تحریر:صائمہ ارشد

ایک ایسے وقت میں کہ جب ایران میں ہمارے ہمسائے میں عورتیں،طلباء اورمحنت کش اپنی آمرانہ پدر شاہی حکومت کے حملوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ایسے میں پاکستان میں نہایت مظلوم خواجہ سراؤں پر بنیاد پرست رجعتی قوتوں کے حملے پر خاموشی افسوسناک ہے۔
جس طرح ایران میں علماء اپنی خواتین کی اکثریت کو اپنے لباس کے انتخاب کے حق سے محروم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔اسی طرح پاکستان میں علماء اپنی پروٹو فاشسٹ سماجی بنیادوں کے ساتھ 2018 کے ٹرانسجینڈر قانون کی بنیادی حاصلات کو شکست دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ حالانکہ یہ قانون ویسے بھی کوئی خاص ترقی پسند کبھی بھی نہیں تھا لیکن پھر بھی حقوق کی جنگ میں ایک قدم تھا۔ مثلاً یہ خواجہ سراء خواتین یا مردوں کو بطور عورت یا مرد شناخت کروانے کا حق نہیں دیتا ہے۔ تاہم یہ انہیں ان کی پیدائش کے وقت منسوب کی گئی جنسی شناخت کے برعکس خود کو تیسری جنس کے طور پر خود کی شناخت کروانے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ شناختی دستاویزات پر لاگو ہوتا ہے۔
رجعتی علماء اس قانون کے خلاف ہتھیار اٹھائے کھڑے ہیں اور ایک ایسا بیانیہ آگے بڑھا رہے ہیں جو اسی مکر و فریب پر مبنی ہے جو ان کا خاصہ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون مرد کو سرکاری دستاویزات میں عورت میں اور عورت کو مرد میں تبدیل ہونے کی اجازت دیتا ہے، اور یہ ہم جنس پرستوں کو یوں آپس میں شادی کی گنجائش دیتا ہے کہ وہ اپنی جھوٹی جنسی شناخت کے ذریعہ اپنے ہی جنس کے اشخاص کے ساتھ شادی کر سکیں، یہ سب جھوٹ ہے۔
یہ قانون 2018 میں پاس کیا گیا تھا اور اس کے خلاف جو قوتیں اس وقت سرگرم ہیں ان میں تاریخی طور پر پروٹو فاشسٹ عناصر پائے جاتے رہے ہیں۔ یہ خواتین کے حوالہ سے اپنے نہایت رجعتی اور پدر شاہانہ رجحانات کے لئے بھی جانے جاتے ہیں۔جماعت اسلامی نے فوجی آمر ضیاء الحق کے رجعتی قوانین کے حوالہ سے اہم کردار ادا کیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان جو حال ہی میں پاکستان کے اصلاح پسندوں اور لبرلز کے ہیرو بن گئے تھے جب عمران خان کی مخالفت میں پی ڈی ایم قائم کی گئی تھی۔ ان کی جماعت کی یہ غلیظ روایت رہی ہے کہ پبلک بلبورڈز پر عورتوں کے چہروں کی تصاویر پر یہ سیاہ رنگ پھینکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف نے بھی اسمبلیوں میں خواجہ سراؤں کے تحفظ کے قانون کے خلاف اس نفرت انگیز مہم میں اپنا حصہ ڈالاہے۔ اس پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے خواتین کے حوالہ سے نفرت انگیز خیالات سے کون ناآشنا ہے۔
