دنیا کی تقریباََ آدھی آبادی یعنی تین ارب کے قریب لوگوں کو کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا سامنا ہے۔اس وباء نے عالمی سرمایہ داری کے بحران کو شدید تر کردیا ہے اور عالمی پیدوار اور تجارت میں بڑا خلل آیا ہے۔یورپین سنٹرل بنک کی سربراہ کرسٹین لیگرڈ اس سال یورو زون کے جی ڈی پی میں 5 فیصد کی کمی کوموجود بحران کی شدت میں مثبت اور وہ 10 فیصد کمی کو مایوس کن سمجھتی ہیں۔یورو زون کے جی ڈی پی میں 5فیصد کمی بھی 2008-09کی عظیم کسادبازاری (4.4)سے بڑا زوال ہے۔ آئی ایم ایف کے نئے عالمی معاشی آوٹ لک کے مطابق اس سال عالمی معیشت میں تین فیصد کمی آئے گی جو عظیم کسادبازاری سے بھی بدتر ہے۔
کورونا وائرس کو ئی قدرتی آفت نہیں ہے اس کی شناخت سے وباء قرار دینے تک تباہی اور بربادی کے ہر مرحلے کو انسانی زندگی کے ہر شعبے میں ہماری سیاسی، معاشی، اور سماجی تنظیم کی ہر سطح پر عام آدمی کی نسبت سرمایہ کی بالادستی اور منافع کو اہمیت دی گئی۔اس وباء کی وجہ جدید سرمایہ دارانہ زراعت،جانوروں کی مصنوعی افزائش اور جنگلی جانوروں کی تجارت ہے جو فطرت اور جانوروں کا استحصال کرتی ہے نیز ان کو انسانیت کے ساتھ غیر محفوظ اوربے قابو انداز میں رابطے لاتی ہے۔اس کے ساتھ جنگلات کی کٹائی، زمین کا کٹاؤ، کیڑے مار دوا کی آلودگی کے وجہ سے وائرسوں کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس وباء کے بعد دیگر وبائیں بھی آسکتی ہیں کیونکہ Covid-19 انسانیت کو خطرے میں ڈالنے والا پہلا وائرس نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی اس صدی کے آغازپر کچھ خطر ِناک وائرس سامنے آ چکے ہیں جیسے سار،ایچ ون این،میرس،ایبولا اور دیگر شامل ہیں اور یہ آخری بھی نہیں جب تک سرمایہ دارانہ پیدوار ماحول کو تباہ کرتی رہے گی۔
 سرمایہ داری میں منافع کی ہوس اورحکومتوں کی مختلف ترجیحات نے کچھ بھی نہیں بدلا،فارما انڈسٹری اور چند بڑی کمپنیاں جن کا پیٹنٹ اور کاروباری رازداری کے نام پر ادودیات کی صنعت پر تسلط ہے انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ویکسین کی تحقیق کوترجیح نہ دی جائے۔احتیاط اور بچاؤ علاج سے بہترہوتا ہے لیکن جب منافع مقصد ہو تووباؤ کا پھیلاؤ روکنامنڈی کے لیے نقصان دے ہوتاہے۔اس لیے بیماری کے خاتمے سے زیادہ طویل مدتی علاج فائدہ مند رہتاہے یوں انسانیت سسکتے ہوئے ان کمپنیوں کے لیے منافع کا باعث بنتی ہے۔اس لیے ہر سال لاکھوں بچے اور مریض مرجاتے ہیں کہ ان کا یوں مرنا زیادہ منافع بخش ہے۔ اس سے بڑی ادویات ساز کمپنیاں اور نجی ہسپتال اور لیبارٹریوں کے کاروبار عروج پاتے ہیں۔
سرمایہ اور تجارت کی گلوبلائزیشن نے ایک مقامی وباء کو کچھ ہفتوں میں ایک عالمی وباء اور خوفناک تباہی میں بدل دیا ہے۔جنگوں اور معاشی بحرانات کے اثرات کی طرح اب وبائیں بھی مقامی سے بڑھ کر عالمی ہوتی جارہیں اور نیولبرل ازم کے تحت عوامی سہولیات(صحت کے بجٹ) میں کٹوتیاں ہورہی ہیں تاکہ سرمایہ کا منافع برقرار رہے اس لیے کورنا وائرس اتنی خوفناک شکل اختیار کرگیاہے جہاں جنگوں کے لیے تو کھربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں لیکن وینٹی لیٹر کے لیے پیسے نہیں ہوتے اور اب دنیا اس کا نتیجہ بھگت رہی ہے۔اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آخری سال میں دنیاکووبائی امرض،معاشی بحران اور ایک بڑی ماحولیاتی بربادی کا سامناہے جس سے انسانیت کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔
اس وباء نے عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ ریاستوں کی ناکامی کو واضح کردیا ہے اور عالمی سرمایہ داری کے بحران کو تیزتر کردیا ہے جس سے آنے والے عرصہ میں سامراجی ریاستوں کے تضادات شدت اختیار کرسکتے ہیں۔ابھی تک 20لاکھ سے زائد لوگ کورونا سے متاثرہوچکے ہیں اور اس وقت تک اموات کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد ہیں سرمایہ دارانہ نظام پیدوار نے ایک ایسی صورتحال تشکیل دی جس میں بحران،جنگیں اور وباء اب صدیوں بعد نہیں آتی بلکہ یہ ہر وقت موجود ہیں اور خوفناک بربریت کو جنم دئے رہی ہیں۔
