لیگ فار دی ففتھ انٹرنیشنل کا اعلامیہ

لیگ فار دی فیفتھ انٹرنیشنل یوکرین پر روسی فضائی اور زمینی افواج کے حملے کی مذمت کرتی ہے نیز ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے ایک خودمختار ریاست کی آزادی کے حق سے انکار کی بھی مذمت کرتی ہے۔
یوکرین میں روسی بولنے والوں کے مفادات اور نیٹو کے خلاف روس کی سلامتی کا دفاع کرنے کااس کا دعویٰ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔ تاہم نیٹو اتحادیوں کے یہ دعوے بھی کم فریب کن نہیں ہیں کہ وہ صرف جمہوریت اور قومی خودمختاری کے دفاع میں کام کر رہے ہیں۔ پیوٹن کی طرح وہ بھی اپنے سامراجی مفادات کی پیروی کر رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ یوکرین پر حملہ بنیادی طور پر ایک سامراجی تنازعہ ہے۔
پیوٹن کے وحشیانہ اقدامات کا مقصد شام میں قاتل اسد حکومت کو سہارا دینے کے لیے روسی افواج کی کارروائی کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے قتل عام اور اندرون ملک بڑے پیمانے پر مظاہروں کو دباناہے جس سے یورپی یونین کے اندر انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں اور آمرانہ حکومتوں کو سہارا ملتاہے۔ مختصراًیہ امریکہ اور یورپی یونین کی سامراجی طاقتوں کے ساتھ متصادم سامراجی طاقت کے اقدامات ہیں۔
ہم اس بحران کو فروغ دینے میں نیٹو کے کردار کی یکساں مذمت کرتے ہیں جس کی بنیادیں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سرد جنگ کے اتحادنیٹو کے تحفظ اور توسیع میں موجود ہیں اورامریکہ کی روسی فیڈریشن کی سرحدوں کی طرف پیش قدمی اور یکے بعد دیگرے روسی رہنماؤں کو بارہا کی گی زبانی یقین دہانیاں کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے۔
اس کے علاوہ اس نے روسی فیڈریشن کی سابقہ ریاستوں کے اندر کرپٹ اولیگارچ حکومتوں کے خلاف ابتدائی طور پر جائز عوامی جمہوری تحریکوں میں مداخلت کی ہے۔ اس کا مقصد روس کے حامیوں کی جگہ روس مخالف حکومتوں کو نام نہاد رنگین انقلابات کے ذریعے مسلط کرنا تھا۔ یہ روسی سامراج کو دیوار سے لگانے کے مترادف تھا لیکن اب روس خود کو کافی مضبوط سمجھتا ہے۔
یہ امریکہ کے اتحادی تمام بڑی سامراجی طاقتوں کی حکمت عملی ہے۔واشنگٹن نے روس کے اس مطالبہ کو مسترد کردیا کہ یوکرین نیٹو میں شامل نہیں ہو گا تاہم اس کی ایک وجہ فرانس اور جرمنی کی جانب سے ٹرانس اٹلانٹک سپر پاور سے زیادہ اقتصادی اور فوجی خودمختاری حاصل کرنے کی کوشش بھی تھی۔ اب وہ اس سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں ان کے سفارتی حل کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا اور جرمنی کو مجبور کیا گیا کہ وہ نورڈورسٹریم
گیس پائپ لائن کی فعالیت کو معطل کرئے۔اس کا مقصد انہیں نیٹو کے اندر ماتحت کرنا تھاجوامریکی مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک شاندارتنظیم ہے انہیں واشنگٹن کی طرف سے عائد اور نافذ کردہ پابندیوں سے اتفاق کرنے پر مجبور کرنا تھا تاہم یہ ان کی اپنی معیشتوں کے لیے تباہ کن ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ نیٹو سامراج جمہوریت، انسانی حقوق اور قوموں کے حق خود ارادیت کے جھنڈے تلے ایسا کرتا ہے، یہ ایک ظالمانہ دھوکہ تھا اور رہے گا لیکن اسی طرح یوکرین کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ وہ محض اپنے حق خود ارادیت کا دفاع کر رہا ہے حالانکہ2014 سے وہ ملک کے مشرقی علاقوں (اور کریمیا) کے مساوی حق سے انکار کرنے کے خلاف لڑ رہا ہے، بشمول ان کے اپنی زبان کا استعمال کرنے اور اس کے آزادانہ طور پر فیصلہ کرنے حق کے کہ کیا وہ ایک ایسی ریاست کی سرحدوں کے اندر رہنا چاہتے ہیں جس نے انہیں نسلی طور پر مغربی یوکرین کی قومی شناخت دی ہے۔
