تحریر:منروی طاہر

کراچی سمیت سندھ کے دیگر علاقوں میں طوفانی برسات کے سلسلہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ریاست کس قدر کھوکھلی اور ناکام ہو چکی ہے۔ ایک طرف یہ ریاست محنت کش عوام پر بڑے بڑے ٹیکسوں کے بوجھ ڈالتی ہے تو دوسری طرف بارش جیسی قدرتی صورت حال سے نمٹنے کے لئے بنیادی انفراسٹرکچر تک کھڑا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اس وقت کراچی شہر کی صنعتوں میں ہی سترہ لاکھ سے زیادہ مزدور کام کرتے ہیں اور ان کی پیداکردہ قدر زائد سے ہی حکمران طبقہ کی جیبیں گرم رکھی جاتی ہیں۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ سیلابی صورتحال میں 50افراد جانیں کھو چکے ہیں۔ کراچی کی مرکزی شاہراہ فیصل بھی زیر آب ہے۔ محرم کے جلوسوں کے لئے لگائے گئے بڑے بڑے کنٹینروں سمیت گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں سڑکوں پر جمع پانی میں تیر رہی ہیں۔ پانی اور بجلی کی فراہمی گھنٹوں سے مختلف علاقوں میں معطل ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کب یہ سہولیات بحال ہوں گی۔ کئی علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز بھی متاثر ہوئی ہیں۔ غرض یہ کہ تمام تر شہر کا نظام درہم برہم ہے۔
ایسے میں شہریوں نے اپنے گھروں کے دروازے ایک دوسرے کے لئے کھول دئے ہیں اور سوشل میڈیا پر اپنے فون نمبرز کے ساتھ پوسٹس کی ہیں کہ اگر آپ میرے علاقے میں بارش میں پھنسے ہیں تو رابطہ کیجئے اور میرے گھر آجایئے جب تک کہ صورت حال بہتر نہیں ہو جاتی۔ ایک طرف غربت، بھوک اور افلاس کے مرے عوام ایک دوسرے کے ساتھ اس مشکل وقت میں بھی ہمدردی دکھا رہے ہیں تو دوسری طرف حکمران طبقہ کے مختلف حصے نت نئے رجعتی حل پیش کر رہے ہیں۔ کراچی کے کچھ تاریخی طور پر بااثر حلقے اب کراچی کو وفاق یا فوج کے کنٹرول میں دینے کی بات کر رہے ہیں۔ بڑے سرمایہ داروں کو بھی اپنے منافع کی ریل پیل کی فکر ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کراچی کا کنٹرول فوج کو دے دیا جائے تو ایسا انفراسٹرکچر تعمیر ہوسکتا ہے جو ان کے مفادات یعنی سرمایہ کا تحفظ کرے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست اور حکمران طبقہ کے تمام بیانیے خواہ وہ سرمایہ داروں سے آئیں، عسکری، وفاقی، صوبائی یا بلدیاتی قوتوں سے آئیں یا کسی بھی بورژواروایتی پارٹی سے آئیں، اب وہ وقت آن کھڑا ہے کہ محنت کشوں کو ان سب بیانیوں کو رد کرنا چاہیے۔ یہ تمام بیانیے اسی نظام میں حل ڈھونڈتے ہیں اور اس طوفانی برسات نے اس نظام کی فرسودگی اور کھوکھلی بنیادوں کو مزید عیاں کر دیا یے۔ ان تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے تمام معاملات پر محنت کشوں کا جمہوری اقتدار۔ جب یہ محنت کش معیشت چلاتے ہیں تو یقیناً ان ناکام حکومتوں سے بہتر نظام بھی چلا سکتے ہیں۔اس لیے ان حالات میں یہ ضروری ہے محنت کش طبقہ،شہری غریب اور لوئر مڈل کلاس کمیونٹی کی سطح پر اپنی کمیٹیاں تشکیل دئیں اور ان کی نگرانی میں ماہرین شہری مسائل جیسے رہائش، نکاسی آب اور بجلی کا حل پیش کرئیں اور حکومت اس سلسلے میں ان کمیٹیوں کو فنڈنگ کرئے اور بڑے سرمایہ پر ٹیکس لگا کر ان ضروریات کے لیے اخرجات پورے کیئے جائیں۔اس کے علاوہ فیکٹریوں اور کام کی جگہ پر جمہوری کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔یہ کراچی کی سطح پر ایک کونسل تشکیل دئیں جس میں ان سب کمیٹیوں کی نمائندگی ہو اور یہ کمیٹی کراچی شہر کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیکن اس کے ساتھ یہ پورے سندھ اور ملک بھر میں ایسی کمیٹیوں کی اپیل کرئے اور یوں یہ ممکن ہے کہ ایک دوہری طاقت قائم کی جاسکے جو منافع کی بجائے انسانی ضرورت پر مبنی نظام کے لیے جدوجہد کرسکے۔ اسی شعور سے محنت کش عوام کو دور رکھنے کے لئے ریاست مختلف قوموں کے محنت کشوں کو لسانی تعصب کی بنا پر لڑواتی ہے۔ محنت کشوں کو اس قسم کے تمام رویوں کو رد کرتے ہوئے اپنے بنیادی حقوق کی جنگ کو اب اپنے ہاتھوں میں لینا ہوگا۔ اب کم از کم انقلاب!