تحریر:منروا طاہر

یوں تو انٹرنیٹ کا مسئلہ پاکستان کے بیشتر پسماندہ علاقوں کا مسئلہ ہے، بالخصوص آنلائن کلاسز کے تناظر میں۔ ہم نے گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے طالب علم حیدر علی سے بات چیت کی ہے اور اس مضمون میں گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ کی فراہمی کے مخصوص مسئلہ اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے کی سعی کی ہے۔
کورونا وبا کے بعد ملک بھر میں بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر اس سال مارچ میں لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا۔ تمام تعلیمی اداروں کو بند کر دیا گیا البتہ جلد ہی ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اعلان کیا کہ اب کلاسز آنلائن کر دی جائیں گی۔ ملک بھر میں اس فیصلہ کے خلاف طلباء نے آواز اٹھائی کیونکہ اس فیصلہ سے غریب محنت کش اور نچلے درمیانے طبقات کے گھرانوں سے آنے والے طلباء بری طرح متاثر ہوئے۔ کورونا وبا کی آڑ میں ویسے ہی بڑے پیمانہ پر لوگوں کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ ایسے میں ان لوگوں پر یہ اضافی بوجھ ڈالنا کہ اب وہ اپنے اسکول، کالج اور یونیورسٹی جاتے ہوئے بچوں کے لئے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا گھر پر انتظام کریں، یہ ظلم کی انتہا ہے۔ ویسے ہی آئی ایم ایف کے قرضوں نے معیشت کی کمر توڑ دی ہے اور غریب محنت کش اور نچلے درمیانے طبقات کو اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے کے وسائل بمشکل میسر ہیں۔ ایسے میں انٹرنیٹ وغیرہ کے چونچلوں پر خرچنے کے لئے یہ غریب عوام پیسہ کہاں سے لائیں؟ اس وقت والدین کی نوکریوں کے خاتمہ کے پیش نظر بیشتر طلباء کے سر پر تعلیم چھوٹ جانے کا ہی خطرہ منڈلا رہا ہے کیونکہ جب نوکریاں نہیں ہوں گی تو ماں باپ بچوں کی فیسیں کہاں سے دیں گے۔
اب بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا مسائل تو ان غریب خاندانوں کے ہیں جو کراچی لاہور جیسے بڑے شہروں میں رہتے ہیں۔ دیہی سندھ، بلوچستان، پشتون خواہ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بیشتر علاقوں میں یہ مسئلہ اور بھی گھمبیر ہے۔ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے طالب علم حیدر علی بتاتے ہیں کہ وہاں انٹرنیٹ کی فراہمی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ صرف ایک ٹیلی کام کمپنی کی 3جی اور 4جی انٹرنیٹ سہولیات فراہم کرنے پر خطہ میں اجارہ داری قائم ہے۔ ایس کام نامی اس کمپنی کو فوج چلاتی ہے اور یہ کمپنی گلگت بلتستان کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی کام کرتی ہے۔ حیدر علی کا کہنا ہے کہ اس کمپنی کی خدمات نہایت غیر معیاری ہیں۔
”ہم گلگت بلتستان کے طلباء اس وقت بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولیات سے محروم ہیں۔ ہمارے خطہ میں صرف ایک جامعہ ہے۔ ایسے میں قدرتی طور پر گلگت بلتستان کے طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے کراچی، لاہور اور اسلام آباد کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ ان شہروں میں رہنے سے پھر طلباء مختلف معاشی، ذہنی اور سماجی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔”
حیدر علی مزید بتاتے ہیں کہ جوں ہی وبا کے بعد لاہور اور دیگر شہروں میں لاک ڈاؤن کیا گیا تو مختلف علاقوں کے طلباء کو کہا گیا کہ وہ اپنے آبائی گھروں کا رخ کریں۔ پھر جامعات نے آنلائن کلاسز شروع کر دیں۔ ”جب کوئی معیاری انٹرنیٹ سہولت ہی میسر نہیں تو ہم کیسے آنلائن تعلیم حاصل کریں؟”
حیدر علی نے یہ بھی بتایا کہ گلگت کے مین شہر میں پھر بھی انٹرنیٹ کوریج کچھ بہتر ہے مگر دور دراز کے علاقوں کے طلباء کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا ہے اور اس میں بھی خواتین طلباء کو سب سے زیادہ دشواری کا سامنا ہے۔ ”لڑکے تو پھر بھی کلاس لینے کے لئے ایسے علاقوں تک سفر کر کے جا سکتے ہیں جہاں کچھ بہتر کوریج ہوجبکہ لڑکیوں پر پابندیاں ہوتی ہیں۔”
