حیات بلوچ کو 13 اگست کو تربت میں ان کے والدین اور بہن کے سامنے ایف سی اہلکاروں نے شک کی بنا پر رسیوں سے ہاتھ پیر باندھ کر گولیوں سے چھلنی کر دیا اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ حیات کے قتل کے بعد بلوچ سماج میں صدمہ اور غصہ کی کیفیت میں اضافہ ہوا۔ حیات جامعہ کراچی کے فیزیولوجی ڈیپارٹمنٹ کے فائنل ائیر کے طالب علم تھے۔ وہ ایک غریب محنت کش خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے قتل کی خبر نے ان کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ ان کے طلباء ساتھیوں، دوستوں اور اساتذہ کو شدید دکھ کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔

بے گناہ طالب علم حیات بلوچ کے قتل نے بلوچ سماج کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور بلوچستان سے برمش بلوچ کے بعد احتجاجات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ 22 اگست کو بلوچ سٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے دی گئی کال پراحتجاج بلوچستان سمیت ملک بھر میں پھیل گیا اور 32 سے زائد شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور شہید حیات بلوچ کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں۔

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مستونگ، نصیر آباد، خاران، منجھو شوری، پنجگور، حب، خضدار، سوراب، بلیدہ، شال، پسنی، گوادر، تربت، لسبیلہ، بارکھان، جھٹ پٹ، صحبت پور اور اوستہ محمد میں احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور شمعیں روشن کیں گئیں۔ اوستہ محمد، جھٹ پٹ، صحبت پور، شاہ پور اور ٹیپل کے بعد منجھو شوری کی احتجاجی تحریک میں شمولیت گرین بیلٹ کے انقلابی ساتھیوں کی طرف سے بلوچ قومی تحریک میں پہلا کامیاب پڑاؤ ہیں۔ کوئٹہ میں بھی بڑی تعداد میں طلباء اور خواتین نے احتجاجی ریلی نکالی اور مظاہرہ کیا۔

کراچی میں ایک بڑی ریلی ہوئی جس میں بڑی تعداد میں مظاہرین شریک ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مظاہرین کی کم ازکم تعداد ایک ہزار تھی جس میں بڑی تعداد میں بلوچ طلباء اور خواتین شامل تھیں اس کے علاوہ کراچی کا لیفٹ اور ٹریڈ یونینسٹ بھی اس احتجاج میں شامل ہوئے۔ حیدرآباد، نواب شاہ اور شہدادکوٹ میں بھی حیات بلوچ کے لیے مظاہرے ہوئے۔

پنجاب میں بہاولپور، تونسہ شریف، لیہ اور لاہور میں مظاہرے ہوئے۔ لاہور میں ہونے والا مظاہر ے میں دو سو کے قریب لوگ شریک ہوئے جس میں بلوچ طلباء کے علاوہ مزدور خواتین اور لاہور کے سوشلسٹ اور ترقی پسند شریک ہوئے۔ یہ لاہور میں پچھلے عرصہ میں ہونے والے مظاہروں کی نسبت ایک بڑا مظاہرہ تھا اور یہ بھی ظاہر کر رہا کہ بلوچ سماج میں ہونے والی جدوجہد کے اثرات لاہور پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔
اسلام آباد میں برمش سالیڈریٹی کمیٹی کے تحت مظاہرہ ہوا۔اس کے علاوہ گلگت بلتستان، راولاکوٹ میں بھی مظاہرے ہوئے جبکہ پشتون علاقوں میں بھی حیات بلوچ کے لیے بڑے مظاہرے ہوئے جس میں میر علی، درہ آدم خیل شامل ہیں۔ مظاہرے صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوئے بلکہ جرمنی اور نیدرلینڈ میں بھی ہوئے۔

دیگر مظاہروں سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ حیات بلوچ کا واقعہ بلوچ نسل کشی کا تسلسل ہے اور اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے واقعہ میں ملوث تمام اہلکاروں کو معطل اور انھیں سزائیں دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایف سی کا خاتمہ بھی ایک اہم مطالبہ بن کرسامنے آیا اور مقررین نے مطالبہ کیا کہ حیات بلوچ کو انصاف ملنے تک اس سلسلے کو جاری اور احتجاج کو مزید وسیع کیا جائے گا۔

حیات بلوچ کا سفاکانہ قتل بلوچ سماج پر ایک حملہ ہے جو برمش بلوچ کی ماں ملک ناز کی شہادت اور کوئٹہ میں طلباء پر تشدد اور گرفتاری کے بعد سیاسی طور پر متحرک ہورہا ہے اور لوگ اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کررہے ہیں لیکن حیات بلوچ کے قتل نے اس عمل کو مزید تیز کردیا ہے اور سب سے خوش آئند بات یہ ہے یہ احتجاجات برمش بلوچ سالیڈریٹی یا بلوچ سالیڈریٹی کمیٹیوں کے تحت ہورہے ہیں جس میں بلوچ طلباء، خواتین اور مزدور متحرک ہیں اور اس سلسلے میں کوئٹہ میں طلباء تنظیموں کا ایک اتحاد بھی قائم ہوا ہے۔ ہم ان کمیٹیوں اور اتحاد کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بہت ضروری ہے کہ یہ کمیٹیاں آپس میں ریجنل اور قومی سطح پر منسلک ہوں اور ایک مرکزی کمیٹی تشکیل دیں۔ ان کمیٹیوں میں جدوجہد کے پروگرام کو زیر بحث لانا نہایت اہم ہے تاکہ بلوچ سماج سے ابھر کر ملک بھر میں پھیلتی ہوئی اس تحریک کو ایک سوشلسٹ پروگرام کے تحت منظم کر کے حقیقی فتح کی جانب دھکیلا جا سکے۔ حیات بلوچ کے معاملہ کی تفتیش اور سزا کا تعین کرنے کے لئے ان کمیٹیوں کو طبقہ کی آزادانہ سیاست کا بنیادی مطالبہ اٹھانا چاہیے کیونکہ حکمران طبقہ سے انصاف کی امید کرنا خود فریبی ہے۔