منرویٰ طاہر

پاکستان کے زیر انتظام دیگر علاقوں میں بسنے والی شاید ہی کوئی اقلیتی قوم یا گروہ ہو جس کو ریاستی جبر کا سامنا نہ ہو۔ پشتون تحفظ موومنٹ سے لے کر وائس فار سندھی مسنگ پرسنز، بلوچ یکجہتی کمیٹیوں اور شیعہ مسنگ پرسنز جوائنٹ ایکشن کمیٹی تک، ہر طرف ہمیں قومی جبر کے خلاف مزاحمت نظر آتی ہے

معیشت کا بحران

قومی جبر کے مسئلہ کو پاکستان کے معاشی نظام کی موجودہ صورت حال سے کاٹ کر نہیں سمجھا جا سکتا۔ قومی خسارہ سے نمٹنے کی مد میں پچھلے سال پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے چھ ارب ڈالر کا قرضہ لیا۔ آئی ایم ایف نے حسب معمول قرضہ کے ساتھ شرائط بھی لاگو کیں، جس میں بجلی، پیٹرول، اور عوام کی بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور قومی اداروں کی نجکاریاں شامل تھیں۔ بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان دنیا کے ان سر فہرست ممالک میں سے ہے جنہوں نے اپنی معیشت کو بچانے کے لئے شرح سود میں واضح کمی لائی ہے تاکہ سرمایہ داروں کو اپنے کاروبار چلانے میں معاونت ملتی رہے۔ شرح سود میں یہ مصنوعی کمی وقتی طور پر معیشتوں کو فروغ دینے کے لئے کی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے پیمانہ پر بینکوں سے پیسہ نکال کر ریئل اسٹیٹ،سٹاک مارکیٹ اور بڑی سرمایہ دار کمپنیوں میں انویسٹمنٹ یعنی سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ یوں بحرانوں سے نمٹنے کے لئے معیشت کی حرکت کو مصنوعی طور پر فروغ دیا جاتا ہے۔ نیتجہ اس کا یہی ہوتا ہے کہ بڑے سرمایہ داروں کے اثاثوں میں ہوشربا اضافے ہوتے ہیں جس کا بوجھ غریب محنت کش اور نچلے درمیانے طبقات ہی اٹھاتے ہیں۔ فیصل ایسٹ مینیجمنٹ لمیٹڈ کے اثاثوں کی مالیت پچھلے سال 210 ملین ڈالر تھی تو آج یہی اثاثے شرح سود میں مصنوعی کمی کی مدد سے تین گنا زیادہ مالیت رکھتے ہیں۔ مارچ میں کورونا وبا کے باعث لاک ڈاؤن کے باوجود اسٹاک ایکسچینج انڈیکس میں 36 فیصد اضافہ اسی شرح سود کی کمی اور محنت کش عوام پر بڑے حملوں کی مدد سے ممکن بنایا گیا۔ یقیناً اس میں ریاست کا براہ راست کردار بھی رہا ہے کہ کورونا وبا کے بعد جو کنسٹرکشن کمپنیوں کو ریلیف پیکج قومی معیشت کے نام پر دیئے گئے وہ بھی معیشت کی مصنوعی حرکت کو فروغ دینے میں معاونت فراہم کرتے رہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بعد سے پچھلے سال ہی محنت کشوں کی مختلف اداروں سے برطرفیوں کا آغاز ہوا۔ پھر اس سال کورونا وبا کی آڑ میں بڑے پیمانہ پر مزدوروں کو اداروں اور کمپنیوں سے برطرف کیا گیا۔ اس ریاست کے پاس قومی معیشت کے نام پر 1200 ارب روپے کے ریلیف پیکج سرمایہ داروں کو دینے کے لئے تھے مگر ان غریب محنت کشوں کو دو وقت کی روٹی یا علاج دینے کے لئے بھی اس کے پاس پیسہ نہ تھا۔ صحت، تعلیم، رہائش، آٹا، شکر، سبزی، گوشت، دودھ سب کچھ ہی محنت کش کی درترس سے باہر ہے کیونکہ آئی ایم ایف کا قرضہ ادا کرنے کے لئے ان بنیادی ضروریات زندگی پر ٹیکسوں کی مد میں ہوشربا اضافے کئے گئے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ سرمایہ داروں کو ٹیکسوں میں بڑی چھوٹ دی گئی تاکہ ان کے منافع کی ریل پیل میں کوئی خلل نہ آئے۔ اس کے بعد حالیہ دنوں میں سرکاری ملازمین کی مستقل ملازمت اور پینشنوں پر بڑے حملوں کی تیاری کر لی گئی ہے اور یہ آئی ایم ایف کی ایما پر ہوا ہے۔ اس سال جون میں ہی بجٹ کے اعلان کے وقت سامراجی ادارے کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے سرکار نے وفاقی حکومت کے ملازمین کی تنخواہوں اور پینشنوں میں کوئی اضافہ نہ کیا۔ سامراجی ادارے کا طبقاتی کردار بھی اس سے واضح ہے کہ سرمایہ داروں کو ریلیف پیکج دیتے وقت تو یہ ادارہ کوئی اعتراض نہیں اٹھاتا البتہ محنت کشوں کی تنخواہوں اور پینشنوں میں اضافہ کے خلاف کھل کر سرکار کو تجویز دیتا ہے۔ وزیر اعظم صاحب کا کہنا ہے کہ 470 ارب روپے ہر سال پینشنوں کی مد میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین یا ان کے اہل خانہ پر خرچ کئے جاتے ہیں۔ اس ”مسئلہ” کا حل نکالنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان کے مطابق ”دنیا کے سب سے اعلیٰ ترین ماہر” کی خدمات خریدی جائیں گی۔ بورژوا میڈیا اور کالم نگار بھی اب پینشنوں کے خلاف ریاست کی دلالی میں ہرزہ سرائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیروزگاری کی شرح میں بھی بدترین اضافہ ہوا ہے۔ پچھلی سرکار کے دور کے اختتام کے وقت بیروزگاری کی شرح 5.8 فیصد تھی جو آج 8.53 فیصد ہے کہ رواں سال کے سرکاری ڈیٹا کے مطابق 10 لاکھ لوگ روزگار کھو چکے ہیں۔ غیر رسمی شعبہ جات میں کتنے لوگ نوکریاں کھو چکے ہیں، اس پر تو کوئی ڈیٹا بھی موجود نہیں ہے۔ غرض یہ کہ سرمایہ دار طبقہ کے لئے سرکار کے پاس ہر قسم کا استثناء ہے اور غریب، پسے ہوئے طبقات کے لئے عوامی خدمات کی سہولیات اور قومی اداروں پر بڑے حملے ہیں۔ یہ حملے اس امر کی بھی عکاسی کرتے ہیں کہ خواہ کتنے ہی مصنوعی طریقوں سے یہ ریاست معیشت کو چلانے کی کوشش کر لے، درحقیقت یہ دیوالیہ ہو چکی ہے۔ آخری تجزیہ میں معاشی بحران ایک مستقل حقیقت سا بن گیا ہے یہاں اور اس سے نہ نمٹ پانے کی صورت میں یہ ریاست مزید جارحانہ انداز اپنا رہی ہے۔ پشتونوں، بلوچوں، سندھیوں، مہاجروں، کشمیریوں، گلگتیوں اور دیگر مظلوم اقوام کے ساتھ پیش آنے والے قومی جبر کے واقعات میں اضافہ اسی جارحیت کا تسلسل ہے۔ یہ اقوام تاریخی طور پر پاکستان میں قومی جبر کا نشانہ بنتی آ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی ریاست کا خود کو ایک نیشن اسٹیٹ کے طور پر تعمیر کرنے کا جو پراجکٹ تھا اس میں مذہب کو دیگر اقوام کو مصنوعی طور پر متحد کرنے والی مشترکہ قوت کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ لازم تھا کہ ایسی صورت حال میں پھر دیگر مذہبی اقلیتوں پر نہ صرف مذہب بلکہ فرقہ وارانہ تفریق پر بھی تاریخی ظلم و ستم کیا گیا۔ آج تلک کالونیل دور کے بلاسفیمی قانون کو نہ صرف مسیحی اور ہندو لوگوں پر مظالم ڈھانے کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے بلکہ غالب سنی فرقہ کے مذہب کے منافی کسی بھی اور فرقہ کے ماننے والوں کے خلاف بھی اس کو کبھی بھی باآسانی استعمال کر لیا جاتا ہے۔ خطہ میں سعودی اثر و رسوخ کی پراکسی جنگیں بھی پاکستان کی سرزمین پر نفرتوں کے فروغ اور قتل عام کے ذریعہ لڑی گئی ہیں جس میں مختلف علاقوں میں شیعہ لوگوں کو بدترین ظلم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