ایران کی صورتحال بہت خوفناک ہے اور وہاں پر بڑے پیمانے پر اموات ہورہی ہیں اس کی ایک وجہ تو رجعتی حکومت کے اقدامات ہیں لیکن بنیادی وجہ امریکہ کی طرف سے ایران کے خلاف پابندیاں ہیں ہم امریکہ اور یورپ کی مزدور تحریک اور سوشلسٹ جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی حکومتوں کو مجبور کریں کہ ایران کے خلاف تمام پابندیاں فوری طور پر ختم کی جائیں اور ایرانی عوام کی بھرپور مدد کی جائے تاکہ وہ اس بحران سے نبردآزما ہوسکیں۔
محنت کش،عورتیں اور نوجوان اس نظام سے تنگ ہیں اور وہ سرمایہ دار حکومتوں اور ان کے کنٹرول کے خلاف ہیں جو ان کی زندگیوں کو چند سرمایہ داروں کی بھینٹ چڑھارہے ہیں۔اگلے عرصے میں اس نظام کے خلاف جدوجہد اور بغاوتیں سامنے آسکتی ہیں لیکن سرمایہ داری نظام کے خلاف منظم جدوجہد کے لیے ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو نہ صرف اس وقت حکمران طبقہ کے محنت کشوں اور شہری ودیہی غریبوں پر حملے کا مقابلہ کرسکے بلکہ اس جدوجہد کوسرمایہ داری نظام کے خلاف سوشلسٹ انقلاب میں بدل سکے یعنی ایک ایسا پروگرام جو اس نظام کے خلاف جدوجہد کی واضح حکمت عملی اور طریقہ کار پیش کرئے۔
ناکام حکمران طبقہ:
پاکستان کا حکمران طبقہ اس وباء کو ایک ایسے خطرے کے طور پر پیش کررہا ہے جس کا ان کے پاس کوئی سدباب نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ جب امریکہ اور دیگر یورپی ممالک اس وباء کا مقابلہ نہیں کرپائے تو پاکستان جیسے کمزور ملک اور ریاست اس سے کیسے نبٹ سکتی ہے لحاظ حکمران طبقہ اور اس کے علاوہ میڈیا میں ایک بات ہی تواتر سے کہی جارہی ہے کہ ہمیں سماجی دوری اختیار کرنی ہوگی نہیں تو ایک تباہی ہمارا مقدر ہوگی اس لیے مولوی اور عام آدمی کی جہالت کو کوسا جارہا ہے کہ اس کی وجہ سے صورتحال خراب ہوگی ہے یوں حکومت کی ناکامی کو جواز بخشا جارہاہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کی عدم مقبولیت کی وجہ سے فوج اس بحران میں بالادست کردار ادا کررہی اور سول افسر شاہی کا کردار بھی نسبتاََ آزادانہ ہوتاجارہا ہے جبکہ عدلیہ نے ظفر مرزا کو ہٹانے اور حکومت کی کارکردگی پر جو ریمارکس دیئے ہیں یہ لوگوں کے دل کی آواز توضرور ہیں لیکن یہ اس بات کا اظہار ہے کہ حکمران طبقہ لاک ڈاؤن پر اپنے تضادات پر قابو پانے میں ناکام ہے اور عدلیہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کی تجویز دئے کر معاملات کو مشترکہ طور پرحل کرنے کا کہہ رہی ہے۔لیکن یہ عدالت سرمایہ کے مفاد کی ترجمان ہے اس لیے یہ حفاظتی لباس کی عدم موجودگی میں بھی فرائض ادا کرنے کا کہتی ہے اور ہیلتھ ورکرزکے احتجاج کو ناپسند بھی کرتی ہے۔حکمران طبقہ کی کشمکش میں جو بھی حصہ بالادست ہوگا یا ان کے درمیان کوئی سمجھوتہ ہوگا ان کا حل اس بحران میں مزید آمرانہ اقدامات ہوں گے۔
حکمران طبقہ کے دونوں حصے قومی معیشت کے نام پر مالکان کوفائدہ پہنچنے کے حوالے سے متفق ہیں۔اس کی وجہ حکمران طبقہ کی ترجیحات ہیں جو ان کی طبقاتی پوزیشن سے متعین ہوتی ہے۔اس لیے حکومت سمیت اگر میڈیا میں کوئی بحث ہے تو وہ یہ کہ کیسے سرمایہ دار طبقہ کو ریلیف دی جائے اور وزیراعظم عمران خان نے سرمایہ داروں کے مختلف حصوں کو 1800ارب روپے کا پیکچ دیا ہے۔ جس سے ایکسپوٹرز،بڑے صنعت کار،رئیل اسٹیٹ،بلڈرز،بجلی کی کمپنیوں کے علاوہ دیگر سرمایہ داربھی مستفید ہوں گے۔تعمیراتی پیکچ کا مقصد سرمایہ داروں کے کالے دھن کو سفید کرنا ہے۔اس سب کے باوجود مالکان کہہ رہے ہیں کہ ہم کام کے بغیر مزدوروں کو تنخواہ نہیں دئے سکتے  ہیں۔ مرکزی وزیر رزاق داؤد صوبائی حکومتوں سے کہتے ہیں کہ برآمدی صنعت کو بند نہ کیا جائے کیونکہ کہ سرمایہ داروں نے آڈر پورے کرنے ہیں یہاں بھی مزدور کی زندگی اور بہتری کی بجائے بڑے سرمایہ داروں کا منافع ہی عزیز ہے۔
عمران خان کی حکومت اس بحران میں بالکل ناکار ثابت ہوئی ہے بلکہ اس نے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرکے صورتحال کو بدتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔جس طرح تفتان میں زائرین کے ساتھ سلوک کیا گیا یہ اس حکومت کے طبقاتی کردار کو ظاہر کرتا ہے یعنی عرب شہزادوں کے لیے تو ڈرائیور بن جاتے ہیں اور اپنے ملک کے باسیوں کو اُس بیابان میں مرنے کے چھوڑ دیا کیونکہ ان کے مطابق تفتان 700کلومیٹر دور اور ریاست کی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ مناسب بندوبست کرسکتی حالانکہ یہ ریاست بلوچ نوجوانوں کو مارنے اورگمشدہ کرنے کی بے تحاشہ صلاحیت رکھتی ہے۔اسی طرح جب ان زائرین کو چودہ دن تک زندہ درگور کرنے کے بعد دوبارہ ٹیسٹ کیا گیا تو ثابت ہوگیا کہ ریاست کتنی ناکار اور بے کار ہے جب معاملہ محنت کش عوام کی زندگی کا ہو۔ حکومت اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے کبھی ایل تشیع پر اور کبھی تبلیغی جماعت پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام لگاتی ہے۔ ہم اس بات کے حق میں ہیں کہ ایسے حالات میں مذہبی فرائض گھروں میں ادا کیئے جائیں لیکن حکومت اس حوالے سے بھی ناکام ہے۔
 پچھلے چالیس سالوں میں نیولبرل ازم کے تحت اورپاکستان کی عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں نیم نوآبادی ہونے کی وجہ سے صحت کا نظام برباد ہوا ہے۔ بلوچستان،خیبرپختوانخوہ،جنوبی پنجاب،کشمیر،گلگت بلتستان اورسندھ کے دیہی علاقوں کی صورتحال بہت خراب ہیں اور وہاں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی طرح چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر چھوٹے شہروں اور قصبوں کی صورتحال بہت خراب ہیں اور ادھر صحت کی سہولیات نہ ہونے کہ برابر ہیں اور وینٹی لیٹر تو موجود ہی نہیں ہیں اور نہ ہیلتھ ورکرز کے لیے کوئی سہولیات ہیں۔
 حکمران طبقہ میں تضادات کے باوجود سرمایہ داروں کو بیل آوٹ کرنے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔اس سب کا یہ مطلب ہے کہ سرمایہ داری نظام میں رہتے ہوئے محنت کش طبقہ کے لیے کوئی حل نہیں ہے۔اپوزیشن پارٹیوں نے مطالبات کی جو لسٹ پیش کی ہے وہ حکومتی اقدامات سے بظاہربہتر لگتی ہے لیکن وہ بھی کسی طرح محنت کش عوام کی بنیادی ضروریات کے لیے کافی نہیں ہے اور یہ واضح کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ ان کے مطالبات پر عملدرآمد کیسے ہوگا یعنی اس کے لیے اس طبقاتی نظام میں رہتے ہوئے وسائل کہاں سے آئیں گئیں اور کون اس پر علمدرآمد کروائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ ہی حکومت اور نہ ہی اپوزیشن کو محنت کش عوام کی کوئی پروا ہے لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ سماجی شیراز بکھیرے کیونکہ اس سے ان کا نظام اور مراعات خطرے میں پر سکتی ہیں لحاظ یہ نظام کو بچانے کے لیے مخیر خضرات اور ویلفر اداروں اور اپنی مددآپ پر زور دئے رہے ہیں اور ان کے مطابق حکومت کچھ نہیں کرسکتی اور حکومت سے امید لگا کرنہ بیٹھیں لیکن حقیقت میں یہ ایک جھوٹ ہے اور اس ایمرجنسی کی صورتحال میں جب بھوک بلکہ انسانی زندگی کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگ رہا ہے تو ایسے وقت میں مالکان کو بیل آوٹ پیکچ دیناایک بھونڈا مذاق ہے۔اس سرمایہ سے حفاظتی کٹس اور محنت کش عوام کو بڑے پیمانے پر ریلیف دیاجاسکتاہے۔
سوشلسٹ حکمت عملی:
 اس بحران نے سرمایہ داری نظام کا اصل چہرہ بے نقاب کردیا ہے اور وہ وباء کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام رہی ہے اور اب بڑے سرمایہ داروں کے منافع کے لیے حقیقت میں لاک ڈاؤن ختم کردیا گیاہے چاہے اس سے ہزاروں اموات ہوجائیں۔اس بحران سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ یہ نظام کون چلاتاہے۔انسانی جان کو بچانے کے لیے ہیلتھ ورکرز کی ضرورت ہے جبکہ بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محنت کش طبقہ کی دیگر پرتیں بنیادی ہیں۔
