تحریر:شہزاد ارشد

حکمران طبقہ جو آئین اور قانون کے تقدس اور اس کے غیر جانب دار ہونے کی بات کرتاہے۔اس لڑائی میں یہ واضح کیا ہے کہ کیسے آئین اور قانون طاقتور کے ہاتھ میں ایک ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ایک طبقاتی سماج میں یہ حکمران طبقہ کے مفاد میں محنت کشوں کو کنٹرول کرتا ہے تاکہ وہ اپنے استحصال اور نظام جبر کو انصاف پر مبنی سمجھ کر قبول کریں۔حکمران طبقہ کے آپس میں چاہیے کیسے بھی اختلافات ہوں یہ طبقاتی نظام کو قائم رکھنے کے لیے اکھٹے ہیں۔
وفاق میں حکومت میں کے بعد پی ڈی ایم نے پنجاب میں اقتدار کے لیے لڑائی کا آغاز کیاتھا اس میں پنجاب کے الیکشن ایک اہم موڑ ہے جس میں پی ٹی آئی نے بھاری اکثریت سے ان الیکشن میں کامیابی حاصل کی حالانکہ اس سے پہلے تحریک انصاف کی عدم مقبولیت پچھلے ضمنی الیکشنوں میں واضح ہوگئی تھی لیکن چند ماہ میں ہی مہینوں میں آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عملدرآمد کے بعد مسلم لیگ نواز کی مقبولیت میں بڑی کمی آئی۔
پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں مسلم لیگ نواز کی شکست نے وفاقی حکومت کو بھی شدید خطرے سے دوچار کردیا ہے۔اس صورتحال نے ریاست کے بحران کی شدت میں اضافہ کردیا ہے اور ریاستی اداروں کے اندار تضادات بھی شدت اختیار کرگے ہیں۔اس کا ایک اظہار پچھلے دنوں سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں ہوا جہاں چیف جسٹس کی طرف سے نامزدہ کردہ 5ججوں کو مسترد کردیا گیا اور فوج میں بھی تحریک انصاف پراجیکٹ کی ناکامی کے بعدآگے بڑھنے پر شدید تضادات ہیں جس کا اظہار موجود بحران میں واضح طور پر ہورہاہے اوراس سے فوج کے فیصلہ کن کردارمیں کمی آئی ہے۔
مسلم لیگ نواز جس میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے پہلے اور بعد میں بھی آگے بڑھنے کے حوالے سے شدید تضادات تھے وہ پنجاب الیکشن میں شکست کے بعد اس وقت شدید دباؤ میں ہے اور اس وقت تقسیم اورشکست خوردہ ریاستی اداروں پر شدید تنقید کررہی ہے تاکہ موجود بحران کی ساری ذمہ داری ان اداروں پر ڈال کر خود کوبری الزمہ قرار دے رہی ہے لیکن حقیقت میں یہ کوئی جمہوریت کی لڑائی نہیں ہے جیسا کہ لبرلز اور لیفٹ میں کچھ سمجھتے ہیں بلکہ یہ واضح طور پر مفادات اور نظام کے چلانے کے طریقہ کار پر تضادات ہیں جبکہ موجود بحران کی بنیادی وجہ پاکستان کی عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں پوزیشن ہے۔
عمران خان جو اقتدار سے پہلے آئی ایم ایف کے پاس جانے کو خودکشی کوترجیح دینے کی بات کرتے تھے اقتدار میں آنے بعداسی ہچکچاہٹ کی وجہ سے آئی ایم ایف سے دیر سے معاہدہ کیااور اس نے کرپشن کے نام پر محنت کشوں اور غریبوں پر بدترین حملوں کا آغاز کیا تھااور جب کوویڈ19کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے آئی ایم ایف کے دباؤ اور قرضوں ادائیگی موخر ہوئی تو اس نے قومی معیشت کے نام پر سرمایہ داروں کی جیبوں میں کھربوں روپیہ ڈالا جس کی وجہ سے ان کے منافعوں میں تاریخی اضافہ ہوا اور محدود سطح پر معیشت کے اعشاریہ بہتر بھی ہوئے لیکن جلد ہی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے نے معیشت کو اپنی جکڑ میں لے لیا۔اس سارے عرصے میں عمران خان حکومت محنت کش عوام پر شدید حملے کرتی رہی اور سرمایہ داروں کو نوازتی رہی جس سے ان کی زندگی اجیرن ہوگی۔اب عمران خان عوام کا ہمدرد بن رہا ہے کہ وہ مہنگائی اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل درآمد کی بجائے آزادی اور خودمختیاری کی بات کررہاہے جو ایک دھوکے اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
