تحریر:مارٹن ترجمہ :راضون احمد

قزاقستان میں سال کے آغاز سے ہی بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کا آغاز اتوار2 جنوری کومانغیستاؤکے مغربی علاقے میں ژاناؤزن میں ہواجو ملک کی معیشت کے لیے اہم تیل اور گیس کی صنعت کا مرکز ہے۔ یہ ان صنعتوں کے مزدوروں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار تھے جو اس تحریک میں متحرک ہوئے ہیں۔3 جنوری تک، پورا مانغیستاؤعلاقہ ایک عام ہڑتال کی لپیٹ میں آگیاجو پھر پڑوسی علاقے ایتیراؤ تک پھیل گیا۔ چند ہی دنوں میں انہوں نے ملک کے سب سے بڑے شہر الماتی میں اور یہاں تک کہ نئے دارالحکومت نور سلطان (سابقہ آستانہ) کو بھی بے ساختہ عوامی مظاہروں کی تحریک نے متاثر کیاہے۔

عرب بہار کے انقلابات کی طرح مظاہرے تیزی سے ایک ابتدائی عوامی بغاوت میں تبدیل ہو گئے ہیں جب سال کے آخر میں گیس کی قیمتوں میں اضافے ہوا۔ تقریباً راتوں رات گیس کی قیمت دوگنی ہوگئی جسے آبادی کی اکثریت گاڑیوں، ہیٹنگ اور کھانا پکانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

اس تحریک جس کی شروعات مہنگائی کے خلاف ہڑتالوں اور مظاہروں سے ہوئی ہے یہ تیزی کے ساتھ آمرانہ سرمایہ دارانہ حکومت کے خلاف ایک تحریک بن گئی ہے۔ شروع سے ہی مرکزی صنعتوں کے محنت کشوں نے جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کیا اوریہ تحریک کی سماجی اور معاشی بنیاد یں ہیں۔

قزاقستان کی سوشلسٹ موومنٹ نے ناصرف ملک کی صورتحال پر ایک بیان میں ہڑتال کی تحریک کی توسیع کے بارے میں بہت تفصیل سے رپورٹ پیش کی ہے بلکہ محنت کشوں نے پہلی بار صدر کے استعفے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ژاناؤزن میں ہی محنت کشوں نے اپنی کھلی ریلی میں نئے مطالبات مرتب کیے ہیں۔ موجودہ صدر اور نظربایف کے تمام عہدیداروں کا استعفیٰ، 1993 کے آئین کی بحالی اور پارٹیوں اور ٹریڈ یونینوں کی تشکیل کی آزادی، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور جبر کا خاتمہ ہے۔ اکسکل کی کونسل کو طاقت کے ایک غیر رسمی ادارے کے طور پر قائم کیا گیا ہے۔”

اصلاحات اور جبر

صدر توکایف کے ماتحت ریاستی قیادت جو دو سال سے اقتدار میں ہے انہوں نے احتجاجی تحریک کا جواب اصلاحات،لاٹھیوں، رعایتوں اور وحشیانہ جبر سے دیاہے۔عوام کو مطمئن کرنے کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ واپس لے لیا گیا۔ اس کے علاوہ حکومت نے استعفیٰ دے دیا اور اس کے فوراً بعدسلامتی کونسل کے چیئرمین سابق صدر نظر بائیف بھی مستعفی ہوگے۔ تاہم یہ تبدیلیاں خالصتاً کاسمیٹک ہیں۔ حکومت کے سربراہ عسکر میم کے مستعفی ہونے کے بعد ان کے سابق نائب علیچان سمائیلوف نے اقتدار سنبھال لیا ہے۔

