہ وسیع تر ہوگیا ہے کیونکہ ملک کی معاشی صورتحال تباہ کن ہے اس کی وجہ وہ پابندیوں کی وجہ جو برسوں سامراج نے مسلط کررکھی ہیں سے اور کورونا وبائی امراض اور ویکسین کی خریداری میں رکاوٹوں کی وجہ سے صورتحال بدتر ہوگئی ہے۔ لوگ برسوں سے بے تحاشہ مہنگائی کا شکار ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال کے لیے یہ کم از کم 50 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے۔
اگرچہ حکومت نے اس سال کے موسم گرما میں مزدوروں اور پنشنرز کے احتجاج کے بعد اجرتوں اور پنشن میں اضافہ کیا تھالیکن یہ برسوں کے نقصانات کے بعد یہ انتہائی معمولی اضاٖفہ ہے اور سب جانتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافہ جلد ہی اس معمولی فائدہ کو بھی ختم کردے گا۔ جس طرح اب مظاہرہ کرنے والی خواتین کی مذمت کی جاتی ہے اسی طرح جون میں تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کے لیے سڑکوں پر نکلنے والے مظاہرین کو ”غیر ملکی دشمن” قرار دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ ایران کے عوام میں مزید آزادیوں کی خواہش بھی ہے جو نوجوانوں کے احتجاج سے بار بار ظاہر ہوتی ہے۔ جینا کے معاملے میں کردوں پر قومی سطح پر ہونے والاظلم بھی واضح ہے اور دوسرے ممالک سے آنے والوں کو عام طور پر صرف برداشت کیا جاتا ہے۔ یہ برداشت اکثر ریاست کی طرف سے ہراساں کرنے اور طاقت کے تیز استعمال کے ساتھ ہوتی ہے۔
آیت اللہ کی حکمرانی۔۔عورتوں پر بدترین ظلم
1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد سے جو تیزی سے ردِ انقلاب میں تبدیل ہو گیا تھا۔انتہائی رجعتی آیت اللہ حکومت کر رہے ہیں۔ شاہ کی اقتدار سے بیدخلی کا مطلب یہ تھا کہ امریکہ خطے میں ایک مرکزی سیاسی اتحادی سے محروم ہو گیاتھا اور اس کے بعد آنے والی حکومت کو اس کی تلخ دشمنی کا سامنا کرنا پڑابلکہ علاقائی طاقتوں جیسے عراق (صدام حسین کے ماتحت)، سعودی عرب اور اسرائیل سے بھی ہے۔ آج تک اسلام پسند حکومت اس محاذ آرائی کو اپنی آمریت کو سامراجی کنٹرول سے باہر ”ترقی کے متبادل راستے” کے طور پر پیش کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ سامراجی نظام کی ”تنقید” کو ”مغرب” یا حتیٰ کہ ”جدیدیت” اور اس کی عظیم تر مساوات کی تنقید تک کم کر دیا گیاہے۔
البتہ عورتوں پر مذہبی بنیادوں پر ظلم کا جوازکی بنیاد موجود آمریت ہی نہیں ہے بلکہ منظم جبر کی بنیاد ہزار سالہ پدرشاہی سماجی نظام ہے جسے بورژوا حکمرانی میں برقرار رکھا گیا اور سرمایہ دارانہ تعلقات اس کو تسلسل سے جنم دیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نہ صرف مساوی جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کی جائے بلکہ پیداواری تعلقات کو بھی تبدیل کیا جائے تاکہ خواتین کو فیکٹری، خاندان اور سماج میں حتمی برابری حاصل ہو۔
لاکھوں باہمت خواتین کا بڑے پیمانے پر احتجاج اور مردوں کا اظہاریکجہتی اس نظام کو ہلانے کی طرف پہلا قدم ہے، احتجاجی ڈریس کوڈ اور حکومت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جیسا کہ ملا ئیت کی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ ایک عظیم تناظر کو جنم دیتا ہے۔مشتعل مظاہرین ریاستی اداروں اور عمارتوں پر دھاوا بول رہے ہیں اور جابر قوتوں کے ساتھ سڑکوں پر لڑائیوں میں مصروف ہیں۔
جدوجہد کا تناظر
حالیہ برسوں میں محنت کش طبقے کی طرف سے بارہا احتجاج اور ہڑتالیں کی گئی ہیں۔ خواتین کے حقوق کی جدوجہد ایک ایسی چنگاری بن سکتی ہے جو ایک نئی بغاوت کے شعلے کو بھڑکارہی ہے اور اس میں یہ سکت ہے کہ یہ تحریکوں کو اکٹھا کرسکے۔مہنگائی میں اضافے اور محنت کش طبقے اور عوام کی غریبی کے خلاف اور خواتین کے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت کو کامیابی کے ساتھ جوڑنے کے لیے احتجاج کو فیکٹریوں اور دفاتر میں وسیع تر کرنا ہوگا۔
ملک میں ایک بڑے پیمانے پر ہڑتال ایک ایسی طاقت کو جنم دے سکتی ہے جو نہ صرف ملاؤں کی حکومت کو ہلا کر رکھ دے گی بلکہ اسے اکھاڑ پھینکے گی، ایک ایسی قوت جو ”اخلاقی پولیس” اور تمام جابر قوتوں کی ریاست کو ہمیشہ کے لیے توڑ سکتی ہے۔
اس طرح کی تحریک کو ہڑتال اور ایکشن کمیٹیوں کے ذریعے مربوط کرنا ہوگا اور دفاعی کمیٹیوں کو تشکیل دینا ہوگا۔ یہ ایک نئے سماج کے بنیادی ادارے بن سکتے ہیں جورجعتی آمریت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو مغربی سامراجی قوتوں کے مفادات اور پالیسیوں کے تابع نہ کریں۔
اس کے لیے اسے ایرانی سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا ہو گا، سرمائے کو ضبط کرنا ہو گا اور محنت کشوں کی کونسلوں کے زیر کنٹرول ہنگامی منصوبے کے ذریعے سماجی اور اقتصادی مسائل سے نمٹنا ہو گا۔ بلاشبہ ایک ملک میں یہ جدوجہدسوشلسٹ سماج تشکیل نہیں دئے سکتی لیکن ایران میں تحریک اس سمت میں ایک اہم قدم بن ہے۔ اس لیے اسے پوری عالمی مزدور، خواتین اوردیگر مظلوموں کی تحریکوں اور بائیں بازو کی یکجہتی کی ضرورت ہے۔
خواتین کے برابر کے حقوق ہوں، تمام رجعتی جبری قوانین کا خاتمہ! ریاست اور مذہب کی علیحدگی
مہنگائی اور غربت کے خلاف لڑائی کے ساتھ تحریک کو جوڑیں! ایکشن کمیٹیاں اور سیلف ڈیفنس کمیٹیاں قائم کریں
ایران میں رجعتی ملائیت کی آمریت کا خاتمہ! سامراج نامنظور
مغربی سامراج کی مداخلت نامنظور! پابندیاں ختم کرو، یہ عوام کو نقصان پہنچاتی ہیں حکومت کو نہیں
ایران میں جدوجہد کرنے والی خواتین اور محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی