سوشلسٹ ریزسٹنس رپورٹ

کراچی: بولان میڈیکل کالج کے ملازمین اور طلباء یوں تو غالباً ایک سال سے اپنے تعلیمی ادارے کی نجکاری کے منصوبہ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ چار روز قبل اسی سلسلہ میں کوئٹہ میں ریلی نکالی گئی اور ریاستی جبر کے باوجود گورنر ہاؤس کا رخ کیا گیا جس کے بعد گورنر ہاؤس جانے والی سڑک پر دھرنا دیا گیا جو چار روز سے جاری ہے۔ حکومت کے ساتھ پہلے مذاکرات ناکام ہوئے جس کے بعد سے دھرنے میں ڈاکٹرز، دیگر ملازمین اور طلباء چار روز سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں، جس کے سبب ان کی حالتیں خراب ہوتی جا رہی ہیں اور ہر دوسرے شخص کو بار بار اسپتال لے جانا پڑ رہا ہے۔ ان مذاکرات میں جام کمال نے خود ملنے کی توفیق نہ کی مگر اس سب کے باوجود طلباء اور محنت کشوں کے حاصلے بلند رہے۔ حکومت کی بےحسی بھی عیاں رہی کیونکہ مہینوں سے احتجاج کرنے والے طلباء و محنت کش اگر آج اپنے حقوق کے حصول کے لئے بھوک ہڑتال کر کے احتجاج کر رہے ہیں تو اس پر بھی صوبائی یا وفاقی حکومتوں کو اب تک اتنی توفیق بھی نہ ہوئی کہ ان کے مطالبات سننے کا دکھاوا کرنے ہی احتجاجی کیمپ پر چلے جائیں۔ بورژوا میڈیا کی دلالی بھی واضح ہے کہ صحافتی آزادی کے علم بردار ڈان اخبار تک کے ویب سائٹ پر حالیہ احتجاج پر کوئی رپورٹ موجود نہیں۔ بہرکیف، وزیر اعلیٰ ہاؤس میں آج پھر مذاکرات ہوئے اور حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی۔ حکومت کے نوٹیفیکیشن کے مطابق بی ایم سی کی سابقہ حیثیت کو بحال کیا جائے گا اور اس کے لئے صوبائی اسمبلی میں قانون میں ترمیم کی جائے گی۔ حکومت کی دغابازی کی روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے چند طلباء اب بھی بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسمبلی کے اگلے سیشن تک وہ اپنی بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے۔ دیگر طلباء اور ملازمین بھی دھرنے میں ابھی تک بیٹھے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کا اگلا اجلاس 9 ستمبر کو متوقع ہے۔

بی ایم سی تحریک کے سرگرم طلباء و ملازمین سے اظہارِ یکجہتی کرنے کے لئے بلوچستان کے دیگر علاقوں میں احتجاجات ہوئے اور 7 ستمبر کو کراچی میں بھی بلوچ ایجوکیشنل کونسل کراچی نے احتجاج منعقد کیا۔ بی ایم سی تحریک کے علاوہ ملتان کی بہاءالدین زکریا یونیورسٹی اور بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی کے طلباء کے حالیہ احتجاجات سے یکجہتی بھی اس احتجاجی کمپین کا حصہ ہے۔ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے بلوچستان اور فاٹا کے طلباء کے لئے اسکالرشپ ختم کر دی ہیں، جو مظلوم اقوام کے پسے ہوئے طبقات کے استحصال اور ان پر جبر کا ایک اور تازہ ترین مظہر ہے۔ اسکالرشپس کے خاتمے کا مطلب ہے کہ اطراف کے علاقوں میں آباد مظلوم اقوام کے غریب عوام پسماندگی کے دلدل میں سے نکل ہی نہ پائیں اور یہی وہ طریقہ ہے جس سے ایک منظم انداز میں سرمایہ دارانہ ریاستیں مظلوم اقوام سے شہری مراکز میں ترقی کی قیمتیں وصول کرتی ہیں اور پھر اس پسماندگی کی بنا پر دیگر اقوام کو آپس میں لڑواتی ہیں۔