نظر بائیف، جنہوں نے تقریباً 30 سال تک ملک پر مطلق العنان حکمرانی کی اور حکمران جماعت نور اوتان (لائٹ آف دی فادر لینڈ) کے چیئرمین ہیں جس کی پارلیمنٹ میں 98 میں سے 76 نشستیں ہیں اس نے سلامتی کونسل کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیاہے۔ ان کی جگہ ان کے جانشین توکایف نے لے لی ہے۔تاہم سب سے بڑھ کرصدر نے بڑے پیمانے پر احتجاج، عوامی عمارتوں پر قبضے اور حکمران اشرافیہ کے خلاف بغاوت کے خطرے کے خلاف بڑے پیمانے پر جبر کے ساتھ ردعمل ظاہر کیاہے۔ الماتی جیسے شہروں میں سڑکوں پر ہونے والے زیادہ ہنگامہ خیز مظاہروں کو بے دردی سے دبا دیا گیاہے جس میں کئی درجن لوگ مارے گئے ہیں۔ اب بھی یہ حکومت 6 جنوری سے 26 تک َ” مسلح مجرموں ” کو ختم کرنے کی بات کرتی ہے۔ ابھی تک3000 سے زائد گرفتاراور ہزاروں زخمی ہیں۔

اس کے ساتھ حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ وہ اپنی طاقت اور ”امن و امان” کو بحال کرنے کے لیے لاشوں کا ڈھیر لگا رہی ہے۔ یہ وہی کررہی ہیں جو تمام سرمایہ دارانہ اور آمرانہ حکومتیں کرتی ہیں جب ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوتاہے۔ وہ عوامی تحریک کو ”مجرموں ” اور ”دہشت گرد” کے طور پر بدنام کررہے ہیں تاکہ ”ایمرجنسی کی حالت” کا جواز پیش کیا جا سکے۔ ابتدائی طور پر 19 جنوری تک مظاہرین کے خلاف آتشیں اسلحے کا استعمال کی اجازات اور سگنل اور واٹس ایپ اور انٹرنیٹ جیسے میڈیا پر پابندی لگا دی گئیں ہیں۔

صدر توکایف کے مطابق نام نہاد انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں ”عسکریت پسندوں کے مکمل خاتمے” تک جاری رہیں گی۔ اس وحشیانہ آپریشن کو انجام دینے کے لیے وہ انہوں نے اپنے عظیم سامراجی محافظ روس کو بلایا ہے۔ پوتن کے سپاہی فوری طور پر داخل ہو گئے ہیں قیاس کیا جاتا ہے کہ ”اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم” کے فریم ورک کے اندر ”آئینی نظم” کو بحال کرنے میں مدد کریں گے۔ ان کا ”مشن” سرکاری عمارتوں اور اہم انفراسٹرکچر کی حفاظت کرنا ہے اور انہیں اپنے ہتھیار استعمال کرنے کا حق ہے۔سیاسی بحران کی وجوہات

حکومت اور اس کے اتحادیوں کی قوتوں کے اس ارتکاز کے پیش نظر عوامی تحریک کو وحشیانہ طریقے سے دبانے کا واضح خطرہ ہے۔ ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہو گا۔ کئی دہائیوں تک نظر بائیف نے سختی اور بے رحمی سے حکومت کی ہے۔ سیاسی طاقت مؤثر طریقے سے ایک چھوٹی سی اولیگاری میں مرکوز تھی جس نے ملک کی معیشت کو کنٹرول کیا جس میں تیل اور گیسسے مالا مال فیلڈزاور دیگر خام مال کے بڑے اسٹریٹجک ذخائر اور مالیاتی شعبے شامل ہیں۔حکومت نے اپنی طاقت کی بنیاد ریاستی اپریٹس، ریاستی پارٹی نور اوتان، آزاد میڈیا کے ڈی فیکٹو خاتمے اور کسی بھی حقیقی اپوزیشن کی عدم موجودگی پر رکھی ہے۔ یہاں تک کہ نام نہاد کمیونسٹ پارٹی پر بھی 2015 میں عدالتوں نے پابندی لگا دی تھی۔