لیکن حکمران طبقہ اس بحران کوطبقات سے ماوراپیش کررہا ہے جس سے سب ہی متاثر ہورہے ہیں اور جنگی پیمانے پر اس سے لڑنے کی ضرورت ہے تاکہ سب اس بحران میں ریاست کے پیچھے کھڑے ہوجائیں اور حکمران طبقہ اس بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقہ پر ڈالا دے۔اسی طرح حکومت ایک طرف مالکان کے مطالبہ پرلاک ڈاؤن کو قومی معیشت اور (HERD IMUNITY) کے نام پر ختم کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف سماجی دوری کے نام پر ایسے اقدامات کررہی ہے تاکہ محنت کش طبقہ اور شہری ودیہی غریب کے کسی بھی احتجاج اور مزاحمت کو کچلا جاسکے۔آج یہ واضح ہے کہ کیسے محنت کش طبقہ اور غریب عوام نہایت ہی برئے حالات میں ہیں ان کی نوکریاں بڑے پیمانے پر ختم ہوئیں ہیں اور ان کو تنخواہیں نہیں دی جارہی اور وہ فاقوں کے قریب ہیں یہ محنت کشوں اورشہری ودیہی غریبوں کے لیے ایک خوفناک بحران ہے۔  مختلف لیفٹ گروپس اور ٹریڈ یونینز تمام تر اچھے مطالبات کے باوجود اس ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے میں ہی حل دیکھتے ہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ بحران میں محنت کش طبقہ کی قیادت تعمیر کرنے اور اس وباء سے نبٹنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کی ٖضرورت ہے۔اس لیے لیفٹ میں جیسے عوامی ورکرز پارٹی اور تقریباََ تمام ہی ٹریڈیونینز سہہ فریقی کانفرنس اور حکومت کے ساتھ مل کرکام کرنے کی حکمت عملی پیش کررہے ہیں جبکہ اس وقت حکومت اور بورژوا اپوزیشن پارٹیوں سے تمام تر تعلق توڑنے کی ضرورت ہے۔اس لیے ایک ایسے متحدہ محاذ کی ضرورت ہے جس میں لیفٹ کے گروپ،پارٹیاں اور ٹریڈیونینز شریک ہوں نیز وہ ہیلتھ ورکرز اور جودیگر ورکرز جدوجہد کررہے ہیں ان سے رابطہ کیا جائے اور ان کو متحدہ محاذ میں شامل کیا جائے۔
اس کے ساتھ کام کی جگہ اور محلے کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو لاک ڈاؤن اور دیگر معاملات پر فیصلہ کن کردار ادا کریں۔اس طرح حکومت اور مالکان سے اختیار محنت کش طبقہ کی طرف منتقل ہو اور وہ محلے،علاقوں اور شہر کی سطح پر معاملات اپنے کنٹرول میں لیں یعنی ایک دوہری طاقت تشکیل دئیں جو ریاست کے اندار ریاست کا کردار ادا کرئے۔تاکہ سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے ایسا نظام تشکیل دیا جاسکے جو منصوبہ بند ہو،اس میں پیدوارکا مقصدانسانی ٖضروریات کی تکمیل ہو اور یہ ماحول کا تحفظ کرے مختصراََ ایک سوشلسٹ سماج کی تشکیل ہولیکن یہ سب ازخود نہیں ہوگا اس کے لیے سوشلسٹوں کو ایک واضح حکمت عملی ے تحت سامنے آنا ہوگا۔
جدوجہد کا پروگرام
کورونا اور معاشی بحران میں سوشلسٹوں پر دوہری ذمہ داری ہے ایک طرف جہاں محنت کش طبقہ اور شہری و دیہی ٖغریبوں کے لیے بہترین اور مفت صحت کا مطالبہ کریں جس کے لیے صحت کے بجٹ میں کم از کم دس گنا اضافہ کیا جائے اور اس ہنگامی صورتحال میں ضرورت کے مطابق سرمایہ فراہم کیا جائے جس کے لیے بڑے سرمایہ داروں پر بھاری ٹیکس لگائے جائیں اور وزیراعظم،وزراء اور افسر شاہی کی تنخواہوں اور مراعات میں کمی جائے۔اس کے علاوہ ڈیلی ویجرز اور خود سے کام کرنے والوں کے لیے ضروریات زندگی کی فراہمی کا مکمل بندوبست کیا اور اس کا فیصلہ محنت کشوں کی محلے سطح پر منظم کمیٹیوں میں کیا جائے۔یہ کمیٹیاں حکومت اور بورژوا اپوزیشن سے مکمل طور پر آزاد ہوں۔ ہمیں فوری مطالبات کو سرمایہ دارانہ پیدوار کے خاتمے کے ساتھ منسلک کرنا چاہیے۔کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام ماحولیات،معاشیات اور انسانی زندگی کے وجود کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
بڑے پیمانے پر لوگوں کے کورونا ٹیسٹ کیئے جائیں،یہ ٹیسٹ نجی لیبارٹریوں میں بھی مفت ہوں،ہسپتالوں کی نجکاری کے عمل کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ نجی ہسپتالوں اوردوا ساز کمپنیوں کو ریاستی کنٹرول میں لیا جائے تاکہ وسائل کا بہتر اور منظم انداز میں استعمال بھی کیا جا سکے۔ حکومت کو ادویات اور میڈیکل مشینری کی امپورٹ
