عالمی سطح پر سماجی عدم استحکام اور جنگ کے عہد میں مزدور طبقہ کے133ویں عالمی دن پر اہم سوال یہ ہے کہ آج محنت کش طبقہ کو کیسے منظم کیا جائے؟
انقلابی سوشلسٹوں کو محنت کش طبقے کی تمام قوتوں کو متحد کرنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے یعنی ریلوئے ورکرز،واپڈا،پی ٹی سی ایل،لیڈی ہیلتھ ورکرز،پیرامیڈیکل سٹاف،پی آئی اے،کلریکل سٹاف،پاور لوم ورکرز اور دیگر سرکاری اور نجی شعبہ کے محنت کشوں کو جو پچھلے سالوں میں باربار جدوجہد میں آئے ہیں۔اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے بد ترین معاشی بحران سے گزار رہا ہے جسے آئی ایم ایف کی شرائط نے محنت کشوں کے لیے تباہ کن بنادیا ہے۔ محنت کش طبقے پر مہنگائی، بے روزگاری، نجکاری، جبری برطرفیوں،بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمارہے۔ حکمران طبقہ اس بحران کا سارابوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر منتقل کر رہا ہے لیکن محنت کش اور غریب اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
حکمران طبقہ کے کٹوتیوں کے پروگرام کی مخالفت میں ہمیں پبلک ورکس پروگرام اور مہنگائی کے خلاف مزدوروں کے معیار زندگی کا دفاع کرنے کے لیے ایک مربوط جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس تاریخی جدوجہد کے ذریعے جہاں ہمیں مہنگائی کے تناسب سے تنخواہ میں اضافہ کے مطالبہ کو سامنے لانا ہوگا۔اسی طرح معاشی مطالبات کو جمہوری سوالات سے منسلک کرنا ہوگا اور جمہوری حقوق کی جدوجہد سے جڑنا ہوگا یعنی عورتوں کے حقوق،مظلوم قوموں کے حق خودرادیت کا دفاع اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کو ہماری جدوجہد کا حصہ ہونا چاہیے اسی طرح ہمیں کسی طور پر پی ڈی ایم کی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔آئی ایم ایف کے پروگرام کو مسترد کرنے کے ساتھ ہمیں موجود حکومت کے غیر جمہوری اقدامات کی بھی مخالفت کرنی چاہیے ہے اور فوری الیکشن کا مطالبہ کرنا چاہیے ہے۔
1890 میں پہلے یوم مئی پر محنت کش طبقے کو آٹھ گھنٹے کے دن اور پانچ دن کے ہفتہ کے لیے لڑنے کی ضرورت تھی۔ آج سرمایہ دار جدوجہد سے حاصل کردہ ان حقوق پر حملہ آور ہے۔ اگر محنت کش طبقے نے استحصال، جنگوں اور آنے والی ماحولیاتی تباہی کو ختم کرنا ہے تو اسے محنت کش طبقہ کی جدوجہد کی عظیم روایات کو زندہ کرنا پڑئے گا۔گلوبل ساوتھ کے ممالک کو جس طرح قرضے کے بحران کا سامنا ہے سامراجی ممالک کے محنت کشوں کو قرضوں کی ادائیگی کے خلاف گلوبل ساوتھ کے ممالک کے محنت کشوں کے ساتھ ملکر مشترکہ جدوجہد کی جائے۔
ٹریڈ یونینوں کو لازمی طور پر یونین مخالف قوانین کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا جھنڈا بلند کرنا چاہیے۔اس کے لیے انہیں احتجاج،دھرنے اور ہڑتالوں کی حکمت عملی اپنانی پڑئے گی۔ یونین مخالف قوانین کے لیے ہمیں موجود حکومت کو سڑکوں پر شکست دینی ہوگی۔ہر مزدور کے منظم ہونے کے حق کے لیے لڑنا ہوگا اور کسی بھی ادارے میں یونین سازی پر بین کے خلاف جدوجہد کرنی ہوگی تاکہ وہ یونین میں شامل ہوسکے۔ کام کی جگہ پر مزدورکمیٹیاں بنائی جائیں تاکہ وہ اپنے مالکان کی اکاؤنٹ بکس کا معائنہ کرسکیں۔