جبر کے علاوہ قزاقستان کی جعلی ڈیموکریسی نے سالوں تک معاشی ترقی پربھی انحصار کیاہے۔ تیل اور گیس کی برآمدات آج بھی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس میں کان کنی بھی شامل ہے۔ قزاقستان اب یورینیم پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس میں مینگنیز، لوہا، کروم اور کوئلہ جیسے دیگر اہم خام مال کے ذخائر موجود ہیں۔برسوں تک قز ا ق معیشت میں وسعت آئی اور اسے سابق سوویت جمہوریہ کے درمیان معاشی معجزہ سمجھا جاتا ہے اگرچہ یہاں انتہائی آمرانہ حکومت ہے۔ اس کے نہ صرف روس اور چین کے ساتھ اقتصادی، سیاسی اور فوجی تعلقات میں توسیع ہوئی بلکہ اس نے بڑے مغربی سرمایہ کاروں کو بھی راغب کیاہے خاص طور پر تیل اور گیس کی صنعت میں مثال کے طور پر ہے۔ تاہم یہ ملک روس کا ایک اہم نیم نوآبادیاتی اتحادی ہے اور روس کسی بھی صورت میں اس حکومت کے خاتمے کی اجازات نہیں دئے سکتا ہے۔

قزاقستان نے الماتی میں ایک مالیاتی مرکز بھی تعمیر کیا جو دوسرے نیم نوآبادیاتی ممالک کے مقابلے بڑاہے لیکن اسے 2014-15میں سخت نقصان پہنچا کیونکہ عالمی منڈی میں تیل اور گیس کی قیمتیں گر گئیں تھیں۔ جی ڈی پی کی شرح نمو میں کمی آئی اور ملک بنیادی طور پر اس وقت سے معاشی جمود کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔

جیسا کہ بہت سے رینٹر ممالک میں جن کی آمدنی زیادہ تر خام مال اور توانائی کی برآمدات سے آتی ہے، قزاق سرمایہ داری کی ترقی سماجی عدم مساوات کی ایک انتہائی شکل کے ساتھ ہے۔ سابق ریاستی بیوروکریسی سے آئی سرمایہ داروں کی نئی پرت نے مؤثر طریقے سے ملک کی دولت پر اجارہ داری قائم کی ہے۔ تاہم برسوں تک اس ترقی کے نتیجے میں دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری ہوئی جیسا کہ بنیادی ڈھانچے کی توسیع اور ٹرانسپورٹ کے لیے سڑکیں اور گیس کی قیمتوں کو کم رکھ کربنیادی ضروری اشیاء کی قیمتوں کو بڑھنے سے روکا گیا تھا۔قازق سرمایہ داری کے لیے اب اسے برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

حکمران اپنی مرضی سے غریبوں کو ایک سینٹ بھی نہیں دیتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ مغربی معاشی ماہرین کے ساتھ مل کران کی ”مراعات” کو ختم کرنے اور معیشت کو مزید آزاد کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ بدلے میں وہ تیل اور گیس کی صنعت یا کان کنی کے پرانے کام کی تجدید یا نئی سائٹیں کھولنے کے لیے سرمایہ کاری کا وعدہ کرتے ہیں۔

لہذا سماجی عدم مساوات خاص طور پر ان جگہوں پر واضح ہے جہاں دولت کی تخلیق اور پیداوار ہوتی ہے۔ جب کہ قزاقستان کی توانائی اور کان کنی کی کمپنیوں کے مالکان اور ریاستی قیادت نے اپنے لیے بڑے بڑے محلات بنا ئے ہیں، تیل اور گیس کے شعبوں میں کام کرنے والے مزدور اکثر جان لیوا حالات میں غلام بن جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنی اجرت کے لیے مہینوں انتظار کرتے ہیں اور اب تیل اور گیس کی صنعت کے دسیوں ہزار کارکن بے روزگار ہیں۔

یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ یہ تحریک مغربی قزاقستان میں ایک زبردست ہڑتال کی لہر کے طور پر شروع ہوئی ہے۔ 2011 میں تیل کے کارکنوں کی طرف سے ہڑتالوں کی ایک بڑی لہر آئی جسے خونریزی سے ختم کر دیا گیاتھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق 70 ہڑتالی محنت کش اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 500 زخمی ہوئے جن میں سے کچھ کی حالت تشویشناک تھی۔ اس شدید جبر کے باوجودان خطوں میں آزاد، غیر قانونی یا نیم قانونی محنت کش طبقے کی تنظیمیں زندہ رہیں ہیں۔ برطرفی اور اجرتوں کی عدم ادائیگی کے خطرے کے سامنے کی وجہ سے 2021 کے آخری مہینوں میں تیل اور گیس کی صنعت میں ہڑتالوں اور صنعتی کارروائیوں میں اضافہ ہوتا رہاہے۔

یہ مغربی قزاقستان کے صنعتی مراکز میں تحریک کے درمیان اختلافات کی بھی وضاحت کرتا ہے، جسے مزدور منظم کرتے ہیں اور ہڑتال کو استعمال کرتے ہیں یہ محنت کش طبقے کی اجتماعی جدجہدکا اہم طریقہ کار ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کے مطالبات طویل عرصے سے کمپنی اور ٹریڈ یونین کے مسائل سے آگے بڑھ چکے ہیں اور ایک سیاسی کردار اختیار کر چکے ہیں: جیسے صدر کا استعفیٰ، سیاسی قیدیوں کی رہائی وغیرہ۔

ان میں سے کچھ مطالبات دوسرے علاقوں میں پھیل رہے ہیں جہاں ابتدائی طور پر یہ تحریک زیادہ تر شہری غریبوں، نوجوانوں کی بلکہ دیہی علاقوں سے آنے والے مہاجر محنت کشوں کی بغاوت پرتھی۔ ان کا غصہ اورنفرت خاص طور پر اس لیے کہ یہ پرتیں کم منظم ہیں یہ سیاسی طور پر غیر واضح ہے اورپھیلا ہوا کردار اپنائے ہوئے ہیں۔ بہر حال یہ تحریک ایک مطلق العنان سرمایہ دارانہ حکومت کے خلاف عوامی غم و غصے کے حقیقی اظہار سے کم نہیں ہے۔ایسی تحریکوں میں توڑ پھوڑ اور غیر سیاسی عناصر یا حتیٰ کہ ریاستی اشتعال انگیزی کرنے والوں کی شمولیت بھی حیران کن نہیں ہے۔ بظاہر بے ساختہ لیکن حقیقت میں عوامی غصہ پھوٹ پڑا ہے جسے طویل عرصے سے دبایا ہوا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ کیا یہ غصہ ایک منظم قوت بن سکتا ہے اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا محنت کش طبقہ تیل اور گیس کے مزدوروں سے بڑھ کر اسے سیاسی قیادت دے سکتا ہے۔

ردِ انقلاب

تاہم حقیقی ”مجرم” آستانہ یا دوسرے شہروں کی سڑکوں پر نہیں ہیں۔ وہ امیروں اور بیوروکریٹس کے محلات میں ہیں اور فوج اور جابر قوتوں کے جنرل سٹاف میں ہیں جو باغیوں کے ساتھ اور سب سے بڑھ کر ہڑتالی اور لڑاکا محنت کشوں کے ساتھ خونی حساب کی تیاری کر رہے ہیں۔

نظربایف اور توکایف جیسے لوگ بہت پہلے سے فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ بحران کو کیسے حل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تحریک کو خون میں غرق کرنا چاہتے ہیں۔ نہ صرف شہروں میں ہنگامہ آرائی بلکہ سب سے بڑھ کر صنعتی علاقوں میں مزدور طبقے کی ہڑتالیں اور تنظیمیں بھی ہیں۔ آخرکار وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں ایک سماجی قوت ایک طبقاتی تحریک بن رہی ہے جو ان کے پورے نظام کو خطرہ میں ڈال سکتی ہے۔