ایکسپورٹ کو بھی فوری طور پر ریاستی کنٹرول میں لینے کی ضرورت ہے۔ریسرچ اور ہیلتھ کاایسا نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو ان خوفناک وباؤں کا مقابلہ کرسکے اسی طرح شہروں میں موجودہوٹلوں، خالی نجی عمارتوں اور پلازوں کوبھی ریاستی تحویل میں لیتے ہوئے کورونا ہسپتالوں میں تبدیل کیا جائے۔ پوش رہائشی کالونیوں میں خالی پڑے گھروں کو بھی ریاستی تحویل میں لیتے ہوئے قرنطینہ سنٹرز میں بدلا جا ئے۔ ہر شہری کو علاج کی تمام سہولیات مفت فراہم کی جائیں اور علاج کے دوران کھانے پینے کی مکمل ذمہ داری حکومت کی ہو۔سیاسی قیدیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور تمام جبری طور پر گمشدہ افراد کو بازیاب کیا جائے نیزقیدیوں کو علاج کی مکمل سہولیات فراہم کی جائیں۔
حکومت نے لاک ڈاؤن کا خاتمہ کردیا ہے ان حالات میں ضروری ہے کہ ان صنعتوں کے محنت کش کام کی جگہ پر کمیٹیوں کی تشکیل کے ذریعے صنعت کو اپنے کنٹرول میں لے کر کام بند کرنے کا اعلان کریں اوراگر مالکان ایسا کرنے سے انکار کریں تو ہڑتال کے ذریعے انہیں مجبور کیا جائے کہ کام کو بند کرکے محنت کشوں کو پوری تنخواہ ادا کی جائے۔ لیکن جو محنت کش کام رہے ہیں ان کو اضافی معاوضہ دیا اور کام کے اوقات کار میں کمی کے ساتھ ان کو حفاظی سامان فراہم کیا جائے تاکہ ان کی زندگی کو خطرے میں ڈالے بغیر بنیادی پیدواری عمل کو جاری رکھا جاسکے۔اسی طرح کرایہ داروں کو حکومت کی طرف سے تحفظ فراہم کیا جائے اور کسی کو مالک مکان بے دخل نہ کرسکے اگر کرایہ دارکسی بڑے مالک کے کرایہ دار ہیں اور وہ کرایہ ادا نہیں کرسکتے تو اس ایمرجنسی کی صورتحال میں ان کا کرایہ ختم کردیا جائے اور اگر وہ کسی لوئر مڈل کلاس یا غریب بستی میں ایک پورشن میں رہ رہے ہیں اور کرایہ ادا کرنے ے قابل نہیں ہیں تو حکومت اسے ادا کرے۔
سماجی تحفظ:
معاشی بحران نے پہلے ہی مزدور طبقہ کی کمر توڑدی ہے اور اب لاک ڈاؤن اس کا بھرکس نکال رہاہے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھوک کا ننگ ناچ شروع ہوگیا ہے ہر طرف ترسی آنکھیں سوال کررہی ہیں کہ کیا کورونا سے پہلے ہی ہمیں بھوکا ماردو گے۔ان حالات میں اپنی مدد آپ اورانسانی ہمدردی کے تحت عام نوجوان،محنت کش،ٹریڈ یونینز،طلباء اور عورتوں کی تنظیمیں محنت کشوں اور شہری ودیہی غریبوں کو راشن پہنچا رہی ہیں۔یہ حکومت کا کام ہے اور ہمیں اس کے لیے ریاست سے فوری خورا ک اور راشن کی فراہمی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔اس لیے محلوں کی سطح پر کمیٹیوں کی تشکیل کا مطالبہ کرنا چاہیے جن کو یہ تنظیمیں اور ریاست خوراک اور راشن فراہم کرئے اور یہ کمیٹیاں ان کو تقسیم کریں۔
 صنعت کے بند ہونے یا محنت کش کے بیمار ہونے کی صورت میں مکمل تنخواہ کے ساتھ چھٹی دی جائے۔ملازمتوں سے برطرفی کو مکمل طور پر روک دیا جائے ایسے تمام اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا جائے جو اپنے ورکرز کو نوکریوں سے نکالیں۔بے روزگاروں،خود کام کرنے والوں اور معذور افراد کو کم اکم30ہزار روپے ماہانہ ادا کیئے جائیں۔
چار لاکھ ماہانہ سے زیادہ آمدن پر 100فیصد ٹیکس لگایا جائے۔
سپر سٹورز اور بڑے گوداموں میں خوراک اور بنیادی اشیاء ضرورت کے انبار لگے ہو ئے ہیں اور امراء اور اپر مڈل کلاس کے لوگوں نے چھ ماہ اور سال بھر کے لیے راشن جمع کرلیا جبکہ محنت کش طبقہ اور شہری و دیہی غریبوں کے گھروں میں خوراک اور بنیادی ضروریات کی اشیاء میں قلت ہے اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد پر بھاری جرمانے کیئے جائیں اوران کی ملکیت کو ریاست کے کنٹرول میں لے لیا جائے۔ خوراک سمیت دیگر اشیائے ضرورت کی ہول سیل تجارت اور ترسیل کو بھی ریاست تحویل میں لے کر انہیں محنت کشوں،کسانوں،ٹرانسپورٹ ورکرز کمیٹیوں اور محلہ کمیٹیوں کے جمہوری کنٹرول میں دے تاکہ ذخیرہ اندوزی ممکن نہ رہے اور ہر کسی کو اس کی ضرورت کے مطابق ماہانہ راشن فراہم کیا جاسکے۔اشیاء کی قیمتوں کافیصلہ پرائس کمیٹیاں کرئیں جس میں عورتوں کو زیادہ نمائندگی دی جائے۔
محنت کش طبقہ کنٹرول کے لیے جدوجہد:
 بہت سارے لوگوں میں ابتدائی علامات کے باوجود ان کو چیک نہیں کیا جارہا کیونکہ حکومت نے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کی صلاحیت ابھی تک حاصل نہیں کی اور یہی وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا ہے کہ اگر ابتدائی علامات ہیں تو گھروں میں ہی رہیں خود ہی ٹھیک ہوجائیں گئیں۔اس لیے بظاہر ہمارے ہاں تعداد کورونا مریضوں کی تعدادکم نظر آرہی ہے لیکن اس سے کورونا وائرس بڑے پیمانے پر پھیل سکتاہے۔
اس وقت ہسپتالوں میں بیڈز کی تعداد ایک لاکھ 19 ہزار ہے یعنی 2 ہزار پاکستانیوں پر ایک بیڈ ہے اورہر پندرسو پاکستانیوں پر ایک ڈاکٹرہے جبکہ نرسوں اور پیرامیڈیکل سٹاف کی صورتحال بہت ہی گھمبیر ہے نیزکل وینٹی لیٹرز 813 ہے جو قابلِ استعمال حالت میں ہیں یعنی2 لاکھ 70 ہزار پاکستانیوں کے لیے ایک وینٹی لیٹرہے۔اس کے باوجود موجودحکومت نے صحت کے لیے وفاقی بجٹ میں صرف13ارب روپیہ رکھاتھا۔
تحریک انصاف کی حکومت کی عوام دشمنی اور عالمی مالیاتی اداروں کی دلالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف پاکستان میں کورونا وائرس کے کیس رپورٹ ہو رہے تھے لیکن پنجاب حکومت ہیلتھ سیکٹر کے ورکرز کی مخالفت اور احتجاج کے باوجودصوبائی اسمبلی میں سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے بل (ایم ٹی آئی ایکٹ) کو منظور کرانے میں مشغول تھی۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت پہلے ہی خیبر پختونخوا میں ایم ٹی آئی ایکٹ کانفاذ 2015ء میں ہی کر چکی ہے۔ اس نجکاری کے نتیجے میں سرکاری علاج بھی انتہائی مہنگا ہوکر عوام کی پہنچ سے باہر ہوچکا ہے۔ حکومت پنجاب بھی اس کے لیے کوشاں تھی اور دوسرے صوبوں میں بھی یہی کچھ ہوگا۔ ایسی صورتحال  یہ نظام ہم کوجس کی طرف دھکیل رہا ہے اس میں حکمران طبقہ سے کوئی امید حماقت اور موت ہی ہوسکتی ہے۔ان حالات کا مقابلہ کرنے کے جہاں ایک طرف موجود وسائل کو بہترین انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے وہاں صحت کو تجارت بنانے انکار کرنا ہوگالیکن ایسا سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن نہیں ہے۔
ایسی حکومت کی صلاحیت پر اعتبار کا مطلب تباہی ہوگا۔اس بحران سے نبٹنے میں ہیلتھ سیکٹرز کے ورکرزساتھ ایمرجنسی ورکرز،سپر سٹورز اورٹرانسپورٹ ورکرز اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پرڈاکٹرز بار بار حفاظتی کٹس کی عدم موجودگی کی نشاندہی کرہے ہیں اور ایسی تصویریں بھی سامنے آرہی ہیں جس میں ڈاکٹرز پلاسٹک بیگ اپنے منہ پر ڈال کر مریضوں کو چیک کررہے ہیں جس کی وجہ سے دو ڈاکٹرز شہید اور سو کے قریب ہیلتھ ورکرز کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں۔اس صورتحال کے خلاف ینگ ڈاکٹرز،نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف ابتداء سے ہی احتجاج کررہے ہیں۔لیکن کوئٹہ میں ینگ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے دھرنے اور احتجاج نے حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا اور وفاقی حکومت اور فوج نے اعلان کیا کہ وہ حفاظتی کٹس بھجوا رہے ہیں یہ ظاہر کرتا ہے کہ کیسے جدوجہد سے ریاست کو جھکنے پر مجبور کیا جاسکتاہے۔لیکن حکومت نے جوحفاظتی کٹس بھیجیں ہیں وہ غیر معیاری ہیں۔اس لیے جہاں ہمارااحتجاج اور جدوجہد حکومت کو پیچھے ہٹنے اور جھکنے پر مجبور کرسکتی وہاں حکومت ان مطالبات کو مان کربھی ان پر عمل درآمد نہیں کرتی اس لیے صرف ایک احتجاج ہی کافی نہیں ہے بلکہ تمام ہسپتالوں میں ہڑتالی کمیٹیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو ملک گیر سطح پر ہیلتھ کے شعبے میں عام ہڑتال کا علان کرئیں تاکہ حکومت کو ہیلتھ ورکرز کو حفاظتی کٹس اور دیگر طبی سامان مہیا کرنے پر مجبور کیا جاسکے، اس کے ساتھ دیگر شعبوں کے محنت کشوں کے پاس پہنچا جائے اور انہیں ورکرز کمیٹیوں کی تشکیل اور اظہار یکجہتی کے لیے کہا جائے،اس کے ساتھ ان محنت کشوں کو منظم کرنے کی ضرورت ہے جن کو نوکریوں سے نکالا جارہا ہے۔
 تمام کاروباروں کے کھاتوں کو کھولنے کی ضرورت ہے تاکہ مالکان کی جیبیں بھرنے کی بجائے جن شعبوں میں سرمایہ کاری ضرورت ہے وہاں سرمایہ فراہم کیا جاسکے۔لیکن یہ تب ہی ممکن ہے اگر بنک،صنعتیں،ٹرانسپوراٹ اور پبلک سروسسزورکرز کمیٹیوں کے جمہوری کنٹرول میں ہوں۔