پی ڈی ایم کی حکومت ہر طرح غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے اقتدار پر قابض رہنا چاہتی ہے۔اس لیے الیکشن کے مخالفت کے ساتھ یہ طالبان اور دہشت گردی کے نام پر خوف مسلط کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا اقتدار برقرار رہے لیکن اس کی وجہ سے رجعت کی قوتیں مزید مضبوط ہورہی ہیں اور محنت کشوں اور ترقی پسند قوتوں کے لیے گھٹن بڑھ رہی ہے۔ہمیں حکومت سے امید نہیں ہے کہ دہشت گردی اور رجعت کے خلاف لڑنے میں سنجیدہ ہے۔دہشت گردی اور طالبان کو شکست محنت کش طبقہ کی عوامی جدوجہد سے ہی دی جاسکتی ہے۔
دنیا بھرکے محنت کش طبقے کو ‘پرانی’ عظیم طاقتوں (نیٹو الائنس) اور نئی سامراجی طاقتوں (چین اور روس) کے درمیان دشمنی کو روکنے کے لیے مداخلت کرنی چاہیے جو انسانیت کو ہتھیاروں کی دوڑ میں گھسیٹ رہی ہے۔ ایک نئی سرد جنگ، وحشیانہ پراکسی جنگیں اور بالآخر ایک تیسری عالمی جنگ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔دنیا کو ارسرنوتقسیم کرنے کی لڑائی معاشی جھڑپوں سے کھلی جنگ کی طرف بڑھ گئی ہے جیسے یوکرین پر رجعتی روسی حملے کے نتیجے میں خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے دنیا کے تمام مزدوروں کے مصائب میں اضافہ ہوا ہے۔ جنگ کے براہ راست نتائج بھگتنے والوں کی مشکلات توبے انتہا ہیں۔ہم سامراجی جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں (بشمول پابندیوں کی صورت میں اقتصادی جنگ)، تمام قابض فوجیوں کا انخلااور نیٹو اور دیگر تمام فوجی اتحاد وں کو ختم کیا جائے۔
سرمایہ داروں کی طرف سے جمع کی گئی دولت کو محنت کش طبقے کو ضبط کرنا چاہیے اور موسمیاتی تباہی کو روکنے اور سب کے لیے سماجی انصاف کے قیام کے لیے ضروری اقدامات پر عمل درآمد کے لیے متحرک ہونا چاہیے ہے۔عالمی معیشت کے لیے ایک جمہوری طور پر طے شدہ منصوبے کے مطابق ان وسائل کو وہاں مختص کیا جانا چاہیے جہاں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ناکہ اس کی بجائے ان وسائل کو امراء کی عیاشیوں پر خرچ کیا جائے۔
اس آدرش کو ممکن بنانے کے لیے محنت کشوں کی جماعتوں، تحریکوں کے علاوہ جو قومی، مذہبی اور صنفی جبر کا شکار ہیں ان کو جمہوری طور پراپنی تنظیموں کو سرمایہ دارانہ ریاست کے خلاف لڑنے والی تنظیموں میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان،پی پی پی یا دیگر کسی بھی جماعت کا محنت کش طبقہ کے مفاد سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے ٹریڈ یونینوں اور مزدور طبقہ اور اس کی تحریکوں کو انقلابی سوشلسٹ پروگرام پر جیتنا ہوگا جو حقیقی طور پر آئی ایم ایف کے خونی جبڑے محنت کش طبقہ کو بچاسکے اور مزدور طبقہ کی مہنگائی، کٹوتیوں اور بے روزگاری کے خلاف جدوجہد کو سرمایہ داری مخالف جدوجہد میں بدل سکے لیکن یہ سب کچھ قومی بنیادوں پر ممکن نہیں ہے اس مقصد کے لیے دنیا بھرکے محنت کشوں کو سوشلسٹ انقلاب کی ایک نئی عالمی پارٹی ففتھ انٹرنیشنل میں متحد ہونا ہوگا۔