بڑے صنعتی علاقوں کے مزدور اور دوسری پرتیں جیسے ٹرانسپورٹ ورکرز ملک کو مفلوج کر سکتے ہیں۔ اس طرح وہ جابرانہ مشینری کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں ممکنہ طور پر جابرانہ مشینری کی نچلی صفوں کو مفلوج کر سکتے ہیں اور رینک اینڈ فائل فوجیوں کو اپنی طرف جیت سکتے ہیں۔یہ خطرہ حکومت کو کارروائی کرنے پر مجبور کر رہا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس نے روسی فوجیوں سے کیوں درخواست کی ہے۔جن کی محض موجودگی ممکنہ طور پر ”غیر محفوظ” قزاق پولیس یا فوجیوں کے نظم و ضبط کو یقینی بناتی ہے۔

آئندہ چند روز تحریک کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ جابرانہ مشینری کو روکنے کے لیے ملک گیر عام ہڑتال کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تیل اور گیس کی صنعت کے علاقوں کی طرح، کام کی جگہوں اور رہائشی علاقوں میں محنت کشوں کی اسمبلیوں کو منظم کیا جانا چاہیے ہے۔ جدوجہد کو منظم کرنے کے لیے محنت کشوں کی کمیٹیوں کا انتخاب کیا جانا چاہیے جو کہ میونسپل، علاقائی اور قومی سطح پر ایکشن کونسلز بنانے کے لیے آپس میں بام منسلک ہوں۔جبر کی صورتحال میں ان کونسلوں کے ماتحت اپنی دفاعی تنظیمیں بنانا ہوں گی اور وہ آستانہ جیسے شہروں میں غیر منظم فسادیوں کی جگہ لیں جو کام کی جگہوں اور محلوں کی سطح پر محنت کشوں کے ساتھ نتھی ہوں۔

اس کے ساتھ ساتھ انہیں رینک ایند فائل سپاہیوں اور پولیس کے نچلے درجات کے درمیان تحریک کاپیغام لے جانے کی ضرورت ہے کہ وہ آبادی کے خلاف استعمال ہونے سے انکار کرئیں، اپنی کمیٹیاں منتخب کرئیں اور قاتل حکومت سے وفاداری ترک کرئیں۔ قزاق اور جابرانہ افواج کو شہروں اور مزدوروں کے اضلاع سے واپس بلایا جانا چاہیے، سی ایس ٹی او کے دستے ملک سے نکل جائیں، حالیہ دنوں میں گرفتار ہونے والے قیدیوں کو رہا کیا جائے۔

اس طرح کی عام ہڑتال اور اس کی حمایت کرنے والی تحریک لازمی طور پر طاقت کا سوال اٹھائے گی۔ عوامی ہڑتال کی تحریک کی تنظیموں کو خود طاقت کا ایک متبادل مرکز بننا ہوگا جو اولیگر حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے اور اس کی جگہ مزدوروں کی حکومت لے سکتی ہے۔ ایسی حکومت نہ صرف مطلق العنان جعلی جمہوریت کو ختم کر دے گی بلکہ سرمایہ دار طبقے کو بھی ضبط کر لے گی جس کے مفاد میں یہ حکومت حکمرانی کرتی ہے۔ اس کا مطلب ہے بڑی صنعتوں، تیل اور گیس کے شعبوں، کانوں اور مالیاتی اداروں کو مزدوروں کے کنٹرول میں اور معیشت کو دوبارہ منظم کرنے اور عوام کی بنیادی ضروریات کو مہیا کرنے کے لیے ایک جمہوری منصوبے کے قیام کی فوری ضروری ہوگی۔

تمام سامراجی مداخلت نامنظور! بین الاقوامی یکجہتی زندہ باد

عوامی تحریک نے قزاقستان کو دنیا بھر کے عوام کی توجہ بھی دلائی جن سے نظربایف حکومت اور اس کے جانشین ٹوکایف کے جرائم کئی دہائیوں سے پوشیدہ تھے۔ اگر منافع قازق، روسی، چینی، بلکہ امریکی، اطالوی، جرمن اور برطانوی کارپوریشنوں کی جیبوں میں بھی جاتا ہے تو ہڑتالیوں کے جبر اور قتل سے ان حکومتوں کو کیا فرق پڑتا ہے؟ہو سکتا ہے کہ قزاق حکومت نے جمہوری حقوق کی خلاف ورزی کی ہو اور صحافیوں اور اپوزیشن کو دبایا ہولیکن اس نے سب سے اہم ”انسانی” حق آزاد تجارت اور اقتصادی اصلاحات کے حق کو تمام غیر ملکی طاقتوں کی پسند کے مطابق بڑھایا ہے۔