پچھلے عرصہ میں گلگت بلتستان کے طلباء نے ٹوئٹر پر ”انٹرنیٹ فار جی بی” کے ہیشٹیگ سے کمپین چلائی تھی۔ ہنزہ، غزر اور اسکردو میں اس حوالہ سے احتجاجات بھی ہوئے۔ ان طلباء کے خلاف پھر ریاست مخالفت اور فوج مخالفت کے بھونڈے الزامات سامنے آئے۔ حیدر علی نے بتایا: ”طلباء نے بہت مشکلات دیکھی ہیں۔ ایس کام کی غیر معیاری سروس کے باعث وہ کلاسز نہیں لے پائے۔ سب نے ایس کام کے سم کارڈ اورانٹرنیٹ پیکج خریدے مگر ایس کام کا سسٹم ہی بیٹھ گیا کیونکہ وہ اتنا لوڈ برداشت کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتاتھا۔ خیر ایس کام کو پھر سوشل میڈیا پر کافی بیک لیش کا سامنا ہوا جب انہوں نے طلباء پر ریاست مخالفت کا الزام لگایا۔ اسی بیک لیش کے باعث انہوں نے اپنے الزامات واپس لئے اور ایک نیا بیانیہ جاری کیا کہ ہم نے کسی اور کمپنی کو یہاں گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ سہولیات کا انفراسٹرکچر لگانے سے نہیں روکا۔ ان کی اجارہ داری اس جھوٹ کے بعد بھی قائم ہے۔”
زونگ کمپنی نے 2019 میں گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر میں 4جی انٹرنیٹ کے لئے ایس کام کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدہ کا کیا بنا کہ اب تک وہاں معیاری انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں، یہ کوئی نہیں جانتا۔ بہر صورت ان حالات کے منفی اثرات طلباء کی تعلیمی کارکردگی پر مرتب ہو رہے ہیں اور غیربرابری میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ حیدر علی نے بتایا: ”چند ایک جامعات نے فاٹا اور گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے طلباء کو اسائنمنٹ جمع کروانے کی ڈیڈ لائن میں توسیع دے دی ہے اور آنلائن کلاسز لینے سے استثناء بھی دیا ہے۔ مگر ایسی جامعات بہت کم ہیں۔ بیشتر طلباء یا تو فیل ہو چکے ہیں اپنے اسائنمنٹ میں یا پھر ان کے گریڈز بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ لکھ پڑھ کر یا لیکچر سے کچھ واقعی سیکھنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ان حالات میں۔”
آنلائن تعلیم، اس کے خلاف تحریکیں اور ان تحریکوں پر ریاستی جبریہ سب مشترکہ اور غیرہموار ترقی کی منطق سے نتھی ہے اور سرمایہ داری نظام کے تضادات سے بھرے کردار کو واضح کرتا ہے۔ روس میں جب سرمایہ داری آئی تو وہاں کوئی بڑے پیمانہ پر پیداوار نہیں ہو رہی تھی۔ انیسویں صدی تک روس میں بس چھوٹا سا پیٹی بورژواذی کا بیس تھا۔ مگر پھر دو دہائیوں کے عرصہ میں بڑی بڑی صنعتیں اور کارخانے زارشاہی اور یورپی سرمایہ کاری کی مدد سے لگائے گئے۔ یوں روس کی سرمایہ داری کو ان مراحل سے نہ گزرنا پڑا جن سے انگلستان کی سرمایہ داری کو اپنے ارتقاء کو ممکن بنانے کے لئے گزرنا پڑا تھا۔ نظریہ مشترکہ و غیر ہموار ترقی یہی ہے اور سامراج کے عہد میں یہ ناگزیر ہے اور اپنے اطراف کے معروض میں ہم اسے ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں۔ روس میں اس مشترکہ اور غیر ہموار ترقی کے نتیجہ میں جو تضاد ابھر کر آیا وہ ایک جدید صنعت اور پرولتاریہ کے ساتھ بیک وقت موجود نہایت پسماندہ کسان تھے۔ پاکستان کے تناظر میں اگر اس معاملہ کو دیکھیں تو اس خطہ میں سرمایہ داری انگلستان کی طرز پر نہیں آئی بلکہ برطانوی استعمار و سامراج کی خون ریزی کی کمر پر آئی۔ یوں عالمی سرمایہ داری کی مشترکہ و غیرہموار ترقی کا ایک اور مظہر ہم اس میں دیکھتے ہیں کہ کس طرح پاکستان میں بنا کسی بورژوا جمہوری انقلاب کے سرمایہ داری یہاں پنپ اٹھی۔ روس کی طرح اس مشترکہ اور غیر ہموار ترقی نے پاکستان جیسی نیم نوآبادی کے لئے مخصوص تضادات کو جنم دیا۔ کورونا وبا سے کہیں پہلے سے ہی پاکستان کے بیشتر پسماندہ علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں تھی جبکہ کراچی لاہور جیسے شہروں میں ایک سے ایک جدید انٹرنیٹ کوریج موجود تھی۔ یہ تضاد اور غیر ہمواریت سرمایہ داری کے بحرانوں کے نتیجہ میں مزید تیز تر ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ غیربرابری پھر کورونا وبا کے نتیجہ میں بگڑتے ہوئے بحران کے تناظر میں مزید شدت اختیار کر گئی ہے۔ بحران کے جبر کے خلاف طلباء کی تحریکیں سر اٹھا رہی ہیں اور ساتھ ہی بحران سے نہ نمٹ پانے کی صورت میں مزید کھوکھلی ہوتی ہوئی ریاست جارحیت و بربریت کا راستہ اپنا رہی ہے۔ یہ سب عین سرمایہ دارانہ نظام کی منطق کے مطابق ہو رہا ہے اور اسی منطق سے اس نظام کی موت بھی جڑی ہوئی ہے۔ معروضی حالات میں تو انقلابی لاوا پک رہا ہے۔ اب سوال ہے موضوعی عنصر کا کہ کب انقلابی قیادت کے بحران کو حل کر کے اس ظلم، بربریت اور ناانصافی کے نظام کو اکھاڑ پھینک کر ایک انصاف اور مساوات پر مبنی سوشلسٹ نظام قائم کیا جا سکے گا۔