رپورٹ(سوشلسٹ)

آٹھ مارچ کو عالمی عورت دن کے مواقع پر مختلف شہروں میں عورت مارچ اوراس کے علاوہ مختلف ٹریڈیونینوں اور بائیں بازو کی جماعتوں نے بھی عورتوں کی ریلیاں اور سمینار کو منظم کیا۔جس میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے سرمایہ دارانہ نظام بحران اور پدرشاہی کے خلاف احتجاج کیا۔اس دفعہ پاکستان میں 8مارچ کو ایسے عہد میں منایا کیا گیا۔جب معاشی بحران کے دباؤ میں سماج ٹوٹ رہا ہے اور حکمران طبقہ میں تضادات عروج پر ہیں اور ریاست میں تقسیم شدید تر ہے ایسے میں انتہائی رجعتی قوتیں ابھر رہی ہیں جن کو اس وقت ریاستی آشیرباد بھی حاصل ہے تاکہ موجود صورتحال میں ان تنظیموں کے ذریعے خوف کی فضاء کو قائم کیا جائے اور سماج میں بلوچ،پشتون،ہندو اور عورت کی آزادی کی بنیاد پر تقسیم پیدا کی جائے۔
عورت مارچ کی طرف سے اس سال جن مطالبات کے تحت مارچ کیا گیاان میں عورتوں کے حقوق،سیلاب متاثرین کی بحالی اور ماحولیاتی انصاف کی فراہمی کے مطالبات سمت عورت کی آزادی اور اس کے دوہرے استحصال کے خاتمے سمیت،سماج میں ہر سطح پر عورتوں کے لیے مساوی نمائندگی اور حقوق کے مطالبات شامل تھے۔مارچ کے مہینہ سے بہت پہلے ہی عورت مارچ کے خلاف پراپگنڈہ مہم شروع ہوجاتی ہے اور عورت کی پدرشاہی اور رجعت کے خلاف جدوجہد سے سماج خطرے میں آجاتاہے اور اسے عالمی سازش کے طور پر پیش کیا جاتاہے یعنی عورت کے اپنے حقوق کی جدوجہدسے یہ ڈرتے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس نظام کی بنیاد کس قدر کمزور اور بحران ذدہ ہیں۔ اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوا اور ملک بھر میں عورت مارچ کے منتظمین کو آخری وقت تک مارچ کو منعقد کرنے کے عدالتوں اور انتظامیہ کا سامنا کرنا پڑا۔اسلام آباد اور لاہور میں بھی مارچ منظم کرنا کچھ آسان نہیں تھا۔عدالتوں نے عورت مارچ کو واضح کردیا تھا کہ مارچ کے دوران کسی قسم کا متنازعہ پوسٹر اور گفتگو نہ کی جائے اس کا بنیادی مقصد خوف قائم کرنا تھااور پھر آخری دن جگہ تبدیل کی گی اور مارچ کے راستوں میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اس کے باوجود عورت مارچ میں بڑی تعداد میں عورتیں شریک ہوئیں اور انہوں نے پدرشاہی کو مسترد کرنے کے ساتھ یہ واضح کیا کہ عورت پابندیوں اور جبر کے خلاف جھکنے والی نہیں ہے بلکہ وہ حقوق کی جدوجہد جاری رکھے گی۔اسلام آباد میں پولیس نے عورت مارچ کے شرکاء پر لاٹھی چارج کیا۔اس کی وجہ پولیس کی طرف سے خواجہ سراؤں کی ریلی کو روکنے کی کوشش تھی۔اس پر عورت مارچ کے منتظمین کی پولیس کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی اور پولیس نے عورتوں پر لاٹھی چارج کیا۔ملتان میں بھی تمام تر پابندیوں اور دھمکیوں کے باوجود عورت مارچ کو منظم کیا گیا اور عورت کی بڑی تعداد اپنے حقوق کے لیے نعرہ بازی کرتی رہیں۔
لاہور میں عورت مارچ کے دوران عورتیں جہاں اپنے حقوق کا مطالبہ کررہی تھیں وہاں انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ آزادی چاہتی ہیں اور میرا جسم میری مرضی کا واضح اظہار ان کی ریلی میں ہورہا تھا۔لاہور میں مارچ کے دوران دائیں بازو کے رجعتی لوگ مارچ کے خلاف نعرہ بازی کرتے رہے اسی طرح مختلف یوٹیوبرز اور ٹی وی چینلز کے رپورٹر طنزیہ سوالات کرتے رہے کہ آپ کو کونسے حقوق چاہیے ہیں یا تم لوگوں کے مطالبات ہماری سماجی روایات کے خلاف ہیں۔اس سب ہرسانی کے باوجود عورت مارچ ایک جذبہ کے ساتھ جاری رہا ہے کہ عورت آزادی چاہتی ہے لیکن اس کی آزادی بلوچ،پشتون،پنجابی،سندھی،سرائیکی اور محنت کش و غریب کی آزادی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے یہ اس سرمایہ دارانہ اور پدرشاہی نظام سے آزادی ہے جو ان کو قید اورکچل رہا ہے۔مارچ کے دوران ایران میں عورت کی جدوجہد سے اظہار یکجہتی کے لیے زن،زندگی،آزادی