خواجہ سراؤں کو پاکستان میں جو چند ایک تحفظات کاغذی سطح پر میسر ہیں ان کے خلاف حالیہ نفرت انگیز مہم میں جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق احمد خان سر فہرست ہیں۔ انہوں نے موجودہ قانون میں ترامیم کا مطالبہ کیا ہے، جن میں ایسے طبی بورڈز کا مطالبہ شامل ہے جو تفصیلی معائنہ کے بعد نہایت غیر انسانی انداز میں تعین کریں کہ کوئی شخص ”مکمل طور پر” مرد یا عورت نہیں ہے۔ ان کی منطق کے مطابق جنسی اعضاء کی بناء پر جن اشخاص کو پیدائش کے وقت مرد یا عورت شمار نہیں کیا جاسکتا صرف ان افراد کو اپنا جنس منتخب کرنے کا حق میسر ہونا چاہیے۔ مختصراً یہ کہ صرف مبہم تولیدی اعضاء کے ساتھ پیدا ہونے والے افراد کو جنسی شناخت کے انتخاب کا حق ملنا چاہیے، اور وہ بھی صرف طبی بورڈ کے غیر انسانی معائنوں کے بعد۔ ایک ایسے ملک میں کہ جہاں اکثریت ڈاکٹر نہ صرف سیکس کے موضوع پر دھڑلے سے دخل اندازی اور نیچ رائے کا اظہار کرتے ہیں وہاں ہم ایسے اقدامات کے خواجہ سراؤں کی زندگیوں اور صحت پر خوفناک اثرات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
مشتاق احمد خان کے دلائل نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ عورتوں اور صنفی و جنسی اقلیتوں پر جبر کی بنیاد طبقاتی نظام ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں بتایا کہ شہریوں کو خود ساختہ شناخت چننے کی اجازت دینے سے ”خاندان اور وراثت کے نظام کو خطرہ” لاحق ہوتا ہے اور اس کے زریعہ 220 ملین لوگوں کے لئے اپنی مرضی سے کچھ بھی چننے کا دروازہ کھل جائے گا۔ بورژوا سماج کے تحت خاندان سماجی وجود کا لازم معیار ہے اور اس کا بنیادی مقصد نجی ملکیت کو خاندان تک محدود رکھنے کو یقینی بنانا ہے۔ بالخصوص مسلم معاشرے میں عورت کا وراثت میں حصہ مرد سے آدھا ہوتا ہے۔ عملی طور پر عورت کا حصہ اس کے شوہر کے خاندان کی ملکیت تصور کیا جاتا ہے۔ نجی ملکیت کی منتقلی اور ”نظام خاندان” کو لاحق خطرہ کے حوالہ سے موجودہ اضطراب واضح کرتا ہے کہ کس طرح خاندان، ملائیت اور قانون کے اداروں کا نجی ملکیت کے نظام کے تحفظ کے حوالہ سے ایک گٹھ جوڑ موجود ہے۔ یہ نظام امیر کی امیری اور غریب کی غریبی کو برقرار رکھنا یقینی بناتا ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ سرمایہ دار کا بیٹا اپنے باپ کے مرنے کے بعد بھی خاندانی کاروبار کا مالک رہے اور مزدور کا بیٹا باپ کے مرنے کے بعد بھی معمولی اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہو۔ چند ہاتھوں میں دولت کا یہ رجعتی ذخیرہ خاندانی نظام کے بنا پنپ ہی نہیں سکتاہے۔ ٹرانسجینڈر کے تحفظ سے متعلق موجودہ قانون کے مطابق کوئی شخص اگر ٹرانس مین کے طور پر شناخت کرواتا ہے تو اس کو ٹرانس وومن کی نسبت دگنا حصہ وراثت میں ملے گا۔ ایک ایسے ملک میں کہ جہاں بھائیوں کے لئے یہ معمول ہو کہ وہ بہنوں کو ان کے ورثہ میں حصہ سے کبھی جذبات تو کبھی زبردستی کے زریعہ محروم کریں اور خود ہڑپ لیں وہاں تصور کیا جا سکتا ہے کہ کیسے یہ قانون ان رجعتی مردوں کے لئے خطرہ کا باعث بن رہا ہے جو اس وقت اپنی بہنوں کے بظاہر ٹرانس مردوں میں تبدیل ہونے کے خوف سے دو چار ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ ایسے خطرات کے حقیقی ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اعداد و شمار موجود نہیں۔ البتہ اس اضطراب کی طبقاتی بنیاد قدرے واضح ہے۔
