پاکستان میں جنسی جبر کے بڑھتے ہوئے واقعات قابلِ مذمت ہیں۔ موٹر وے پر دل دہلا دینے والے واقعہ کے بعد مختلف شہروں میں خواتین کی تنظیموں نے احتجاج کی کال دی ہے۔ انقلابی سوشلسٹ موومنٹ اس احتجاجی کال کی حمایت کرتی ہے۔سی سی پی او لاہور کا بیان اس کا انفرادی مؤقف نہیں ہے یہ حکمران طبقہ کا بنیادی مؤقف ہے جو اس فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام کی منطق کے عین مطابق ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جنسی جبر و تشدد کے واقعات کی وجہ محض سماج کا غلط شعور نہیں بلکہ وہ غلط معروضی حالات ہیں جن کی ساخت ایک جبری نجی ملکیت کے نظام پر کھڑی ہے۔ عورت اور بچوں کو جب تک مرد کی نجی ملکیت کے طور پر دیکھا جاتا رہے گا تب تک سماج میں جنسی جبر و تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ لبرل اورکچھ لیفٹ دانشور مغربی ممالک کی صورت حال کو مثال بنا کر پیش کرتے ہیں کہ وہاں حالات کس قدر اچھے ہیں۔ ایسے دانشور درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے دلال ہیں کیونکہ وہ یہ واضح کرنے سے قاصر ہیں کہ اگر سامراجی ممالک میں چند ایک بنیادی جمہوری و سماجی حقوق عوام کو میسر ہیں تو وہ نیم نوآبادیاتی ممالک کی لوٹ مار سے جمع کی گئی دولت میں سے پھینکے گئے چند ٹکڑوں کی وجہ سے ہے اور یہ بنیادی اصلاحات بھی سامراجی ممالک کے محنت کش عوام کی جدوجہد کے ثمر میں ملی ہیں۔ جب یہاں کے لبرل دانشور سامراجی ممالک کے بہترین نظام کی مثالیں دیتے ہیں تو وہ ہمارے طبقہ سے غداری کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ وہ اس بنیادی حقیقت پر پردہ رکھ رہے ہوتے ہیں کہ عورت، جنسی اقلیتوں اور بچوں پر جبر کی بنیاد، یعنی خاندان اور نجی ملکیت، اب بھی سامراجی ریاستوں میں نہ صرف برقرار ہے بلکہ وہاں کے بھی سرمایہ دارانہ نظام کو پروان چڑھانے کی پہلی درسگاہ بھی ہے۔

لبرل دانشور جنسی جبر و تشدد کو اپنی خواہشات و جذبات کی بنا پر کتنا ہی انفرادی شعور کا مسئلہ بنا کر پیش کر لیں، حالات و واقعات کا سائنسی اور معروضی تجزیہ ہمیں یہ دکھاتا ہے کہ عورت، جنسی اقلیتوں اور بچوں پر جبر کی جڑ نجی ملکیت کے مادی حالات ہیں اور ان مادی حالات کے نتیجہ میں جنسی تفریق اور غیربرابری کو عوام کے شعور کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ اس شعور کو تشکیل دینے میں خاندان، تعلیم، کام کی جگہوں کا کلچر، میڈیا اور ثقافت و مذہب اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر یہاں یہ واضح ہے کہ یہ شعور جو تشکیل پاتا ہے، یہ محض ایک علامت ہے، جڑ نہیں۔ جڑ تو نجی ملکیت کے معروضی حالات ہیں اور یہ شعور محض ان حالات کا ایک مظہر۔ ہم کتنا ہی اب اس شعور کو کوستے رہیں اور جنسی جبر و تشدد کو انفرادی مسئلہ بنا کر پھانسیاں دیتے رہیں، اس سے مسئلہ حل نہیں ہونے والا کیونکہ ہم معروضی حالات کو تو چھیڑ ہی نہیں رہے۔ ویسے بھی یہ تو ایک نہایت محدود مورالسٹ پوزیشن ہے کہ مجرم سے بدلہ لے لیا جائے اور معاملہ رفع دفع کر دیا جائے۔ جنسی جبر کوئی انفرادی مسئلہ نہیں ہے یہ ایک سماجی مسئلہ ہے جس کو حل کرنے کے لئے ہمیں اس مسئلہ کی جڑ تک جانا ہوگا، یعنی ان غلط حالات تک جو اس غلط شعور کو تشکیل دیتے ہیں۔

ان غلط حالات کو درست کرنے کی ضرورت آج پہلے سے بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے اور ”سوشلزم یا بربریت” کا سوال اپنی تمام تر شدت میں اظہار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کی اکثریت کی حقیقی آزادی کی لڑائی مزدور طبقہ کی عورت کو مزدور طبقہ کے مردوں کے ساتھ مل کر سوشلسٹ نظریات کے تحت لڑنی ہوگی۔ حقیقی فتح کی ضمانت اب صرف سوشلسٹ جدوجہد ہے کیونکہ موجودہ نظام کی فرسودگی جیون کے ہر پہلو میں عیاں ہو چکی ہے اور اس نظام کا ترقی پسند کردار مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ اس نظام کی موت میں ہم سب کی حیات ہے!