تحریر:شہزادارشد

پاکستان تاریخ کے بدترین معاشی بحران کی جکڑ میں ہے۔ڈیفالٹ کا خطرہ آئی ایم ایف سے مذاکرات اور ان کی شرائط پر عملدآمد کے باوجود کم نہیں ہوا ہے حالانکہ حکمران طبقہ نے قومی اسمبلی سے 170ارب (حقیقت میں 500ارب)کے ٹیکسوں کے ذریعے عوام پر ایک بڑا حملہ کیا ہے اور پہلے سے بدحال لوگوں کے لیے جینا مشکل تر ہوگیا ہے،سیل ٹیکس کو پہلے 18فیصد کیا گیا اور اب بہت ساری اشیاء پر 25فیصد کردیا گیا ہے۔اس کے علاوہ نجکاری کے پروگرام پر بھی اتفاق ہوا ہے جس پر مکمل طور پر عمل درآمد کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
بجلی کے صارفین سے 284 ارب روپے مزید وصول کرنے کے لیے 3.82 روپے فی یونٹ قرضہ سرچارج مستقل طور پر عائد کرنے کی آئی ایم ایف کی شرط کو بھی حکومت نے تسلیم کرلیا ہے البتہ7 بلین ڈالر کے بیرونی فنانسنگ گیپ کے معاملے پر ڈیڈلاک برقرار ہے۔وزارت خزانہ کو یقین ہے کہ یہ فرق 5 بلین ڈالر سے کم ہو گا اور چین اورخلیجی ممالک سے نئے تجارتی قرضے حاصل کر کے اسے پورا کر لیا جائے گا۔ آئی ایم ایف پہلے ہی علاقائی ممالک سے پاکستان کو نئے قرضے دینے اور رول اوورکے منصوبوں کے بارے میں رابطے میں ہے۔اس کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ نہیں ہوا جو فروری کے پہلے ہفتہ تک ہو جانا چاہیے تھا جب آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف بہت سختی کررہا ہے اور ہر دفعہ نئی شرائط پیش کرتا ہے۔
ڈار اکنامکس اور ڈالر
پاکستان کے پاس چین سے ملنے والے 700ملین ڈالر کے بعد فارن  ایکسچینج ریزروکچھ اضافہ ہے اور اب یہ 3.8ارب ڈالر ہیں یہ نچلی ترین 2.9سے بہتر ہے لیکن یہ مشکل سے ہی تین ہفتہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں حالانکہ حکومت نے انتہائی ضروری اشیاء کے علاوہ تمام درآمدات کو روک رکھا ہے اس وقت کراچی پورٹ پرتقریباََ ہزاروں کنٹینرز موجود ہیں جن کو کلئیر نہیں کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ادویات کی قلات پیدا ہورہی ہے اس کے علاوہ ہسپتالوں میں آپر یشنز کے لیے ضروری آلات دستیاب نہیں ہیں اور خوراک بھی اس وجہ سے مزید مہنگی ہورہی ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جب وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا تھا تو اس وقت ان کا دعوی تھا کہ وہ ڈالر کو دوسو یا اس سے بھی نچلی سطح پر لائے گا اور وہ قومی خودمختیاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرئے اور وہ جانتا ہے کہ آئی ایم ایف سے کیسے مذاکرات کیئے جاتے ہیں لیکن چند ہی ہفتوں میں ڈار کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کی پالیسی پر عملدآمد کرنے کی سکت اس وقت معیشت میں نہیں ہے  اس سب کے باوجود اندرونی تضادات اور سیاسی قیمت کے نام پر جو دیر ہوئی اس کی قیمت محنت کش عوام ادا کررہے ہیں اور یہ واضح ہے کہ ایک نیم نوآبادی کوسرمایہ داری نظام میں سرمایہ کے آقاؤں کے آگے جھکنا پڑتا ہے اور یہی سب کچھ اب اسحاق ڈار کررہا ہے لیکن حکومت اس کا تمام تر بوجھ محنت کشوں اور غریب عوام پر ڈال رہی ہے۔
اسحاق ڈار نے حکومتی مداخلت کے ذریعے ڈالر کی قیمت کو روک رکھا تھا  لیکن جب آئی ایم ایف کے مطالبے پراس کومارکیٹ پر چھوڑا گیا تو اس کی قیمت275تک پہنچ گئی تھی یہ روپیہ کی قیمت میں تاریخی طور پر تیز تر گرواٹ تھی،جمعرات کو ایک دن میں 8فیصد کی کمی سے یہ285تک چلی گئی تھی۔ڈالر کی قیمت کو حکومتی دباؤ کی وجہ روکنے کی وجہ سے ترسیلات زر میں بڑی کمی آئی ہے اور پاکستان میں ڈالر کے ذخائر میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے ایک اندازے کے مطابق ترسیلات زر میں اس عرصے میں دو ارب ڈالر کے قریب کمی آئی ہے اور اس وقت تارکین وطن ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیج تھے کیونکہ یہاں ان کو ڈالر کا بہتر ریٹ مل تھا۔
