کورونا وبا سے متاثر مریضوں کی تعداد 10ہزار سے تجاوز کر گئی ہے مگر عمران خان کی حکومت کی نااہلی اپنی جگہ جوں کی توں ہے۔ یہ صرف سرکاری اعداد ہیں جو حقیقت کی عکاسی نہیں کرتے کیونکہ اس سرکار کے پاس ٹیسٹ کرنے کے وسائل موجود نہیں ہیں۔ آئے روز سرمایہ داروں کو نت نئے ناموں کے ریلیف پیکیج دینے کے وسائل ہیں مگر محنت کش عوام کے لئے مزید اسپتال تعمیر کرنے کے وسائل موجود نہیں۔
ریاست نے سرمایہ داروں کو تحفظ فراہم کر کے ایک بار پھر اپنا طبقاتی کردار واضح کر دیا ہے۔ اس لئے اب یہ پہلے سے زیادہ لازم ہے کہ ٹریڈ یونینیں اور بائیں بازو کی تنظیمیں بھی منظم انداز میں اپنے مطالبات اور ان مطالبات کو پورا کرنے کے لائحہ عمل کو بھی واضح کر دیں۔
کیا کورونا وبا کے آنے سے پہلے اس ملک کی معیشت بحران کا شکار نہ تھی؟ یا مزدوروں کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں؟ ہرگز نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ وبا نے بحران کو مزید شدید تر کر دیا ہے اور اس کا بوجھ ڈھیڈھیوں اور زرداریوں سے اتار کر غریب عوام پر لادا جا رہا ہے۔ مزدوروں کو نوکریوں سے فارغ کیا جا رہا ہے یا انہیں بغیر تنخواہ کے چھٹی پر بھیجا جا رہا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں آئی ایم ایف ڈیل کی بدولت جو ہوشربا اضافے ہوئے تھے وہ اب مزید آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ مختصراً یہ کہ اگر وبا سے پہلے مزدور طبقہ کے لئے بربادی و مفلسی تھی تو آج وہ تباہی و موت کی شکل اختیار کر گئی ہے۔
جس قوت کے ساتھ آج مزدور طبقہ پر حملے ہو رہے ہیں، ہمارے لائحہ عمل کو بھی اس سے مناسبت رکھنا ہو گی۔ ریاست و سرکار نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کے پاس مزدوروں اور شہری و دیہی غرباء کے لئے کچھ بھی نہیں۔ بعض محنت کشوں اور ٹریڈ یونینوں میں یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ لاک ڈاؤن کا خاتمہ سرکار کی جانب سے ان کے لئے کوئی بھلا قدم ہے در حقیقت تو لاک ڈاؤن کے خاتمہ کا واویلا بڑے سرمایہ داروں کے لئے منڈی کو دوبارہ کھولنے کے لئے مچایا جا رہا ہے تاکہ ان کے منافعوں کی ریل پیل میں خلل نہ آئے۔ تمام تر ریلیف اور سرکار کی جانب سے سرمایہ داروں کو دئے گئے بیل آوٹ کے باوجود گل احمد جیسی بڑی برانڈ نے پچھلے عرصہ میں 600 مزدوروں کو نوکری سے فارغ کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس عرصہ میں معیشت کو جو نقصان پہنچا ہے وہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کی صورت میں بھی مزدور طبقہ پر ہی ڈالا جائے گا۔
نوکریوں کے خاتمہ نے مزدوروں کو بھوکا مرنے یا بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ لیکن اب مزید نہیں! اگر اس سب میں کہیں امید کی کرن ابھر کر آئی ہے تو وہ خود محنت کشوں کے احتجاجات کی صورت میں ہے۔ کراچی میں رؤوف ٹیکسٹائل ورکرز اور دیگر شہروں میں ہیلتھ ورکروں کی جدوجہد نے ثابت کیا ہے کہ جدوجہد اور احتجاج وہ واحد راستہ ہیں جس کے ذریعہ سرمایہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ہم سب کو مشترکہ طور پر اب یہ راستہ اپنانا ہوگا کیونکہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ وباء میں محنت کش عوام کی اکثریت کی زندگی کا تحفظ اور بنیادی ضروریات کی تکمیل سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے ممکن نہیں۔
دیگر ٹریڈ یونینوں اور لیفٹ کی تنظیموں نے مختلف تجاویز پیش کی ہیں، مثلاً عوامی ورکرز پارٹی لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد مزدور کانفرنس منعقد کرنا چاہتی ہے۔ یہ اہم تجویز ہے اور ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے تمام لیفٹ،ٹریڈ یونینوں اور سماجی تحریکوں کو مشترکہ مطالبات اور ان مطالبات کو یقینی بنانے کے لئے لائحہ عمل یعنی پلان آف ایکشن پر اتفاق کرنا ہوگا تاکہ موجودہ حالات میں حکمران طبقہ کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ان تنظیموں پر مشتمل محنت کشوں کا ایک متحدہ محاذ بنایا جا سکے۔ اس محاذ کو ہیلتھ ورکرز اور دیگر محنت کش جو جدوجہد میں آرہے ہیں ان سے رابطہ بنانا چاہئے اور ان کو متحدہ محاذ میں شامل کرنا چاہئے۔
ریاست سے ہمارے مطالبات:
!۔ فوری طور پر تمام مزدوروں کو تیس ہزار روپے ماہانہ اجرت کے ساتھ چھٹی پر بھیجا جائے!
2۔ جن مزدوروں کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے ان کو سرکار ماہانہ تیس ہزار روپے بے روزگاری معاوضہ کے طور پر دے!
3۔ جن گھروں کا کرایہ بیس ہزارروپے یا اس سے کم ہو، ان سب کے کرایہ حکومت ادا کرے! تمام مزدوروں، کسانوں اور چھوٹے درمیانے طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کا کرایہ حکومت ادا کرے!
4۔ تمام ہیلتھ ورکروں بشمول ڈاکٹر، نرس، پیرامیڈیکل اسٹاف اور جینیٹر کو فوری طور پر حفاظتی کٹ اور آلات فراہم کئے جائیں!
5۔ آئی ایم ایف و دیگر اداروں اور سامراجوں سے قرض لینا بند کئے جائیں اور اب تک لئے گئے قرضوں کی ادائیگی سے انکار کیا جائے۔
ہمارا لائحہ عمل:
مندرجہ بالا مطالبات کو پورا کرنے کے لئے ہمیں ایک لائحہ عمل یعنی پلان آف ایکشن بنانا ہوگا۔ اس لائحہ عمل کے لئے ہماری تجاویز یہ ہیں:
تمام ٹریڈ یونینیں، بائیں بازو کی تنظیمیں اور سماجی تحریکیں ان محنت کشوں کی فہرست تیار کریں جن کو نوکریوں سے نکالا گیا ہے۔ جن علاقوں میں ممکن ہو ان نکالے گئے مزدوروں کی میٹنگیں کی جائیں۔
کام کی جگہ اور مزدور بستیوں میں ورکرز کمیٹیاں قائم کی جائیں۔
۔5 مئی کو ویڈیو کال کے ذریعے ایک مزدور کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ موجود صورتحال کا جائزہ لیا جائے اور مزدور تحریک مل کر حکمران طبقہ کے حملوں خلاف لائحہ عمل تریب دے سکے۔اسی میٹنگ میں محنت کشوں کو نوکریوں سے نکالنے اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کی کال دی جائے۔
لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد تمام اضلاع میں مزدور کانفرنسیں کی جائیں جس کے بعد مرکزی مزدور کانفرنس منعقد کی جائے۔