ہر کام کی جگہ پر محنت کشوں کی کمیٹیاں موجود ہوں جو جمہوری طور پر منظم ہوں اور پیدوار،کام کے حالات اور ملازمت کے حوالے سے کسی بھی فیصلے میں ان کا فیصلہ حتمی ہو۔کام کی جگہ ہیلتھ اینڈ سفٹی کے اصولوں پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔کام کے اوقات کار کو کم کیا جائے اور غیر ضروری کاموں کو فوری طور پر بند کیا جائے اور اس شعبے میں کام کرنے والوں کو مکمل تنخواہ اور نوکری پر واپسی کی ضمانت کے ساتھ چھٹی دی جائے۔
اس طرح یہ ورکرز کمیٹیاں حقیقت میں محنت کش طبقہ کی طاقت کا اظہار بن کرسماج میں دوہر ی طاقت تشکیل دئے سکتی ہیں جو سرمایہ کے نظام کو شکست دئے سکتی ہیں۔
منصوبہ بند معیشت
محنت کش طبقہ کے حالات زندگی نہایت اذیت ناک ہے بھوک کے سائے ان کے گھروں میں منڈلا رہے ہیں اور فاقوں کی نوبت آرہی ہے۔اگر کہیں راشن کا اعلان ہوجائے تو ہزاروں کی تعداد میں محنت کش سڑکوں پر امڈ آتے ہیں اور مختلف شہروں میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے راشن کی عدم دستیابی کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔
 ملک بھر میں صورتحال بہت زیادہ خراب ہے اور کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں جس میں محنت کش خود اور اپنے بچوں کی بھوک کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑتے ہیں۔
بڑے سرمایہ داروں کے لیے تو لاک ڈاؤن کو نرم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے ان حالات میں چھوٹے سرمایہ دار اور تاجر اضطراب میں ہیں اور انہوں نے بھی دکانوں کو کھولنے کا اعلان کردیاہے۔ حکومت نے لاک ڈاؤن  کے ہفتوں بعد جو امداد محنت کشوں کودی ہے یہ تقریباََ100روپے روزانہ بنتی ہے جو محنت کش اور غریب کا مذاق اُڑنے کے مترادف ہے حکومتی امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔یہ بھی آبادی کے انتہائی محدود حصے کو میسر ہو گی جبکہ پاکستان میں 8سے دس کروڑ آبادی غربت کی سطح کے
اردگردرہتی ہے اور اب تو سرمایہ دارانہ پیدوار کافی حد تک رک گئی اس نے صورتحال کو ابدتر کردیا ہے۔
 اس بحران نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ محنت کش ہیں جن کی وجہ سے سماج چلتاہے اور محنت کش طبقہ کی محنت ہی دولت کا منبع ہے۔اگر محنت کش کام کرنے سے انکار کردیں تو سماج رک جاتاہے اس وقت یہی صورتحال ہے جب لاک ڈاؤن کی وجہ پیدوار میں خلل ہے اور سماج میں بہت کم دولت پیدا ہورہی ہے اور اب سوال یہی ہے کہ پہلے سے موجود وسائل اور نئی پیدا ہونے والی دولت کو منصفانہ  بنیادوں پرتقسیم کیا جائے اور اس بنیاد پر اس بحران سے نبٹا جائے لیکن سرمایہ داری نظام میں یہ ممکن نہیں ہے اور حکمران طبقہ کی طبقاتی ترجیحات ہیں اور وہ اس بحران کا ملبہ محنت کشوں پر ڈالنا چاہتے ہیں جیسے ہر بحران اور جنگ میں ہوتاہے۔اس لیے ہی دنیا بھر کی طرح حکومت یہیں بھی سرمایہ داروں کے مفاد میں ہی مداخلت کررہی ہے۔
اس بحران کا مقابلہمنصوبہ بند معیشت کے ذریعے پیداواری تعلقات کو یکسر بدل کرہی کیا جاسکتا ہے اور پیدوار کے عمل کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔ معیشت کی منصوبہ بندی کے لیے ایک جمہوری مرکزی منصوبہ بندی ادارہ تشکیل دیا جائے تاکہ محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں موجود اداروں کو جمہوری طور پر تمام سماج کے مشترکہ مفاد میں جلایا جاسکے۔
تمام کمپنیوں کو جو کم ازکم تنخواہ،سفیٹی کے اقدامات نہ کرئیں یانقصان کی وجہ سے محنت کشوں کو نکالنے کا اعلان کرئیں ایسی کمپنیوں کو فوری طور پر ریاستی ملکیت میں لے کرمحنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔
تمام غیر ملکی اور ملکی قرضے ادا کرنے سے انکار کیا جائے۔
محنت کشوں کی حکومت:
  تحریک انصاف کی حکومت پہلے ہی ایک ناکام حکومت تھی اس وباء نے اس کے اندرونی بحران کو شدید تر کردیا ہے اور ان حالات میں سول وملٹری افسرشاہی بالادست ہورہی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ حکمران طبقہ اپنے اندرونی خلفشار میں اس بحران کو مزید شدید بنارہاہے۔