سرمایہ داری کے تضادات
2022 کے سیلاب کی تباکاریوں، روس کے یوکرائین پرحملے کے بعد سے اجناس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوا، روپے کی قدر میں کمی اور درآمدات پر پابندیوں کے منفی اثرات نے سٹٹیگفلیشن کو جنم دیا ہے۔ افراط زر کی شرح خاص طور پر خوراک کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور جی ڈی پی اس مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں منفی رہا ہے۔زرعی شعبے کی پیداوار پر سیلاب کے بدترین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ خریف کی فصلیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ سب سے زیادہ کمی کپاس کی فصل میں ہے جس میں 40 فیصد اور چاول کی پیدوار میں 15 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ فصلیں خاص طور پر سبزیوں کی بھی سپلائی بہت کم ہے۔ پیاز کی قیمت میں چار گنا اضافہ اس کا ثبوت ہے۔ مجموعی طور پر خریف سیزن میں پیداوار کا نقصان تقریباً 10% ہونے کا امکان ہے۔

کسادبازاری:

۔

لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی پیداوار میں بھی بڑی کمی ہوئی ہے۔ کوانٹم انڈیکس آف مینوفیکچرنگ) کا تازہ ترین ڈیٹا نومبر 2022 کا ہے۔  میں جولائی سے نومبر کے پانچ ماہ کے دوران 3.5% اور نومبر میں 5.5% کی کمی ہوئی ہے۔ٹیکسٹائل، پٹرولیم مصنوعات، کیمیکل، کھاد، دواسازی، سیمنٹ اور لوہے اور سٹیل کی مصنوعات کی بڑی صنعتوں میں سکڑاؤ آیا ہے اور ان میں 2 سے 25 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ ان میں سے بہت سی صنعتوں میں زوال کا ایک بڑی وجہ درآمدی خام مال کی قلت ہے جس کی وجہ درآمد کے لیے ایل سی پر عائد کردہ کنٹرول ہے۔جی ڈی پی میں کمی کا اظہار اوسی اے سی کے مطابق ٹرانسپورٹ کے شعبے میں پٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں 20% فیصد اور بجلی کی پیداوار میں 5%  فیصدکی کمی ہے۔ بینکنگ سیکٹر کے ڈیپازٹس میں 8 فیصد سے زیادہ کی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ سیمنٹ، لوہے اور سٹیل کی صنعتوں کی پیداوار میں کمی واضح طور پر تعمیراتی سرگرمیوں میں جمود کو واضح کرتی ہے۔ مجموعی طور پر 2022-23 کے پہلے چھ ماہ میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 4 سے 5 فیصد کی حد میں رہنے کا امکان ہے۔یہ گرواٹ ایک بڑی تباہی کو ظاہر کررہی ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام کے آغاز کے وقت شرح سود11فیصد سے مختلف مراحل میں نومبر2022میں 17فیصد کردی گئی جس کی وجہ سے معیشت سست روی کا شکار ہے اور اب 2مارچ کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کے دباؤ کے تحت اس میں اضافہ کردیا گیا ہے اور اب یہ 20فیصد ہے۔ 3فیصد اضافہ کی وجہ حکومت کو تقریباُُ600ارب کا نقصان ہوا ہے جس کو پورا کرنے کے لیے سیل ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔جس کا براہ راست اثر محنت کش اور غریب عوام پر پڑاہے۔
پرائیویٹ سیکٹر کو بینک قرضے میں صرف 4 فیصد کا معمولی اضافہ ہوا ہے۔ مشینری کی درآمدات میں 45 فیصد تک کمی آئی ہے، جس میں ٹیکسٹائل مشینری میں 44 فیصد کی کمی بھی شامل ہے۔ اس سے ٹیکسٹائل کی برآمدات میں مزید کمی متوقع ہے جو پہلے پچھلے سالوں کے مقابلے میں کم ترین سطح پر ہے۔2022-23 کی پہلی سہ ماہی میں وفاقی ترقیاتی اخراجات کی سطح میں تقریباً 48 فیصد کمی ہوئی ہے اس میں آئی ایم ایف کے مطالبے پر مزید کمی کی جارہی ہے۔۔