کے نعرے لگائے جاتے رہے،اسی طرح افغان عورت کے ساتھ بھی اظہار یکجہتی کیا گیا۔عورتوں نے ٹپے گاکر اپنی آزادی کا اعلان کیا۔
کوئٹہ اور کراچی میں بلوچ عورت مارچ منظم کیا گیا۔کراچی میں آرٹس کونسل سے پریس کلب تک ریلی نکالی جس میں بڑی تعداد میں بلوچ عورتیں شریک ہوئیں۔اس مارچ میں شریک عورتوں نے تقاریر کرتے ہوئے واضح کیا خواتین پر مظالم کی وجہ یہ نظام ہے اور ریاست سردار کاتحٖفظ کرتی ہے اور انہوں نے ریاست کے تعاون سے ہی جبر قائم کررکھا ہے۔بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے ساتھ عورتوں پر تشدد اور جبر کی وجہ یہ نظام ہے۔انہوں نے کہا بلوچ عورت پر جبر کے خلاف آواز اُٹھانا بلوچ قوم پر جبر کے خلاف آواز اٹھانا ہے اور عورت کی آزادی کے بغیر بلوچ قوم کی جدوجہد کی کامیابی ممکن نہیں ہے۔
کراچی میں محنت کش عورت ریلی کوبھی منظم کیا گیا۔ریلی میں ہوم بیسڈ ورکرزکی بڑی تعداد کے علاوہ ریلی میں سندھ بھر سے ہاری،مزدور،ورکنگ ومین کے علاوہ ٹرانس جینڈر ز نے بھی بھرپور شرکت کی۔اس ریلی میں آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عملدرآمد کی مخالفت کی گئی کہ کس طرح ان کی وجہ سے محنت کش طبقہ کے لیے جینا محال ہوگیا ہے اس کے علاوہ محنت کش عورتوں کے حقوق کے مطالبات نمایاں تھے۔اس مواقع پر محنت کش عورتوں کا چارٹر بھی منظور کیا گیا۔اسی طرح گھوٹگی مین محنت کش عورتوں نے ایک بڑی ریلی کو منظم کیا جس میں محنت کش خواتین کی شرکت نمایاں تھی۔
فیصل آباد میں لیبرقومی موومنٹ کی طرف محنت کش عورت ریلی نکالی گی جس میں بڑی تعداد میں محنت کش عورتیں شریک ہوئی، راولپنڈی میں بھی لیبرقومی موومنٹ نے خواتین حقوق کانفرنس کو منظم کیا۔اس کے علاوہ لیبر قومی موومنٹ اور اس سے ممبران نے مختلف شہروں میں عورت مارچ میں شرکت کے علاوہ محنت کش عورتوں کے ساتھ ان کے علاقوں میں سٹڈی سرکلز کو بھی منظم کیا۔اسی طرح لیفٹ کی دیگر تنظیمیں اور پارٹیز متحرک رہیں اور اس دن کی مناسبت سے مختلف سرگرمیوں کو منظم کیا یا ان کا حصہ بنیں۔
اس سال 8مارچ پر عورتوں نے تمام تر خوف،پابندیوں اور تشدد کے باوجود بڑے پیمانے پر احتجاجات منظم کیا جس میں سے صرف چند ایک کو ہی اس رپورٹ میں پیش کیا گیا ہے۔لیکن یہ ظاہر کرتا ہے کہ عورت اپنے حقوق کے لیے لڑرہی ہے اور جیسے جیسے نظام کا بحران بڑھے گا عورتوں کو اس کے خلاف منظم انداز میں جدوجہد کرنی ہوگی اس لیے عورت مارچ اور عورتوں کی دیگر تنظیموں کو ایک دن کے مارچ سے آگے بڑھنا ہوگا اور ایک متحدہ محاذ قائم کرتے ہوئے اس نظام کے خلاف جدوجہد کرنی ہوگی جس میں عورتوں کی تنظیموں
کے علاوہ ٹریڈ یونینز،طلباء تنظیمیں اور سوشلسٹ تنظیمیں شامل ہوں تاکہ ملکر پدرشاہی نظام اور سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کو منظم کیا جاسکے کیونکہ عورت کی نجات اس بحران ذدہ سرمایہ داری نظام کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