نیم نو آبادی معیشت اور قومی جبر

رواں سال کے بجٹ کا اگر جائزہ لیا جائے تو 7.137 کھرب روپے کے بجٹ کا 60 فیصد حصہ دفاع اور قرض کی خدمت میں خرچ کیا جائے گا۔ کل 2 کھرب دفاعی بجٹ کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ ہر سال دفاعی بجٹ میں اضافہ پاکستان کی سامراجی عہد میں نیم نوآبادیاتی حیثیت کا مظہر ہے۔ اکثر لبرل اور دانشور اس بات پر بین کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستان کے حالات اس لئے اچھے نہیں کہ یہاں سیویلین ادارے مضبوط نہیں ہیں اور فوج کا وسائل پر قبضہ ہے۔ وہ آج بھی یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب پاکستان کا ترقی پسند سویلین حکمران طبقہ یہاں پر انگلستان کی طرز کا جمہوری بورژوا انقلاب برپا کرے گا۔ ایسے سطحی دانشور لیفٹ کو بھی وافر مقدار میں میسر ہیں جو اکثر آپ کو مغربی یورپی ممالک کی کینزین طرز کی معیشت کے سنہرے خواب بنتے دکھائی دیں گے۔ آخری تجزیہ میں ایسے دانشور جہلاء عالمی سامراج کے کردار کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ سامراجی طاقتوں نے اپنی نوآبادیوں اور نیم نوآبادیوں کی تاریخی اور حالیہ لوٹ مار سے جو دولت کے انبار لگائے ہیں اس کی مدد سے ان سامراجی ممالک میں حکمران طبقہ کا اقتدار مستحکم ہوتا ہے کیونکہ عوامی سہولیات اور چند ایک بنیادی جمہوری حقوق دینے کے وسائل ان ریاستوں کو میسر ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ جمہوری بالادستی پاکستان جیسے نیم نوآبادیاتی ملک میں ممکن نہیں کیونکہ مخصوص تاریخی اور جغرافیائی وجوہات کے سبب یہاں کی غیر مستحکم ریاست کو فوج کی بالادستی کی ضرورت ہے۔ اس صورت حال میں اگر ہم سرکار کی جانب سے آسٹیرٹی یعنی عوامی خدمات کی سہولیات میں کٹوتیوں کے اثرات کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ معیشت قومی سوال سے اس بری طرح نتھی ہے کہ قومی جبر بھی درحقیقت طبقاتی جبر کا ہی ایک مظہر ہے۔ جب ریاست مظلوم اقوام کے طلباء سے کراچی میں ڈاؤ ہاسٹل چھینتی ہے تو کیا حکمران طبقہ کا بچہ متاثر ہوتا ہے یا مزدور اور نچلے درمیانے طبقہ کا؟ جب ریاست مظلوم اقوام کے لوگوں کو سندھ بلوچستان میں لاپتہ کرتی ہے تو ان کا تعلق کس طبقہ سے ہوتا ہے؟ چند ایک واقعات کو چھوڑ کر یہ ہمیشہ مظلوم اقوام کے پسے ہوئے طبقات ہی ہوتے ہیں جو ریاستی جبر کا اس طرح بڑے پیمانہ پر نشانہ بنتے ہیں۔ یہاں ایک اور اہم نکتہ مشترکہ و غیر ہموار ترقی کا ہے۔ برصغیر میں پیداواری قوتوں کا ارتقاء کسی بورژوا جمہوری انقلاب کے نتیجہ میں نہیں ہوابلکہ یہ برطانوی سامراج کے خونی لوٹ کھسوٹ کے نتیجہ میں ہوا ہے۔ روس کی مثال کی طرح، اس ارتقاء نے اس وقت کی نوآبادی میں اپنے مخصوص تضادات کو جنم دیا جو آج تک نیم نو آبادی ریاست میں موجود ہیں۔ کورونا وبا سے کہیں پہلے سے ہی پاکستان کے کچھ شہروں میں نہایت جدید قسم کی انٹرنیٹ سہولیات تھیں جبکہ بیشتر علاقوں میں کوئی انٹرنیٹ کوریج موجود نہ تھا۔ یہی صورت حال آج بھی ہے۔ مختصراً یہ کہ دیہات اور شہر کا تضاد جو سامراج اور نیم نوآبادی کے تضاد کا ایک عکس ہے، وہ آج بھی پاکستان میں موجود ہے۔ اور یہ غیر ہمواریت سرمایہ داری کے بحران کے گہرے ہونے کے نتیجہ میں مزید شدت سے اپنا اظہار کرتی ہے۔ اب جب کہ کورونا وبا سے سماج دوچار ہے تو ہم ٹیکنالوجی کے ارتقاء میں اس غیر ہمواریت کے شدید مظہر دیکھتے ہیں۔ آنلائن کلاسز کا انعقاد مظلوم اقوام کے طلباء خلاف ریاستی جبر کی سب سے تازہ مثالوں میں سے ہے۔ پچھلے دنوں میں طلباء نے زبردست احتجاج بھی منعقد کئے ہیں۔ ان احتجاجات پر ریاستی جبربالخصوص بلوچستان میں، اتنا ہی شدید رہا ہے جو اس غیرمساوی سماج کی اندرونی منطق کے عین مطابق ہے۔ اسی طرح، بڑے بڑے دفاعی بجٹوں کے خرچے پورے کرنے کے لئے بلوچستان کے معدنیات و وسائل کو تو یہ ریاست لوٹتی ہے مگر آج تک بلوچستان میں ایک بھی سرطان کے علاج کے لئے اسپتال نہیں بنا سکی جبکہ لاہور کراچی وغیرہ میں کئی اسپتال ہیں جو سرطان کا علاج فراہم کرتے ہیں۔ ایک اور مثال اس مشترکہ اور غیر ہموار ترقی کی یہ ہے کہ کراچی، اسلام آباد، لاہور وغیرہ میں ایک سے ایک تعلیمی ادارہ موجود ہے مگر مظلوم اقوام کے علاقوں کو اعلیٰ تعلیم کی سہولیات سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ حالیہ مثال ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلباء سے ان کا ہاسٹل چھین کر آئی پی ایم آر ڈیپارٹمنٹ کو دینے کا سندھ حکومت کا فیصلہ ہے۔ ان ہاسٹلوں میں وہ طلباء رہتے ہیں جو دیہی سندھ، بلوچستان، پشتون خواہ، گلگت بلتستان یا کشمیر کے علاقوں سے طب کی تعلیم حاصل کرنے کراچی آتے ہیں کیونکہ ان کے اپنے علاقوں میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے موجود نہیں۔ یہ طبقاتی و قومی جبر کی انتہا ہے کہ ایک طرف ریاست جان بوجھ کر ان کے علاقوں کو پسماندہ رکھتی ہے اور پھر جب یہ نوجوان کراچی آتے ہیں تو ان پر شہر کی زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ غریب گھرانوں کے طلباء بڑی مشکل سے ہی اپنی فیسیں ادا کرتے ہیں۔ ان سے ہاسٹل چھین کر کراچی جیسے مہنگے شہر میں رہائش کا بوجھ بھی ان ہی پر ڈالنا درحقیقت ان کی تعلیم کی راہ میں روڑے اٹکانا ہے تاکہ وہ ان بڑے شہروں میں نہ آ سکیں۔ ریاست اس قسم کی حرکتوں سے مظلوم اقوام کو بالادست قوموں سے دور کرنے اور ان کے مابین نفرتیں بونے کی بھی کوشش کرتی ہے۔ ایک اور نتیجہ ایسے اقدامات کا یہ ہوتا ہے کہ ان مظلوم اقوام کو پسماندگی کے دلدل میں نسل در نسل رکھا جاتا ہے کیونکہ انہیں باقاعدہ اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے۔

ریاستی جبر کے بڑھتے ہوئے واقعات