بی ایم سی تحریک: وجوہات و مقاصد

بولان میڈیکل کالج 1970 کی دہائی میں بلوچستان میں بنایا گیا تھا۔ بلوچستان میں طب کے شعبہ سے وابستہ افراد اسی کالج سے منسلک رہے ہیں۔ 2017 میں صوبائی اسمبلی نے قانون منظور کیا جس کے تحت اس کالج کو یونیورسٹی میں تبدیل کیا گیا۔ شروعات میں تو طلباء اور ملازمین نے اس کا خیر مقدم کیا مگر پھر اس اقدام کی حقیقت واضح ہونا شروع ہوئی۔ کالج کی حیثیت کو جامعہ میں تبدیل کرنے کے بعد ادارے کے تمام معاملات گورنر بلوچستان کے زیرِ نگرانی آ گئے۔

نئی انتظامیہ نے ضلعی کوٹہ سسٹم کا خاتمہ کیا جو ایک عرصہ سے بلوچستان کے پسماندہ ضلعوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کی نمائندگی کی ضمانت تھا۔ ہاسٹل اور ٹیوشن کی فیسوں میں بھی اضافے کئے گئے اور طلباء کے اسکالرشپس میں کٹوتیاں کی گئیں۔ ہاسٹلز کے رہائشی طلباء کو زبردستی رہائش بدر کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے۔ ان تمام عوامل کے خلاف بی ایم سی کے طلباء، جن میں فیمیل طلباء قیادت کرتی رہیں، کوئٹہ کی سخت سردی میں بھی ڈتے رہے اور اپنے دھرنے جاری رکھے۔ بالآخر یونیورسٹی انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور طلباء کے چند مطالبات پورے کرنے کی حامی بھری۔ فیسوں میں اضافوں کو واپس لینے اور بی ایم سی کو جامعہ میں تبدیل کرنے والے ایکٹ میں ترمیم کی یقین دہانی کرائی، جس کے بعد طلباء نے اپنا احتجاج ختم کیا۔

وقت نے ظاہر کیا کہ انتظامیہ اور سرکار کے وعدے جھوٹے تھے اور محض ایک حربہ تھے کہ جس کے ذریعہ احتجاجی مہم کا مومینٹم توڑ دیا جائے۔ اس سال حکمران طبقہ نے داخلوں میں بھی اپنی طبقاتی ترجیحات کو مزید واضح کر دیا ہے۔ سیلف فائنانس سیٹوں میں اضافہ کیا گیا ہے جو غریب محنت کش اور نظلے درمیانے طبقات سے تعلق رکھنے والے طلباء کو تعلیم سے محروم رکھنے کا ایک طریقہ ہے کیونکہ سیلف فائنانس پر داخلہ لینے والے طلباء کو انٹری ٹیسٹ بھی نہیں دینا پڑتا۔ غرض یہ کہ نیولبرل پالیسی کے تحت تعلیمی ادارے کو ایک کاروبار کی طرح چلایا جا رہا ہے کہ جس کے پاس زیادہ پیسہ ہے وہ آ کر کے اپنے لئے داخلہ خرید لے اور جس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں وہ یوں ہی اعلیٰ تعلیم سے محروم رہے۔

اس وقت احتجاج کرنے والے ملازمین اور طلباء کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھوک ہڑتال کا آغاز اس لئے کیا ہے کہ حکمرانوں پر ان کے اب تک کے احتجاجوں کی گونج نہیں پہنچ پائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنے ادارے کو بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جائیں گے اور اگر کسی ایک بھی طالب علم یا ورکر کو کسی بھی قسم کا نقصان ہوا تو اس سلسلہ میں ملک گیر تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔

بی ایم سی تحریک کا آغاز بولان میڈیکل کالج سے کیا تھا، اس کے بعد کوئٹہ پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگایا گیا، پھر کچھ دن بلوچستان اسمبلی کے باہر بھی احتجاج ہوا جہاں سے طلباء کو جبراً ہٹایا گیا، جس کے بعد وہ دوبارہ پریس کلب کے باہر ہی احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھ گئے۔ اب حلایہ ریلی کے بعد گورنر ہاؤس اور وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے والی سڑک کو بند کر کے دھرنا دیا گیا ہے جہاں بھوک ہڑتال بھی چار روز سے جاری ہے۔

طلباء مزدور اتحاد زندہ باد

انقلابی سوشلسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک نہایت خوش آئند پیش رفت ہے کہ اس وقت بی ایم سی کی تحریک میں ملازمین اور طلباء مل کر جدوجہد کر رہے ہیں اور نظام کے جبر کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ساتھ ہی ہم مذمت کرتے ہیں ان روایتی پشتون قوم پرست تنظیموں کی جو چار روز سے جاری دھرنے میں رسمی شرکت تک نہ کر پائے۔

خوش آئند پیشرفت یہ تھی کہ کراچی اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بی ایم سی تحریک سے اظہارِ یکجہتی کے لئے احتجاجات منعقد کئے گئے۔ کراچی کے احتجاج میں 50 سے  زائد افراد نے شرکت کی اور طبقاتی نظامِ تعلیم کے خلاف آواز بلد کی۔ مظاہرین نے بی ایم سی کی نجکاری کی راہ ہموار کرنے کے حربوں کو رد کیا۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ حکمران طبقہ کو ہم یہ بتا دینا چاہتے  ہیں کہ آپ ہمیں اپنی جیبوں سے کچھ نہیں دیتے ہیں، ہمارے ہی وسائل پر قبضہ کر کے بیٹھے ہیں۔ شرکاء نے بلوچستان میں تعلیم پر حملوں کی بھرپور مذمت کی۔