تاریخ کی بلند ترین مہنگائی
پیاز، چکن، انڈے، چاول، سگریٹ اور ایندھن کی وجہ سے صارفین کی قیمتوں میں ختم ہونے والے ہفتے میں نمایاں اضافہ ہوا، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہفتہ وار مہنگائی پانچ مہینوں میں پہلی بار 40 فیصد سے زیادہ ہوگئی۔ قلیل مدتی افراط زر، جس کی پیمائش حساس قیمت کے اشارے (SPI) سے کی گئی، 23 فروری کو ختم ہونے والے ہفتے کے لیے سال بہ سال کی بنیاد پر 41.54 فیصد تک پہنچ گئی، جو پچھلے ہفتے کے 38.42 فیصد سے بڑھ کر تھی۔
سب سے زیادہ تشویشناک پیش رفت میں سے ایک خوراک کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہے۔ فوڈ پرائس انڈیکس 2022-23 کے پہلے چھ مہینوں میں شہری علاقوں میں 31 فیصد اور دیہی علاقوں میں 34 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔سپلائی کی کمی کے شدید اثرات کی ایک واضح مثال پیاز کی قیمت میں چار گنا سے زیادہ اضافہ ہے۔ اسی طرح غذائی اشیا، گندم کے آٹے کی قیمتوں میں 40 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے، جب کہ درآمدی اشیاء جیسے چائے اور سبزی گھی کی قیمتوں میں بالترتیب 63 فیصد اور 31 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
خسارے کی معیشت
جولائی سے دسمبر 2022 تک ادائیگیوں کے بیرونی توازن کی مجموعی پوزیشن میں $4.3 بلین کا خسارہ ہے۔ 2021-22 کی اسی مدت میں 9.1 بلین ڈالر سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے حجم میں 3.7 بلین ڈالر تک بڑی کمی کے بعد بھی ایسا ہوا ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی پوزیشن میں بہتری کو مالی اکاؤنٹ کی شدید خرابی نے بے اثر کر دیا ہے۔ جولائی سے دسمبر-22 2021 تک 10.1 بلین ڈالر کے بڑے سرپلس کے مقابلے میں یہ 1.2 بلین ڈالر کے خسارے میں چلا گیا ہے۔مالیاتی اکاؤنٹ کئی سالوں میں پہلی بار منفی ہوا ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے حجم میں تقریباً 60 فیصد کمی کی وجوہات بنیادی طور پر درآمدات میں بڑی کمی کی وجہ سے ہے۔پہلی سہ ماہی میں 6فیصد اور دوسری سہ ماہی میں تقریباً 30فیصدہے۔ مؤخر الذکر واضح طور پر درآمدی ایل سیز پر اسٹیٹ بینک کے استعمال کردہ انتظامی کنٹرول کی وجہ سے ہے۔
 اکتوبر کے بعد روپے کی قدر کو برقرار رکھا گیا جس سے درآمدات کی طلب میں اضافہ ہوا جبکہ اسٹیٹ بینک نے ایل سیز پر کنٹرول کے ذریعے اس طلب کو دبا دیا تھا۔ ہدف مہنگائی کی شرح کو کنٹرول کرنا تھا لیکن 4.5بلین کی درآمدات کی روک تھام کی وجہ سے سپلائی میں کمی سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگیا۔اسٹیٹ بینک نے درآمدی خدمات جیسے انفارمیشن ٹیکنالوجی، ایئر لائنز اور بینکنگ کے لیے ادائیگیوں کو بھی محدود کر دیا ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والی (ملٹی نیشنل کارپوریشنز) کے منافع کی واپسی میں بھی کمی آئی ہے۔
بجٹ خسارے کو 2021-23 میں جی ڈی پی کے 7.9 فیصد سے کم کر کے موجودہ مالی سال کے دوران جی ڈی پی کے صرف 4.9 فیصد کرنے کا بڑا ہدف ہے۔ لیکن مجموعی بجٹ خسارہ 2022-23 کے پہلے چھ مہینوں میں گزشتہ سال جی ڈی پی کے 2.0 فیصد سے بڑھ کر جی ڈی پی کے 2.4 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اس سے 4.9فیصد کا ہدف ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔
پبلک مالیات کی حالت ابتر ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے یہ 500 ارب روپے سے زائد کے سیلاب کے بعد امداد اور بحالی کے لیے اضافی اخراجات کی وجہ سے ہے۔ دوسرا، FBR محصولات میں شرح نمو فیصد13 ہے جو کہ 22فیصد کے ہدف کی شرح کے مقابلے میں کم ہے، جس کی بنیادی وجہ درآمدی ٹیکس کی بنیاد میں کمی اور بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ سیکٹر میں منفی نمو ہے۔
تیسرااسٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ میں اضافہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وفاقی حکومت کے ڈومیسٹیک قرضے کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ قرض پر سود کی ادائیگی 1 ٹریلین روپے تک زیادہ ہوسکتی ہے،آئی ایم ایف کے حکم پر پالیسی ریٹ کو 20 فیصد کردیا ہے یعنی بنکوں کو ادائیگی میں مزید اضافہ ہوجائے۔ اس لاگت کو پورا کرنے کے لیے وفاقی PSDP کے سائز میں بڑی کٹوتی ہو گی۔ حتمی خطرے کا عنصر یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں 750 ارب روپے کے ٹارگٹڈ کیش سرپلس کو بڑے مارجن سے کھو سکتی ہیں۔مجموعی طور پرموجودہ رجحانات کو دیکھتے ہوئے23 2022- میں مجموعی بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 6.5 فیصد کے قریب ہونے کا امکان ہے، جو ہدف خسارے کے سلسلے میں جی ڈی پی کے 1.5 فیصد سے زیادہ ہے۔

بیروزگاری اور غربت میں اضافہ
معیشت میں کسادبازاری کی وجہ سے بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے پہلے ہی لاکھوں محنت کش بے روزگار ہیں اس مالی سال کے باقی مہینوں میں کم ازکم مزید 20لاکھ  لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔اس سال 80لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہوں گے۔مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے اس مالی سال میں مزید دوکروڑ سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلیں جائیں گے اور مجموعی تعداد آٹھ کروڑ سے زیادہ ہوجائے گی یہ ایک خوفناک صورتحال ہے۔غربت صرف معاشی اعدادوشمار نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب اس ملک کی آدھی آبادی کی بنیادی خوراک کی ضروریات پوری کرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔یہ صورتحال ایک بڑی سماجی اتھل پتھل کی بنیاد بن سکتا ہے اور اس کا خوف حکمرا ن طبقہ میں واضح ہے۔
قرضوں کا جال
حکمران طبقہ اور اس کے دانشوار اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ ان تمام اقدامات کے باوجود معیشت کا بحران ختم نہیں ہوگا بلکہ ان کو آئی ایم ایف سے ایک اور پروگرام لینا ہوگا
  اس وقت 130 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے  اور ملک کو اگلے تین مالی سالوں میں بیرونی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کے لئے 75 ارب ڈالر کی خطیر رقم درکار ہے (کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ابھی اس کے علاوہ ہے)۔ ایسے ہی ملک کے داخلی قرضوں کا حجم بھی بڑھتا ہی جا رہا ہے جس کی ایک مثال بجلی کے شعبے کے سرکلر ڈیبٹ سے لی جا سکتی ہے جو بجلی کی فی یونٹ قیمت میں تمام تر کمر توڑ اضافے کے باوجود اس وقت پھر 2.3 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے کیونکہ ان کمپنیوں کے ساتھ جو معاہدے کیئے گے ان میں کمپنیوں کے مفاد میں تھے جیسے اب عوام بھگت رہے ہیں۔ صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ہر سال قرضوں کی قسطوں اور سود کی ادائیگی بھی حکومت خود سے نہیں کر سکتی اور اس کیلئے بھی نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ یعنی پرانے قرضوں کی قسطیں واپس کرنے کیلئے بھی قرض لینا پڑ رہا ہے۔