جتنے ہی یہ اضطراب و خدشات زیادہ تر بے بنیاد ہیں، اتنے ہی خواجہ سراؤں کی زندگیوں اور حفاظت کو لاحق خطرات خطرناک حد تک حقیقی ہیں۔ 2021 میں کم از کم 20 خواجہ سراؤں کے قتل کئے گئے تھے۔ اس وقت پاکستان کی مذہبی عدالت کے ساتھ ساتھ سینیٹ میں اس قانون پر نظرِ ثانی سے متعلق کمیٹی دلائل کا جائزہ لے رہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل ایک اور آئینی ادارہ ہے جس کا مقصد پاکستانی قوانین کو اسلام کی روشنی میں پرکھنا ہے۔ اس کونسل نے بھی 2018 کے قانون کو غیر اسلامی قرار دے دیا ہے۔ اگر پاکستان کی تقریباً تمام مین اسٹریم پارٹیوں میں مذہبی جنونیوں اور ان کے خواتین سے نفرت کرنے والے اتحادیوں کی ایما پر اس قانون میں ترمیم کی جاتی ہے تو یہ پاکستان کے محنت کش عوام و مظلوم لوگوں کے لئے بہت بڑی شکست ہوگی۔ آج وہ خواجہ سراؤں کے پیچھے آ رہے ہیں، کل وہ مذہب کے نام پر اپنے پڑوسی مولویوں کی طرح جبری حجاب مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ایک گھن چکر ہے جس میں سامراجی ممالک ان جیسی مثالوں کو بنیاد بنا کر اپنی حدود میں مزید اسلاموفوبیا پھیلائیں گے جبکہ سامراجی ممالک کے ساتھ ساتھ نیم نوآبادیاتی ممالک میں بھی محنت کش عوام پستے رہیں گے۔
لہٰذا ہم پاکستان کے محنت کشوں، کسانوں، ٹریڈ یونینوں اور تمام ترقی پسند لوگوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان کٹر جنونی قوتوں کا مل کر مقابلہ کریں۔ ہمیں یہ کام خود ہی کرنا ہوگا کیونکہ یقیناً حکمران طبقہ ایسا نہیں کرے گا۔ مشتاق خان نے اپنے بدصورت ایجنڈے کو فروغ دینے کی کوشش 2021 میں بھی کی تھی مگر اس وقت شیریں مزاری کی مخالفت کے سبب وہ کامیاب نہ ہو پایا تھا۔ اس وقت پاکستان کے حکمران طبقہ کو ایسے خوف کی ضرورت ہے جسے وہ اپنے میڈیا اور مولویوں کے زریعہ عوام کی توجہ معاشی بحران،تباہ کن سیلاب اور نہ ختم ہونے والے بیرونی قرضوں سے ہٹا سکیں۔ زوال پذیر و بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کے دفاع کے لئے جماعت اسلامی نے طویل عرصے سے ایسا کردار ادا کیا ہے۔ اپنے بل بوتے پر اقتدار میں نہ آنے والی یہ پارٹی نظام میں اپنا حصہ یقینی بنانے کے لیے ایک عرصہ سے یہی کردار ادا کررہی ہے۔ اگرچہ اس پارٹی کی سماجی بنیادیں برائے نام ہیں، اس کو نظر انداز اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ یہ چھوٹے سرمایہ داروں اور تاجروں یعنی پیٹی بورژوازی پر مبنی ہے۔ یہ وہ پرتیں جنہیں ماضی میں بھی متحرک کیا گیا کہ محنت کشوں اور ان کی تنظیموں کو جسمانی طور پر کچل سکیں اور آئندہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ان کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے اور اپنی پوری قوت کے ساتھ ان رجعتی طاقتوں کے پدر شاہانہ حملوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ہمیں ہمسایہ ملک ایران میں اپنے بہن بھائی اس ضمن میں روشن مثال ہیں۔