کامریڈ پیرل آزاد
پاکستان میں اس سال مون سون غیر معمولی حد تک طویل اور تباہ کن ثابت ہواہے۔سندھ،بلوچستان، پختونخوا، گلگت اور جنوبی پنجاب میں لاکھوں گھر تباہ ہوئے اور سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے اس کے علاوہ لاکھوں مویشی بھی سیلاب میں بہہ گے ہیں۔ پُل اور سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں، بجلی کا نظام تباہ ہوچکا ہے۔ لوگوں کے پاس کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے اور وہ بھوک کا شکار ہیں۔ محنت کشوں اور غریبوں کے لیے پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں ہے۔ مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں لیکن علاج کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔حکومت کے مطابق اب تک ایک ہزار کے قریب اموات ہوئی ہیں جبکہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ صوبوں کے آپسی اور اندرونی راستے تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ حکومت کہیں نظر نہیں آرہی ہے لیکن عام لوگ امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں لیکن ریاست کی مکمل شرکت کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔
یہ قدرتی تباہی نہیں ہے جس طرح حکومت،سیاستدان اور میڈیا میں کے دانشوار پیش کررہے ہیں بلکہ یہ سرمایہ دارانہ ترقی کا نتیجہ ہے جس میں سرمایہ کے منافع کو انسانی زندگی اور فطرت پر ترجیح دی گئی ہے۔حکمران طبقہ کی ترجیحات نے صورتحال کو مزید ابدتر کردیا ہے۔جنوبی پنجاب اور سندھ کے حوالے سے ایسی اطلاعات بھی ہیں جن کے مطابق مختلف جاگیروں اور اشرافیہ کی ملکیت کو بچانے کے لیے سیلاب کا رخ دیہات کی طرف موڑ دیا گیا۔
بارش اور سیلاب سے صورتحال سنگین ہوگئی ہے۔ سندھ اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں لیکن جنوبی پنجاب اور پختوانخواہ میں بھی بڑی تباہی پھیل رہی ہے، طوفانی بارشوں اور سیلاب نے نظام زندگی منجمد کردیاہے اورمحنت کش اور غریب عوام ایک وقت کی روٹی کوترس رہے ہیں اور شدید بارشوں میں بے گھر ہو کرکھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔
حکمران طبقہ کے لیے 14اگست کا دن بہت اہم ہے اس لیے جب تباہی میں ریاست کہیں نظر نہیں آرہی تھی تو ایک دن کی تقریبات پر 75 کروڑ خرچ کردیئے گے۔اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ قوم اور قوم پرستی کے جنون میں طبقاتی مفاد کوپایہ تکمیل تک پہنچایا جائے ان کی بے حسی میں ہی ان کا طبقاتی مفاد ہے۔
اس تباہی اور بربادی کے باوجود عام آدمی کے لیے کچھ کرنے کی بجائے 3500 ارب روپے بڑے سرمایہ داروں اور اشرافیہ کو ملیں گے۔ایکسپوٹرز کو چند ہفتے پہلے60ارب روپے کی مزید سبسڈی دی گئی ہے جبکہ پورے سندھ کے لیے مرکزی حکومت نے اس تباہ کن صورتحال میں صرف 15ارب دینے کا اعلان کیا ہے۔
سندھ کی صوبائی حکومت غیرمعمولی بارشوں کی پیشگی اطلاع کے باوجود ان بارشوں سے شہریوں کو غیر معمولی نقصانات سے بچانے کے اقدامات اٹھانے میں مکمل ناکام رہی ہے۔
پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت تو گزشتہ دو دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود ایسی صورتحال سے نبٹنے کی تیاری کو ترجیح دینے اور اس پر حکمت عملی ترتیب دینے کی بجائے ملک ریاض اور دیگر سرمایہ داروں اور بڑے زمینداروں کے مفاد میں کام کرتی رہی ہے۔جس کی وجہ سے آج سندھ میں دیہی غریب برباد ہے۔
بلوچستان میں ایک تسلسل کے ساتھ تباہی جاری ہے جو مسلسل پھیل رہی ہے۔اس میں تباہی میں واٹر منجمنٹ کے طریقہ کارنے بھی اہم کردار ادا کیا ہے جیسے ڈیم کی تعمیر اور مختلف دیگر تعمیرات اور ایسی جگہوں پر آبادیاں بسا کر بارشوں کے پانی کے قدرتی راستے بند کردئیے گے جو ان کی قدرتی گزار گاہیں تھیں۔اس ساری صورتحال میں حکومتی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے پچھلے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک جاری رہنے والے سیلاب کے مختلف ریلوں میں بلوچستان میں جتنا نقصان ہوا ہے اسے نظرانداز ہی کیا جاتارہاہے اور اب جب تباہی خوفناک شکل اختیار کرگئی ہے اس کے باوجود بلوچستان میں جس پیمانے پر امدای کام کرنے کی ضرورت ہے وہ کہیں نظر نہیں آتی ہے ہاں البتہ اب بارشوں کے پانی نے کوئٹہ شہر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور شہری مراکز متاثر ہونا شروع ہوئے اور دیگر صوبوں میں بھی سرمایہ کے منافع میں رکاوٹیں پیدا ہونا شروع ہوئی ہے تو حکمران طبقہ میں پریشانی پیدا ہوئی ہے اس سے پہلے دیہات اور پسماندہ علاقوں میں کیا ہورہا تھا ان کو زیادہ فکر نہیں تھی۔