پچھلی دودہائیوں میں جتنے قرضے اور گرانٹس آئیں اور جو رقم باہر گئی تو واضح ہوجاتاہے کہ پاکستان سے جو رقم باہر گئی ہے وہ زیادہ ہے اور جو ملک میں آئی وہ کم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان قرضوں کے جال میں جکڑ گیاہے۔ عالمی ساہوکار قرض دیکر پاکستان سے کماتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرض پاکستان کے وسائل کی لوٹ مار کا ایک طریقہ کار بن چکے ہیں۔سرمایہ داری میں پاکستان کی پوزیشن کی وجہ سے اس چھٹکار پانا ممکن نہیں ہے۔اس صورتحال نے ڈیفالٹ کے خطرے کو بڑھا دیا ہے اور اس کے شور کے تحت حکومت ایک وحشیانہ کٹوتیوں کے پروگرام پر عمل کررہی ہے۔
اشرافیہ کی مراعات
نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ کے مطابق پاکستان سالانہ 70 ارب ڈالر کی اشرافیہ کو مراعات دے رہا ہے۔ یہ مراعات تنخواہوں کے علاوہ ہیں، جن میں زمینوں سمیت مختلف طرح کی مراعات سے مختلف مدوں میں اشرافیہ کوفوائد ملتے ہیں اور اس کا بوجھ عام آدمی پر ہے جس کے لیے دو وقت کا کھانا مشکل ہوگیا ہے اس کے علاوہ 17.5 ارب ڈالر صنعت کاروں کو ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ سبسڈیز کی مد میں دیئے جا رہے ہیں۔اس کا مطلب ہے 87ارب ڈالر اشرافیہ کو دیا جارہا ہے اس لیے تمام تر مہنگائی کے باوجود ان کو کوئی فرق نہیں پڑرہا ہے۔
آئی ایم ایف کا حل
آئی ایم ایف کے تمام پچھلے بیل آؤٹ پیکجز اور ان کے نو لبرل حل معیشت میں کوئی طویل مدتی یا مستقل بہتری لانے میں ناکام رہے ہیں۔ موجودہ بیل آؤٹ پیکج مزید بڑے پیمانے پر نجکاری، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت اور مہنگائی میں اضافے سے مختلف نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ اگرچہ اس کی پالیسیوں کا معاشی نمو پر فوری اثر پڑتا ہے، لیکن سرمایہ داروں کا معیشت پر اعتماد بحال ہونے سے وہ بہتری کا باعث بھی بنتی ہیں لیکن پاکستان کے پچھلے 22پروگرام اور دنیا بھر میں آئی ایم ایف کے پروگرام سے بہتری بجائے صورتحال مزیدابتر ہوئی ہے ایسے میں اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوبھی جاتا ہے تو ڈیفالٹ کا خطرہ فوری طور پر تو ٹل سکتاہے لیکن معاشی بحران کا خاتمہ موجود صورتحال میں ممکن نظر نہیں آتا ہے یعنی محنت کشوں اور غریب عوام کے لیے مزید بدحالی منتظر ہے۔
کیا کیا جائے
معاشی حالات بدترین ہوچکے ہیں اور حکمران طبقہ کی لڑائی عروج پر ہے اور ریاستی اداروں میں اس کا واضح اظہار ہورہا ہے اور ان کے درمیان اور خود اداروں میں تقسیم بہت واضح ہے۔حکمران طبقہ کی ہر پرت اپنے مفاد کے لیے کوشاں ہے۔اس میں مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا اور سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ایسے حالات میں بربریت ابھررہی ہے جو حکمران طبقہ کے مفاد میں ہے جس کے ذریعے کو ہر طرح آواز اور احتجاج کو دبادینا چاہتے ہیں۔محنت کش طبقہ کی مختلف پرتیں احتجاج کررہی ہیں لیکن یہ علیحدہ علیحدہ ہے اس لیے موثر اظہار نہیں ہوپارہا ہے۔ایسے میں پٹی بورژوا کا انتہائی رجعتی اظہار ابھر سکتا ہے۔تحریک لبیک کی شٹرڈؤان ہڑتال اس کا ایک اظہار ہے جہاں یہ بازار کی نمائندہ بن کرسامنے آئی ہے۔قائداعظم یونیورسٹی میں طلباء کے تصادم کو جس طرح ریاست نے استعمال کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں پشتون طلباء نظر بندہیں یہ واضح کررہاہے کہ ریاست کے پاس واحد حل استبدایت ہے۔

۔