شہباز شریف کی حکومت نے موجود بحران کی ساری ذمہ عمران خان کی حکومت پر ڈال کرآئی ایم ایف پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے شرمناک شرائط کو تسلیم کیا ہے۔جس کے نتیجے میں پیٹرول،ڈیزل،بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور ٹیکسوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ کیاگیاہے لیکن آئی ایم ایف کے معاہدے پر مکمل عملدرآمد کے باوجود آئی ایم ایف طرف سے 1.8ارب ڈالر ملنے میں تاخیر کی وجہ سے 4ماہ سے بھی کم عرصے روپے کی قدر میں 27.2فیصد کمی ہوئی تھی اسی طرح زرمبادلہ کے ذخائر بھی جو مارچ کے آخر میں 11.425بلین ڈالر تھے اس کم ہو کر22جولائی تک8.575 بلین ڈالر رہ گے ہیں،یہ ملکی درآمدات کی چالیس دن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی ناکافی ہیں۔اس کے بعد ایمرجنسی میں کہ کہیں معیشت کا دھڑان تخت نہ ہوجائے آرمی چیف نے امریکی عہدیداروں سے اس حوالے سے دراخوست کی جس پر اب آایم ایف کی طرف سے بیان آیا ہے کہ پاکستان نے تمام شرائط تسلیم کرلی ہیں اور اگست کے آخر تک پروگرام بحال ہوجائے گا۔
وزیر خزانہ مفتاع اسمعیل کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے دوست ممالک سے مزید 4 ارب ڈالر متوقع ہیں۔ جبکہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے 3.5 ارب ڈالر، ورلڈ بینک سے 2.5 ارب ڈالر اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک سے 400 سے 500 ملین ڈالر کے قرضے ملیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملکی معیشت کا قرضوں کی بنیاد پر کھڑی ہوگی۔ اس وقت قرضہ جی ڈی پی کے 71 فیصد کے برابر ہے اور ملکی بجٹ میں قرضوں کی واپسی کا حصہ 40 فیصدہے اور اگلے سال 50 فیصد سے بھی تجاوز کر جانے کے امکانات ہیں۔ حکومت کو اس مالی سال میں بیرونی قرضوں کی واپسی کی مد میں 21 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ مالی سال2021-2022 میں کرنٹ اکاوئنٹ خسارے17.406رہا ہے اور اس وقت ڈالر کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس میں بڑی کمی کی امید نہیں ہے ان سب ادائیگیوں کے لیے مزید قرض لینا ہو گا اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے رجحان کے باعث ان ادائیگیوں کے حجم میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے۔اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی معیشت کو جس صورتحال کا سامنا ہے اس میں اگرچہ معیشت کو اس وقت فوری دیوالیہ پن کا سامنا تو نہیں ہے لیکن عالمی سرمایہ داری نظام میں اپنی پوزیشن کی وجہ سے اسے ابھی بھی شدید خطرات کا سامنا ہے۔