فوجی آپریشن، جبری گمشدگیاں، سیاسی تنظیموں کے ممبران کی گرفتاریاں اور ان پر جھوٹے مقدمات جیسے واقعات اب اس ریاست میں مظلوم اقوام کے لئے معمول بن چکے ہیں۔ وائس فار سندھی مسنگ پرسنز کئی ہفتوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے کراچی پریس کلب کے باہر کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔ اسی کیمپ میں بیٹھنے والے سارنگ جویو کو ہی پھر لاپتہ کر دیا گیا اور شدید تشدد کے بعد رہا کیا گیا۔ جب تک سارنگ جویو لاپتہ تھے، ان کی جبری گمشدگی کے خلاف وائس فار سندھی مسنگ پرسنز نے جب کراچی پریس کلب سے گورنر ہاؤس تک ریلی نکالنا چاہی تو سندھ پولیس نے ان پر بری طرح تشدد کیا اور ریڈ زون کے نام پر آگے نہیں بڑھنے دیا۔ اسی طرح کا تشدد سندھ پولیس نے شیعہ مسنگ پرسنز کے لواحقین پر کیا جب انہوں نے گورنر ہاؤس تک ریلی نکالنے کی کوشش کی۔ البتہ اس دن عوام نے پولیس کے لگائے بیریکیڈز اکھاڑ پھینکے اور گورنر ہاؤس کا رخ کیا باوجود اس کے کہ مرد پولیس اہلکاروں نے خواتین تک پر ہاتھ اٹھایا۔ بلوچوں کے حقوق کی ایک تنظیم کے مطابق سن 2000 سے اب تک کم از کم بیس ہزار سیاسی اسیران جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنائے جا چکے ہیں جس میں سے 7000 افراد اب تک مارے جا چکے ہیں۔ بلوچستان میں قومی جبر کے حالیہ واقعات میں پنجگور سے خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگیاں، حیات بلوچ کا قتل، چمن میں نہتے لوگوں پر نیم فوجی دستہ کی فائرنگ، ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں ملک ناز بلوچ کا قتل اور چار سالہ برمش بلوچ کی معذوری ہیں۔ کورونا وبا کے دوران آنلائن کلاسز کا انعقاد بھی طبقاتی و قومی جبر کا ایک تسلسل ہے۔ اسی طرح پشتون خواہ کے علاقہ پاراچنار میں شیعہ لوگوں کو پچھلے دنوں بم دھماکہ میں نشانہ بنایا گیا تھا اور اس علاقے کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ بلوچستان میں بھی کون سی قوم ہو گی جو ریاستی جبر کا نشانہ نہ بنی ہو۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمن ظریف رند نے کہا: ”ہمارے علاقوں میں کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں جس نے لاش نہ اٹھائی ہو۔” بلوچوں اور پشتونوں کو اگر ان کی قومی شناخت کی بنا پر نشانہ بنایا جاتا ہے تو ہزارہ لوگوں کو ان کی مذہبی شناخت کر کے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کبھی ریاست خود آ کر کے حملہ آور ہوتی ہے فوجی آپریشنوں، جبری گمشدگیوں، مقدمات اور گرفتاریوں کی صورت میں تو کبھی اپنے پالتو کتے دہشت گردوں اور ڈیتھ اسکواڈ کی صورت میں مظلوم عوام پر چھوڑ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی زمینوں پر قبضہ بھی ریاستی جبر کا ایک جز ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن، ٹیکنالوجی اینڈ مینیجمنٹ سائنسز کا ایک کیمپس کوئٹہ میں ہوتا تھا اور زوب کے مقامی لوگوں نے اپنی زمینوں پر خود ایک اضافی کیمپس تعمیر کر لیا۔ مقامیوں کے مطابق اس نئے کیمپس پر فوج نے قبضہ کر لیا ہے۔ اسی طرح زیارت ریزیڈنسی پر حملہ کو جواز بنا کر گرد و نواح کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا۔ کوئٹہ کے ایک پشتون علاقہ کو بھی اپنی کینٹونمنٹ میں شامل کر لیا ہے۔ مذہبی انتہاپسندوں کی دہشتگرد کارروائیاں بھی بلوچستان اور پشتون خواہ کے باسیوں کے جیون کا معمول ہیں۔ ان انتہاپسند تنظیموں کی ریاست کھلے عام سرپرستی کرتی ہے تاکہ مذہب کے افیون سے اس خطہ کے لوگوں کے سیاسی جذبہ کو کچل سکے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ آئے روز خودکش بم دھماکوں میں معصوم جانیں چلی جاتی ہیں۔ غرض یہ کہ مظلوم اقوام نہ صرف ایک جابر، ظالم اور پنجاب مرکوز ریاست کا جبر سہتی ہیں بلکہ پاکستانی اور افغان حکمران طبقہ کے پالے ہوئے دہشت گرد عناصر کے بھی ظلم و تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ پھر جس طرح اسلام کو نیشن اسٹیٹ کی تعمیر کے پراجکٹ میں بروئے کار لایا گیا، عین اسی طرح اردو زبان کو بھی دیگر اقوام پر قومی زبان کے نام پر مسلط کیا گیا۔ اردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ اس وقت کیا گیا تھا کہ جب بنگالی بولنے والے اس ملک کی اکثریت آبادی تھے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے جب یہ اعلان کیا تو انہوں نے انگریزی میں تقریر کی کیونکہ وہ خود بھی اردو نہ جانتے تھے۔ بہر کیف، اس لسانی تنازع کا ایک بہت اہم کردار رہا بنگالی عوام کو احساس محرومی کا شکار کرنے میں اور بالآخر بنگالی زبان کی تحریک نے جنم لیا۔ 1968-69 میں پاکستان میں ایک معروضی انقلابی صورت حال تھی جس نے محنت کشوں کے خودرو شعور میں اضافہ کیا اور مشرقی و مغربی پاکستان کے مزدوروں نے فیکٹریوں پر قبضے کئے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کا اقتدار خطرہ میں پڑ گیا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب ہم نے پاکستان میں انقلابی محنت کش قیادت کے بحران کا اظہار اپنی تمام تر شدت میں دیکھا۔ اس وقت نظام کے بحران میں موجود قومی سوال کی کڑی کا جواب انقلابی نعروں اور عبوری مطالبات کی صورت میں دینے سے اسٹالنسٹ اور ماواسٹ قیادتیں قاصر رہیں۔ ساتھ ہی بھارتی حکمران طبقہ بھی اس انقلابی صورت حال کو بھانپ گیا تھا اور ان حالات کے پیش نظر اس نے 1971 میں طے کیا کہ بھارت کے محنت کشوں میں یہ وبال پھیلنے سے روکنے کے لئے مداخلت کی جائے۔ نتیجتاً 1971 میں ڈھاکہ کا سقوط ہوا اور قوم پرست رہنما مجیب الرحمٰن نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ اس مختصر سی تاریخ کو بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ کس طرح پاکستان کی نیم نو آبادی ریاست میں ہمیشہ ہی قومی تناؤ پنپتا رہا ہے اور اس کا حل اس فرسودہ نظام میں ممکن نہیں۔

کیا کیا جائے؟