پیوٹن کے شاونسٹ ایڈونچر نے امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے نیٹو اتحادیوں کو سرد جنگ کے جنون کو تیز کرنے اور دنیا کی مزدور تحریک کے اندر ڈھٹائی سے سوشل سامراجی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کا بہترین بہانہ فراہم کیا ہے۔چاہے وہ سوشل ڈیموکریٹک اور لیبر پارٹیوں سے ہو یا ٹریڈ یونین تحریکوں سے ہوں۔
اسی طرح جوسٹالنسٹ روایت سے تعلق رکھنے والی قوتیں پیوٹن کے اقدامات کاجواز پیش کرتی ہیں اور ”اثر و رسوخ کے دائرے” یا ”سیکیورٹی زون” کے مطالبات کو بنیاد بناتی ہیں وہ انٹرنیشنل ازم اور سامراج کی مخالفت پر مبنی پالیسی پر عمل کرنے سے بہت دور ہیں۔ اپنے دشمن کے دشمن کو ہمارا دوست ماننا حماقت کی انتہا ہے۔ درحقیقت ہمارے واحد اتحادی تمام ممالک میں محنت کش ہیں جو اپنے اپنے حکمرانوں سے لڑ رہے ہیں اور تنازع کی اگلی صفوں میں یکجہتی کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں۔
چینی سامراج معاشی طور پر روس سے عالمی سطح پر کئی درجے اوپر ہے اور اس طرح وہ امریکہ کا ایک فوجی حریف ہے۔ اوباما، ٹرمپ اور بائیڈن کے ایشیا کے لیے محور اور یورپ میں ان کے ”پیوٹن نیا ہٹلر ہے” کے بیانیے نے لامحالہ چین کو روس کے قریب دھکیل دیا ہے۔ لیکن یہ ژی جن پنگ اور پیوٹن کے ”ہماری اقدار” کو درپیش چیلنجز کی وجہ سے نہیں بلکہ امریکہ کے ساتھ ان کی معاشی دشمنی کی وجہ سے ہے۔ سنکیانگ میں ایغوروں اور ہانگ کانگ میں جمہوریت کے کارکنوں پر بیجنگ کا وحشیانہ اور نسل پرستانہ ظلم و ستم ایک انتباہ ہے کہ چین خود کو الگ تھلگ نہیں ہونے دے گا اور نہ ہی امریکہ کی طرف سے متعین حدود کو قبول کرئے گا۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر دنیا بھر میں محنت کش طبقے اور ترقی پسند تحریک کو سامراجی کشمکش میں فریق بننے سے باز رہنا ہوگا۔ پرانے سامراجی گڑھوں میں جمہوریت کے دفاع کا دعویٰ ان ریاستوں کی دنیا کو لوٹنے کے ”حق” کے دفاع کے لیے محض ایک گھٹیا چال ہے۔ روس اور چین کی طرف سے یہ پرانے سامراجیوں کی جگہ لینے اور انسانیت کی عظیم اکثریت کو محکوم بنانے کی طرف ایک قدم ہے۔ یہ بھی نئے ارب پتیوں کو محنت کشوں اور غریبوں کی بنیاد پر پھلنے پھولنے کا موقع دیتے ہیں۔
اس پر درست موقف کے لیے ضروری ہے کہ پہلی سامراجی جنگ میں کارل لیبکنیٹ کا نعرہ: اصل دشمن گھر پر ہے، جو امریکہ اس کے نیٹو اتحادیوں اور روس اور چین پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔
یوکرین سے تمام روسی فوجیں واپس جائیں۔ ماسکو کی یوکرین کی آزادی اور ریاست کوغیر مشروط طور پر تسلیم کرئے۔
روس کے خلاف مغربی اقتصادی پابندیوں نامنظور۔ جب تک جارحیت جاری رہتی ہے تمام جنگجوؤں کو سپلائی اور گولہ بارود روکنے کے لیے محنت ک ایکشن پلان کرئیں۔
یوکرین سے نیٹو کے تمام مشیروں کا انخلا اور بحیرہ اسود سے مغربی طاقتوں کی بحری افواج واپس جائیں۔
ڈونیٹسک، لوہانسک اور کریمیا کے خطوں کو حق خود ارادیت کا حق ہو،چاہیے وہ یوکرین کے اندر خود مختاری، آزادی یا روس سے الحاق کا فیصلہ کرئیں اس کا اختیار ان کے پاس ہونا چاہیے ہے۔
نیٹو اور اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم دونوں کو تحلیل کر ئیں۔
ایک نئی سرد جنگ کی بنیاد پر جنم لیتی عالمی سامراجی جنگ کوروکو
سامراجی جنگ اور اسرنواسلحہ سازی کے خلاف ایک نئی عالمی تحریک کی ضرورت ہے جو موسمیاتی تباہی، غربت، بھوک اور بیماری کے سلگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کے لیے اس طرف تکنیکی اور سائنسی وسائل کو موڑنے کے لیے جدوجہد کرئے۔
سرمایہ داری اور سامراج کے خلاف اور سوشلزم کے لیے لڑنے والی محنت کش طبقے کی جماعتوں کی انٹرنیشنل تعمیر کی جائے – جوپہلی چارانٹرنیشنل کے ترقی پسند کام کو جاری رکھنے کے لیے پانچویں انٹرنیشنل تعمیر کرئے۔