بلاشبہ قزاقستان روس کی نیم نوآبادی تھا اور سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ نہ صرف سیاسی طور پر کئی دہائیوں سے جڑا ہوا ہے بلکہ معاشی طور پر کمزور روسی سامراج اس کی منڈی اور وسائل سے بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، یوریشین اکنامک یونین اور سی ایس ٹی او میں رکنیت اور روسی خلائی سفر کے لیے بائیکونور کی اہمیت ہے۔ مزید برآں ملک کی جیو اسٹریٹجک پوزیشن روس کے لیے وسطی ایشیا میں مزید عدم استحکام سے ایک اہم ڈھال فراہم کرتی ہے۔ پھر کوئی تعجب کی بات نہیں کیوں کہ روس مکمل طور پر ”دہشت گردی سے لڑنے” کے کورس میں شامل ہو رہا ہے اور اپنے اتحادی کے ساتھ کھڑا ہے۔

تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ نہ صرف چین بلکہ بیشتر مغربی سامراجی ممالک کو بھی قزاقستان کے استحکام میں دلچسپی ہے، چاہے وہ اپنے معاشی مفادات،اپنی سرمایہ کاری کو محفوظ بنائیں یاملک کو ”اسلامی دہشت گردی” کے خلاف مستحکم کرئیں۔ سابق برطانوی حکومت کے سربراہ، ٹونی بلیئر نے برسوں تک مغربی میڈیا سے نمٹنے میں خاص طور پر انسداد بغاوت کے سلسلے میں نظر بائیف کے مشیر کے طور پر کام کیاہے۔ مزید برآں قزاقستان نے افغانستان پر امریکی/نیٹو کے قبضے میں برسوں تک تعاون کیاہے۔اس لیے قزاقستان کی صورت حال پر مغربی بیانات اب تک نسبتاً روکے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پراپنے قزاق ہم منصب مختار تلیبردی کے ساتھ بات چیت میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ”قزاقستان کے آئینی اداروں اور میڈیا کی آزادی کے لیے امریکہ کی مکمل حمایت” کا اعلان کیاہے۔

۔
یورپی یونین کی طرف سے اکثرہر طرف سے ”اعتدال پسندی” کے لیے غیر متزلزل کال آتی ہے۔ یہاں پر مشرقی یورپی اقتصادی تعلقات کی کمیٹی اور اس کے چیئرمین اولیور ہرمیس نے پریس کو بتایا: ”صورتحال کا تیزی سے پرسکون ہونا ضروری ہے تاکہ مزید خونریزی سے بچا جاسکے نہیں توعدم استحکام سے قازقستان کی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس سے اس کی کاروبار اور بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔

مغرب کی نسبتی تحمل کو نہ صرف معاشی حوالے سے سمجھانا ہے بلکہ جغرافیائی سٹریٹجک حساب کتاب بھی ایک کردار ادا کرتا ہے۔ قزاقستان میں باغیوں کو خونی طریقہ سے دبانے کے لیے روسی کردارکو برداشت کیا جا سکتا ہے لیکن بدلے میں یوکرین میں ”رعایت” یا اس کے مزید ہتھیاروں پر کم از کم خاموشی کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔اس لیے یہ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی محنت کش طبقہ اور بائیں بازو کے لوگ قزاقستان میں عوامی تحریک کے ساتھ اپنی یکجہتی کے لیے سڑکوں پر نکلیں۔

عوامی تحریک کو دبانا نامنظور

ہنگامی حالت کا فوری خاتمہ اور جمہوری حقوق پر تمام پابندیاں نامنظور

تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرو

روسی مداخلت نامنظور کے تمام دستوں کی فوری واپسی

محنت کش طبقے اور احتجاجی تحریک کے ساتھ عالمی یکجہتی کی جائے