ان حالات میں محنت کش، دیہی اور شہری غریب، کسان اور سماج کے مظلوم طبقے ہی ہیں جو ظالم ریاست اور اس معاشی کے خلاف لڑنے کے لیے اکھٹے ہوسکتے ہیں۔موجودہ صورتحال میں بورژوازی کے معاشی حملوں کے خلاف لڑائی کو جمہوری حقوق کی جدوجہد سے سے جوڑنا اور بھی اہم ہے۔ اس وقت سماج میں ایک اضطراب ہے اور غصے میں اضافہ ہورہا ہے اس کا اظہار پٹی بورژوا کی طرف سے ہورہا ہے اگلے عرصے میں ٹیکسٹائیل اور دیگر سیکٹر مالکان کی ہڑتالوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔اسی طرح قائداعظم یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں جس طرح طلباء کے مختلف گروپس اپنے مسائل کی وجہ سے تصادم میں آرہے ہیں اور حکمران طبقہ اسے جس طرح اپنے مفاد میں استعمال کررہا ہے اس کا واضح مقصدنسل پرستی کے فروغ ذریعے جہاں ان طلباء کو ذمہ دار قرار دینا ہے وہاں ان مہنگائی،غربت اور کٹوتیوں کے خلاف متحدہ اور مشترکہ لڑائی سے بھی روکنا ہے۔مہنگائی،تنخواہوں میں اضافہ اور نجکاری کے خلاف احتجاج ہورہا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے یہ احتجاج مرکوز ہوں آئی ایم ایف کے خلاف محنت کش طبقہ کا متبادل پیش کریں۔اس کے تحت ہونے والی جدوجہد جو ریاست کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ موجودہ دور میں محنت کش طبقے کا اتحاد ہی آئی ایم ایف کے پروگرام کو شکست دے سکتا ہے ا ور شہباز شریف کی حکومت کو ہٹا سکتا ہے۔ آخر کار اس جدوجہد کو خود سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد میں تبدیل کرنا ہو گا۔
مطالبات
مزدوروں کے لیے بہتر زندگی کے لیے کم از کم اجرت کافی ہونی چاہیے۔ مزدوروں کی اجرت کو مہنگائی سے جوڑا جائے۔ مہنگائی کی شرح میں ہر ایک فیصد اضافے کے ساتھ اجرت میں ایک فیصد اضافہ ہونا چاہیے۔
نجکاری کے بجائے سرکاری اداروں کو محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں جائے۔ نجکاری کے بعد بند ہونے والے تمام اداروں کو مزدوروں کے کنٹرول میں دوبارہ نیشنلائز کیا جائے۔ جن اداروں کا انتظام پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا گیا ہے ان کو محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں لایا جائے اور اس طرح ہر قسم کی نجکاری کو ختم کیا جائے۔
ملازمتوں میں کمی کی بجائے اوقات کار کو کم کیا جائے تاکہ بے روزگاری کو روکا جا سکے۔
سرمایہ داروں، بڑے جاگیرداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور معاشرے کے دیگر امیر طبقوں پر ویلتھ ٹیکس لگا کر تعلیم اور صحت کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ اس کے بعد صحت کے نئے مراکز اور تعلیمی ادارے بنائے جائیں۔
اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقے کے لیے تمام مراعات اور ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ۔
زراعت میں بڑے پیمانے پر سبسڈی متعارف کرائی جائے۔ مزید یہ کہ بڑے زمینداروں سے زمینیں چھین کر کسانوں اور دیہی مزدوروں کے حوالے کی جائیں۔
ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا جانا چاہیے تاکہ محنت کش طبقے کے ساتھ ساتھ دیہی اور شہری غریبوں کے لیے سماجی سہولیات اور مفت گھر تعمیر کیے جا سکیں۔
بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں ریاست کے قبضے میں ہوں اور انہیں محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں لایا جائے۔
عالمی اقتصادی اداروں کے قرضوں کی ادائیگی سے انکار سمیت آئی ایم ایف کے پروگرام کو مسترد کرنا معیشت کی منصوبہ بند اور متوازن ترقی کے لیے پیشگی شرط ہے لیکن سرمایہ داری کی پابند حکومت کبھی بھی ایسا نہیں کر سکتی۔ ہمیں موجودہ تباہ کن صورتحال سے نمٹنے اور آبادی کی بھاری اکثریت کے مفادات کا دفاع کرنے کے لیے ورکرزکی اپنی تنظیموں پر مبنی حکومت کی ضرورت ہے۔