کامریڈ منرویٰ نے بات رکھی کہ بی ایم سی کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا اقدام دراصل ادارے کی نجکاری کی راہ پکی کرنے کی جانب ایک قدم  ہے اور سرکار کی نیولبرل سرمایہ دارانہ پالیسی کے تحت اب اس تعلیمی ادارے کو کاروبار کی طرح چلایا جا رہا ہے جو بلوچستان کے محنت کش عوام کے ساتھ سراسر زیادتی اور طبقاتی جبر کی ایک مثال ہے۔ انقلابی سوشلسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ بی ایم سی کا معاملہ کوئی الگ تھلگ معاملہ نہیں ہے، یہ ریاست کی نیولبرل اور مزدور دشمن پالیسی کا حصہ ہے جو دیگر اداروں میں بھی کارفرما ہے۔ ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل ملز، پوسٹ آفس، واپڈہ اور تمام ہی اداروں میں ہمیں ایسے ہی اقدامات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ان کو بیچ کر محنت کشوں کو جو تھوڑے بہت حقوق میسر ہیں وہ بھی ان سے چھین لئے جائیں تاکہ حکمران طبقہ کی منافع کی ریل پیل میں مزید اضافہ ہوتا رہے۔ اس نیولبرل سرمایہ دارانہ نظام کا جبر ہمیں محنت کشوں کے ساتھ نوجوانوں اور طلباء پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ بی ایم سی کا معاملہ ہو یا کراچی میں ڈاؤ میڈیکل کالج کے بائز ہاسٹل پر سرکار کے حملہ ہو، یہ تمام واقعات واضح کرتے ہیں کہ کس طرح سرمایہ داری بحیثیت نظام اس قدر فرسودہ ہو چکا ہے کہ اب شہری مراکز کی ترقی ممکن ہی نہیں اطراف میں آباد مظلوم اقوام پر جبر کئے بغیر۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد وغیرہ میں ایک سے ایک تعلیمی ادارہ موجود ہے مگر ان اداروں میں بلوچستان، پشتون خواہ، دیہی سندھ، گللگت بلتستان اور کشمیر سے آنے والے غریب گھرانوں کے طلباء پر ان شہروں کی زمین تک تنگ کر دی جاتی ہے جب ہاسٹل کی فیسوں میں اضافے کئے جاتے ہیں یا پھر ہاسٹلوں پر قبضے کر لئے جاتے ہیں۔ اطراف کے ان علاقوں میں پسماندگی کی انتہا یہ ہے کہ پورے بلوچستان میں ایک بھی کینسر کے علاج کا اسپتال موجود نہیں باوجود اس کے کہ پورے ملک میں بلوچستان سے گیس نکال کر فراہم کی جاتی ہے اور بلوچستان کی زمین میں سے دیگر معدنیات کی بھی بھرپور لوٹ مار کی جاتی ہے۔ بی ایم سی تحریک کی سب سے خوش آئند بات وہاں کے ملازمین اور طلباء کا اتحاد ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مظلوم اقوام پر جبر پاکستان جیسے نیم نو آبادیاتی ریاست کی برباد معیشت کی منطق کے عین مطابق ہے اور یہ معاشی بحران بد سے بدتر ہی ہوتا جائے گا، جس کے نتیجہ میں ریاست مزید جارحانہ انداز اپنائے گی۔ ایسے میں مظلوم اقوام کو اپنے بنیادی جمہوری حقوق کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے مزدور تحریک سے جڑنا ہوگا اور اس تحریک کو تعمیر بھی کرنا ہوگا کیونکہ یہی وہ تحریک ہے جو اس نظام کو اصل چوٹ پہنچا کر اپنے مطالبات منوانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بی ایم سی تحریک کے ساتھیوں نے ایک عرصہ جدوجہد کی جس کے نتیجہ میں آج حکومت اس بات تک بھی آئی ہے کہ کم از کم وعدہ کیا ہے کہ بی ایم سی کی سابقہ حیثیت کو بحال کیا جائے گا۔ سرکار اپنی بات پر کس حد تک قائم رہتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر اس حد تک بھی ریاست اگر بی ایم سی تحریک کے شرکاء کے مطالبات کو ماننے پر آئی ہے تو اس کی وجہ سیاسی جدوجہد ہے۔ تحریک کے ساتھیوں کو طریقہ کار کو زیرِ بحث لانا چاہئے کہ آیا کہ ریاست کو مطالبات منوانے پر مجبور بھوک ہڑتالوں نے کیا یا وزیرِ اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس جانے والی سڑک کو بند کرنے کے سیاسی عمل نے کیا۔ بھوک ہڑتالی احتجاجات میں اگر بی ایم سی کے سرگرم ساتھی مر بھی جاتے تو کیا ایسی ریاست کو کوئی فرق پڑتا جو چن چن کر بلوچوں کا قتلِ عام کرتی ہے؟ یہ اہم سوالات ہیں جن کا جواب ہمیں اپنی تحریکوں کی حقیقی فتح کی ضمانت کے لئے تلاش کرنا ہوگا۔ بھوک ہڑتال سے حکمران طبقہ کا کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے۔ پہیہ جام ہڑتالوں سے البتہ حکمران طبقہ کے منافعوں کی ریل پیل میں خلل آتا ہے لہٰذا ہم بی ایم سی تحریک کے نڈر ساتھیوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اب اپنی تحریک کو ریل، پی آئی اے، اسٹیل ملز اور دیگر شعبہ جات کی جدوجہد کے ساتھ جوڑتے ہوئے اس حکمران طبقہ کو دکھا دیں کہ مزدور اتحاد کی طاقت ہوتی کیا ہے۔ آخری فتح ہماری ہی ہو گی! جدوجہد زندہ باد، سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!