حکمران طبقہ کے پاس موجود معاشی بحران کا واحدحل آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عملدآمد کرناہے تاکہ سرمایہ داروں کے مفاد میں نظام کوچلایا جاسکے۔اس کی وجہ حکومت محنت کشوں پر حملہ آور ہے اور اس وقت پاکستان میں اشیائے ضروریات میں مہنگائی کی شرح 40فیصد ہے مہنگائی کا یہ عفریت عام آدمی کی زندگی کو کچل رہا ہے۔ محنت کشوں اور شہری ودیہی غریبوں کے لیے دو وقت کا کھانا مشکل ہوگیا ہے۔پہلے ہی لوگ اپنا علاج نہیں کروا رہے ہیں اور اپنے بچوں کوتعلیمی اداروں سے اٹھا رہے ہیں۔آئی ایم ایف کی ان پالیسیوں پر عمل کرنے کا مطلب ہے کہ پاکستان کی مزید معیشت سکڑاو کا شکار ہوگی جس سے بڑی تعداد میں محنت کش بے روزگار ہوجائیں گے یعنی حکومت نے معاشی بحالی کے نام پر محنت کشوں اور غریبوں کو زندہ درگور کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اسی علاوہ بجلی کی کمپنیوں اور دیگر اداروں کی نجکاری پر بھی عمل کرنے کی آئی ایم ایف کو یقین دہانی کروائی گئی ہے اور دوست ممالک کی حکومتوں کو ریاستی ادارے فروخت کرنے کے لیے باقاعدہ اسمبلی سے بل منظور کروا لیا گیا ہے۔
کیا کیا جائے
ضرورت اس بات کی ہے کہ محنت کش طبقے، کسانوں، غریبوں اور تمام مظلوموں، آئی ایم ایف اور حکومت کے متاثرین کی تنظیمیں ایک ایکشن پروگرام کے گرد متحد ہوں۔ ٹریڈ یونینوں، بائیں بازو کی جماعتوں اور تنظیموں کو حملوں کے خلاف اور موجودہ بحران کے متبادل حل کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہم محنت کش طبقے کے مفاد میں بحران کے حل کے لیے کلیدی مطالبات کو پیش کررہے ہیں۔
کم از کم اجرت اتنی ہونی چاہیے تاکہ محنت کشوں کے لیے اچھامعیار زندگی کی ممکن ہوسکے۔ مزدوروں کی اجرت کو مہنگائی سے منسلک کیا جائے۔ مہنگائی میں ہر ایک فیصد اضافے پر اجرت میں بھی ایک فیصد اضافہ ہونا چاہیے۔
اس طرح کے مطالبے کو منوانے اوراس کے لیے جدوجہد کے لیے فی الحال بکھری ہوئی ٹریڈ یونینیں جن میں 60 ملین مضبوط محنت کش طبقے کی انتہائی کم تعداد موجود ہے اور بائیں بازو تنظیمیں بھی انتہائی کمزور ہیں ان حالات میں یہ کافی نہیں ہیں۔ انہیں بڑے پیمانے پرکام کی جگہ پر عوامی اسمبلیوں کے قیام کی مہم چلانی چاہیے اور کام جگہ،مزدور آبادیوں اور دیہات میں جدوجہد کی کونسلوں کو منتخب کرنے کی۔
اسی طرح موجودہ غیر منظم محنت کشوں کو منظم کیا جا سکتا ہے اور وہ موجودہ یونینوں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مشترکہ جدوجہد میں شامل ہو سکتے ہیں، مزدوروں اور غریبوں کو بڑے پیمانے پر مظاہروں، قبضوں اور بڑے پیمانے پر ہڑتال کی کارروائیوں میں شامل کر سکتے ہیں تاکہ آئی ایم ایف پروگرام کو منسوخ کیا جا سکے۔ اس طرح کے ادارے کم از کم اجرت اور سماجی مراعات یا پنشن جیسے مطالبات کے نفاذپر بھی عملدرآمد کراسکتے ہیں۔
نجکاری کے بجائے سرکاری اداروں کو محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔ نجکاری کے بعد بند ہونے والے تمام اداروں کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دوبارہ نیشنلائز کیا جائے۔ جن اداروں کا انتظام پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا گیا ہے ان کو محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں لایا جائے اور اس طرح ہر قسم کی نجکاری کو ختم کیا جائے۔ بے روزگاری روکنے کے لیے ملازمتوں میں کمی کے بجائے اوقات کار میں کمی کی جائے۔
سرمایہ داروں، بڑے جاگیرداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور معاشرے کے دیگر امیر طبقوں پر ویلتھ ٹیکس لگا کر تعلیم اور صحت کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ اس بنیاد پر صحت کے نئے مراکز اور تعلیمی ادارے قائم کیے جاسکتے ہیں۔
سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے کے لیے تمام ٹیکس چھوٹ اور رعایتوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ بڑے پیمانے پر فنڈنگ کے ذریعے زراعت کی پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جائے تاکہ عوام کی خوراک کی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔ بڑے زمینداروں سے زمینیں چھین کر کسانوں اور دیہی مزدوروں کے حوالے کی جائیں۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں قائم کی جائیں، دیہی پیدوار کے عمل سے منسلک محنت کشوں کو شہروں میں مزدوروں کی کمیٹیوں سے منسلک کیا جائے۔
ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا جانا چاہیے تاکہ محنت کش طبقے کے ساتھ ساتھ دیہی اور شہری غریبوں کے لیے سماجی سہولیات اور مفت گھر تعمیر کیے جا سکیں۔
بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں کو ریاست کے قبضے میں لیا جائے اور انہیں محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔
عالمی اقتصادی اداروں کے قرضوں کی ادائیگی سے انکار سمیت آئی ایم ایف پروگرام کو مسترد کرنا معیشت کی منصوبہ بند اور متوازن ترقی کے لیے پیشگی شرط ہے لیکن یہ سب کچھ سرمایہ داری نظام اور اس کی حکومت میں ممکن نہیں ہے۔
ہمیں مزدوروں کی اپنی تنظیموں پر مبنی ایک حکومت کی ضرورت ہے جو جدوجہد کے ذریعے موجودہ تباہ کن صورتحال سے نمٹنے اور آبادی کی بھاری اکثریت کے مفادات کا دفاع کرنے کے لیے تشکیل دی جائے۔
ایسی حکمت عملی کی حمایت ازخود نہیں ہوگی، اسے ایک پرعزم مہم سے جیتنا ہوگا۔ جو لوگ انقلابی حکمت عملی کی ضرورت دیکھتے ہیں، خواہ وہ بائیں بازو کی جماعتوں میں ہوں یا ٹریڈ یونینوں میں انہیں محنت کش طبقے کی تمام تنظیموں کے ساتھ ساتھ معاشرے کی مظلوم پرتوں، خواتین، نوجوانوں اور مظلوم قومیتوں میں اس کے لیے جدوجہد کے لیے خود کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔
انہیں ایک انقلابی محنت کش طبقے کی پارٹی کی تعمیر کے لیے اس کی سیاسی بنیادوں پر بات کرنی چاہیے تاکہ مل پارٹی کو تشکیل دیا جاسکے جو آئی ایم ایف کے خلاف جدوجہد کو پاکستان اور پورے خطے میں محنت کش طبقے کے انقلاب کی جدوجہد سے جوڑتے ہوئے ایک عملی پروگرام تیار کرنا ہوگا۔ اس طرح ہم حکمران طبقے کے بحران اور پاکستان میں محنت کش طبقے اور غریبوں پر اس کے حملوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

                                      پاکستان میں شدید عدم استحکام اور بحران معمول بن گیا ہے حکمران طبقہ کے تضادات عروج پر ہیں اور ریاست کا بحران شدیدتر ہے ناصرف مختلف ریاستی اداروں کے درمیان بلکہ ان اداروں میں بھی تقسیم اور ٹکراؤ بہت واضح طور پر نظر آرہاہے۔اس کا آغاز میں تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کے خاتمے سے ہوا جس کے بعد پنجاب میں سیاسی لڑائی شروع ہوئی تھی۔اس میں فیصلہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی میں نہیں ہوا بلکہ اس میں فوج اور عدلیہ کی مداخلت کھل کرسامنے آئی اور اس سارے عمل میں ریاست کے اندار موجود تقسیم بھی بہت واضح تھی۔اس صورتحال میں کوئی بھی فیصلہ استحکام کی بجائے عدم استحکام کو مزید بڑھا رہا ہے۔