پختوانخواہ کی صورتحال بھی نہایت خراب ہے گزشتہ چند دن سے مسلسل موسلا دھار بارش کی وجہ سے سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ دریائے سوات،دریائے کابل، دریائے پنجکوڑہ، اور دیگردریاؤں اور نالوں میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں مکانات اور ہوٹل تباہ ہو گئے ہیں۔ سڑکیں بہہ گئی اور پل ٹوٹ چکے ہیں۔ برساتی نالوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ہزاروں مسافر مختلف جگہوں پر پھنس گئے ہیں اوربڑی تعداد میں اموات ہورہی ہیں۔سیلابی پانی اس وقت بہت سارے شہری علاقوں میں داخل ہوچکا ہے اور بڑی تباہی پھیلا رہاہے۔
کوہستان میں پانچ دوست سیلابی ریلے میں پھنس گئے تھے اورحکومت سے مسلسل اپیلوں کے باوجود کوئی امداد نہ آئی جس کی وجہ سے جب سیلاب کی شدت میں اضافہ ہوا تومقامی لوگوں نے ان کو بچانے کی کوشش کی لیکن سیلاب کی شدت کی وجہ سے پانی میں ڈوب کر ان کی موت ہوگی۔یہ اس نظام کی سفاکیت کو ظاہر کررہی ہے جہاں وزراء اور سرکاری افسران تو اپنی نجی ضروریات کے لیے بھی اورسیلاب کی صورتحال کو دیکھنے کے لیے جہاز اور ہیلی کپٹر استعمال کررہے ہیں۔ عمران خان تواسے اپنی سیاسی اور نجی ضروریات کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں لیکن ان پانچ دوستوں اور دیگر لوگوں کو بچانے کے لیے ریاست کہیں نظر نہیں آرہی ہے اور محنت کش اور غریب عوام کو مرنے کے چھوڑ دیا گیا ہے۔
مون سون بارشوں اور سیلاب کے پیش نظر پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کوئی حکمت عملی ترتیب نہیں دی کیونکہ ان کو محنت کشوں اور شہری ودیہی غریب کی کوئی پروا نہیں ہے حالانکہ یہ پہلی دفعہ نہیں تھا ویسے تو پاکستان میں ہر سال ہی مون سون کے موسم میں سیلابی صورتحال بن جاتی ہے لیکن ریاست کے پاس 2010کا تجربہ بھی تھا جب سیلاب نے ہر طرف تباہی اور بربادی پھیلادی تھی۔
دریاؤں کے کناروں پر سیاست دانوں اور انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے مالکان نے غیر قانونی طور پر ہوٹل اور مارکیٹیں بنائی ہوئی ہیں۔ ان مالکان کا مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اوروہ ان کو بھاری رقوم بھی دیتے ہیں جن سے اسمبلی ممبران اور وزراء تک مستفید ہوتے ہیں۔ یہ تعمیرات دریاؤں کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں اس لیے جب سیلاب آتا ہے تو وہ زیادہ تباہ کن اور شدت اختیار کرجاتا ہے اور عام عوام کا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ سوات میں اس وقت مختلف ہوٹلوں کے سیلاب میں ٹوٹ کرگرنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پرموجود ہیں یہ ہوٹل اور عمارتیں زیادہ تر دریا کی زمین پر ہی بنی ہوئی ہیں۔
اس صورتحال میں جس بڑے پیمانے پر تباہی پھیل گئی ہے اس میں مقامی افراد این جی اوزکی کوششوں سے زیادہ کچھ ممکن نہیں ہے جس کی وجہ سے صورتحال بہت بدتر ہورہی ہے۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ امدادی کاموں میں شرکت اختیار کی جائے لیکن واضح طور پر اس کے ساتھ حکمران طبقہ اور اس نظام پر بھی بات کرنی چاہیے جس نے عام آدمی کی زندگی کو تباہ اور ان کو بھوکا مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے اور جہاں احتجاج ہورہے ہیں ان میں مداخلت کرنی چاہیے اور شہروں میں امدادی سامان اکھٹا کرنے کے علاوہ احتجاج بھی منظم کرنا چاہیے اور مطالبہ کرنا چاہیے کہ ایمرجنسی بنیادوں تمام سرکاری وسائل کو امدادی کاموں کے لیے فوری طور پر مہیا کیا جائے اور اس کے لیے بڑے سرمایہ داروں،زمینداروں،ایکسپوٹرز اور ٹھکیداروں پر ٹیکس عائد کرکے سیلاب زدگان کی مدد کی جائے۔