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تاریخی طور پر جب بھی ظلم مٹانے کا ذمہ حکمران طبقہ کو دیا گیا ہے تو اکثریت عوام کی شکست ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش کے باسیوں پر آج اردو بیشک مسلط نہیں ہے مگر سامراج کی گماشتہ ریاست آج بھی بنگالی محنت کشوں کا بری طرح استحصال کرتی ہے اور سامراجی سرمایہ کو بھی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ آؤ اور ہمارے محنت کش عوام کا استحصال کرو۔ پھر بنگالی محنت کش عوام کو پاکستانی فوج مارے یا وہ سانحہ رعنا پلازا میں مارے جائیں، مقدر ان کا استحصال اور موت ہی رہتا ہے۔ لہٰذا مظلوم اقوام اگر اپنے مسائل کا حقیقی حل چاہتے ہیں تو انہیں اس نظام کے خلاف لڑائی لڑنی ہوگی اور یہ لڑائی کوئی بھی ایک قوم کامیابی سے اکیلے نہیں لڑ سکتی۔ اس فتح کے لئے دیگر مظلوم اقوام کو نہ صرف آپس میں جڑنا ہوگا بلکہ محنت کش تحریک کو بھی تعمیر کرنا ہوگا۔ اس نظام کو چلانے والے ہی اس نظام کو بدل سکتے ہیں۔ اس نظام کو بدلنے کے لئے ہمیں انقلابی نظریات اور قیادت درکار ہیں۔ ہم آج کی لڑائی میں اگر فتح یاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اس لڑائی کو اپنے آنے والے کل کی لڑائی کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ اپنے طبقہ کی آزادانہ سیاست جس میں نہ بالادست قوم کا حکمران طبقہ نہ محکوم اقوام کا حکمران طبقہ مداخلت کر سکے، یہی ہماری حقیقی فتح کی ضمانت ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان سے برمش کے بعد حیات بلوچ کے لئے اٹھنے والی تحریک اور اس ضمن میں بنائی گئی کمیٹیاں اس فتح کی راہ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ یہ تحریک بلوچستان سے اٹھی ہے اور پورے ملک میں پھیل رہی ہے۔ یقیناً اس سیاسی اظہار سے ریاست بھی پریشان ہے، بلوچستان کا مقامی حکمران طبقہ اور روایتی پارٹیاں بھی شش و پنج کا شکار ہیں اور وہ علیحدگی پسند بھی خوش نہیں جو آج بھی اپنے غلط طریقہ کار سے سبق حاصل نہ کر سکے۔ آنلائن کلاسز اور برمش بلوچ کے واقعہ پر ہم نے دیکھا تھا کہ بلوچ نوجوانوں کی ایک زبردست تحریک اٹھی جو اپنی فطرت میں سیاسی تھی، جسے نہ ریاست سے امیدیں تھیں، نہ بلوچ حکمران طبقہ سے اور نہ ہی علیحدگی پسندوں سے۔ انہیں امیدیں ہیں تو اپنی جدوجہد اور حرکت سے۔ انہوں نے اب تک کے تمام غلط رجحانات کو رد کر کے بنیادی جمہوری حقوق کے گرد اپنی تحریک کو تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ سیاسی اعتبار سے ایک نہایت خوش آئند پیشرفت ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس ابھرتی ہوئی تحریک میں پروگرام کو زیر بحث لانا چاہئے۔ اس تحریک کو بلوچستان کے مسائل پر مرکوز ضرور رکھنا چاہئے مگر محدود نہیں کرنا چاہئے کیونکہ فتح کی حقیقی ضمانت دیگر مظلوم اقوام اور تمام خطہ کے محنت کشوں کا اتحاد ہے۔ یہ سلسلہ چل پڑا ہے اور اس کی سب سے اہم مثال یہ ہے کہ پنجاب کے دل لاہور میں گمشدہ مدثر ناروکی ماں نے حیات بلوچ کے لئے احتجاج میں شرکت کی اور حیات بلوچ کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی یکجہتی دیگر اقوام اور مزدور طبقہ کے درمیان ایک جڑت پیدا کرے گی جس سے ہم حقیقی انصاف حاصل کر سکیں گے۔ سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد ہی جمہوری تقاضوں کو حقیقی معنوں میں پورا کر سکتی ہے۔