پاکستان میں منصوبہ بندی کی وزارت کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک کروڑ سے زائد افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے جبکہ دیگر آزاد معیشت دان 50سے ایک کروڑ پچاس لاکھ محنت کشوں کے بے روزگار ہونے کا کہہ رہے ہیں۔عالمی بینک کا کہنا ہے کہ رواں سال پاکستان کی شرح نمومنفی 1.2 فیصدرہنے کاخدشہ ہے اس کا مطلب ہے حکومت کا لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کا فیصلہ بھی بحران حل کرنے کی بجائے اس کی شدت میں مزید اضافہ کرے گا۔
عمران خان کی حکومت قومی معیشت کے نام پر سرمایہ داروں کو 18سوارب کی سبسڈی دئے چکی ہے اس کے باوجود مالکان کسی طور ورکرز کو تنخواہ دینے کے لیے تیار نہیں بلکہ مسلسل ان کو نوکریوں سے نکال جارہا ہے اور اس کے ساتھ یہ حکومت سے مختلف مدوں میں مزید سبسڈیز مانگ رہے ہیں حالانکہ یہ حکومت کے حکم کی خلاف ورزی ہے لیکن ان کو کچھ نہیں کہا جارہا دوسری طرف ان حالات میں محنت کشوں کے حق کا دفاع اور زندگی کے بنیادی لوزمات پورا کرنے میں حکومت کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
اس کامطلب ہے کہ محنت کش طبقہ کو جینے کے لیے لڑنا پڑئے گایعنی اسے اپنی نوکری سے لے خوراک،بنیادی ضروریات،صحت اور کام کے حالات سب کے لیے جدوجہد کرنا ہوگئی کیونکہ یہ محنت کش ہی ہیں جن کی وجہ سے سماج میں پیدوار ہوتی ہے لیکن اس پر قابض ایک اقلیت ہے۔
لیکن اس سب کے راستہ میں بڑی رکاوٹ حکومت اور ریاست ہے جس کا مقصد سرمایہ دار طبقہ کے مفادات کا دفاع ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں جس طرح کا بھی سیاسی نظام ہویہ بنیادی طور پر سرمایہ کی محنت کشوں پر آمریت ہوتی ہے۔سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ معیشت پر جمہوری کنٹرول کے لیے جدوجہد کی جائے تاکہ منصوبہ معیشت کے تحت منافع کی بجائے انسانی ضرورت کے لیے پیدوار کی جائے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے صحت کے مسائل شدت اختیار کرسکتے ہیں اور صحت کا شعبہ جو ہیلتھ ورکرز کی تمام تر کاوشوں اور اپنی زندگیوں کو رسک میں ڈالنے کی وجہ سے کورونا متاثرین کے لیے ایک امید ہے بالکل ہی ناکارہ ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں اموات ممکن ہیں۔
ان حالات میں ایک انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے جوموجودہ بحران کا سیاسی اور حکومتی حل پیش کرئے اور ورکرز حکومت کی جدوجہد کرئے۔محنت کشوں کی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی سرمایہ دار پارٹی سے اتحاد نہ بنائے تمام بنکوں اور کارپوریشنز کو قومی ملکیت میں لے کربیرونی تجارت کو کنٹرول کرئے۔صحت،تعلیم،کمیونیکیشن،صنعتی
اداروں اور سروسز کو کوئی پیسہ دئیے بغیر قومی ملکیت میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے اور زمینداروں سے زمین لے کر بے زمین کسانوں کو دی جائے۔
ورکرز کی حکومت کو محنت کشوں کی کونسلوں کو جواب دہ ہونا چاہیے۔ان کونسلوں کو حکومت سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ ایسے معاشی اقدامات اٹھائے جو سرمایہ داروں کی بالادستی اور سازشوں کا خاتمہ کرے۔صنعتوں اور بنکوں کو قومی ملکیت میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے ایسی محنت کشوں کی حکومت سوشلسٹ انقلاب کا راستہ ہموار کرسکتی ہے۔
تمام بنکوں،مالیاتی اداروں اور انشورنس کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیئے جائیں۔ان تمام بنکوں کا ایک اسٹیٹ بنک میں انضمام کرکے اس بات کافیصلے کیا جائے کہ کن شعبوں میں اس وقت سرمایہ کاری کی ضرورت ہے یہ فیصلہ کروڑوں لوگوں کے مفاد نہ کہ منافع کے لیے کیاجائے تاکہ مرکزی منصوبہ بندی کی طرف بڑھا جاسکے جو محنت کشوں کے کنٹرول اورمعیشت کو سوشلسٹ بنیادوں پر استوار کرے بیرونی تجارت پر ریاستی اجارہ داری قائم کی جائے اورمحنت کشوں کی حکومت کی بنیاد سوویتیں اور محنت کشوں،کسانوں،شہری ودیہی غریبوں پر مشتمل دستے ہوں گے۔اس بحران میں محنت کشوں کی ریاست ہی سماج کو تباہی سے بچاسکتی ہے۔