تحریر۔منرویٰ طاہر

بلوچ اسٹوڈنٹس الائنس کے تحت آن لائن کلاسز کے خلاف تین روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ آج اختتام پزیر ہوا۔ کیمپ کے شرکاء نے آخر میں کراچی پریس کلب کے اطراف میں علامتی ریلی نکالی اور پھر پریس کلب کے باہر کھڑے ہو کر مظاہرہ کیا۔

طلباء کا کہنا تھا کہ جب ان کے گھروں پر بالخصوص پسماندہ علاقوں میں نہ انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے نہ بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے تو کیسے آن لائن کلاسز کو شروع کیا جا سکتا ہے۔

کامریڈ وجاہت کا کہنا تھا کہ ایچ ای سی نے آن لائن کلاسز کا کھیل تماشا اس لئے شروع کیا ہے تاکہ پہلے سے وصول کی ہوئی فیسوں کو محفوظ رکھ سکے اور آئندہ سیمسٹر کے لیے نئے داخلے انہی آن لائن کلاسز کو بنا کر کھولے اور مزید پیسہ کمائے۔

کامریڈ ہانی بلوچ کا کہنا تھا کہ اس کیمپ کا بنیادی مقصد آنلائن کلاسز کے خلاف آواز اٹھانا اور ان کا بائکاٹ کرنا تھا۔ کامریڈ ہانی نے سوال اٹھایا کہ کیسے کسی ایک طبقہ یا کسی ایک شہر کو بنیاد بنا کر پورے ملک کے رہنے والوں کے لیے آن لائن کلاسز شروع کرنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لاہور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں بھی ایسے طبقات و علاقے موجود ہیں جہاں نہ بجلی ہے نہ انٹرنیٹ۔

کامریڈ وقاص نے کہا کہ آن لائن کلاسز ایک فراڈ ہیں بالخصوص ایسے معاشرہ میں کہ جہاں لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں جامعہ کراچی کا طالب علم رہا ہوں اور اتنی بڑی جامعہ میں ہمارے بہت سے ساتھی ایسے تھے جو انٹرنیٹ کی سہولت لگانے کے وسائل نہیں رکھتے تھے۔ ایسے میں بلوچستان، خیبر پختونخوا وغیرہ جیسے علاقوں میں کیا طلباء از خود اپنے لئے انٹرنیٹ جینیریٹ کر لیں؟ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ سہولیات کی عدم موجودگی میں آن لائن کلاسز کی پالیسیاں بنانا ریاستی جبر ہے۔ انہوں نے طلباء سے اپیل کی کہ اس جبر کے خلاف یکجان ہو کر آواز اٹھائیں۔

آن لائن کلاسز کا مسئلہ صرف انٹرنیٹ یا بجلی کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ دراصل طبقاتی جبر کی ایک شاندار مثال ہے۔ اگر یہ ریاست تمام علاقوں میں یکساں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کر بھی دے، تب بھی طبقاتی تفریق کے سبب بیشتر طلباء آن لائن کلاسز میں شرکت نہیں کر پائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی اکثریت ایسے گھروں میں رہتی ہے جو ایک یا دو کمروں پر مشتمل ہوتے ہیں اور باقاعدہ توجہ کے ساتھ گھر کے تمام افراد کی موجودگی اور شور میں ایک طالب علم کس طرح آن لائن کلاسز لے سکتا ہے؟ یقیناً اس سوال سے اس ریاست کو کوئی سروکار نہیں اور اس بے نیازی کی وجہ خود ریاست کا اپنا طبقاتی کردار ہے۔ یہ ریاست تو چند ایک خاندانوں کی ریاست ہے جو ان کے سرمایہ دارانہ مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے وجود رکھتی ہے۔ تمام پسے ہوئے طبقات اس نظام کے جبر کے خلاف حرکت میں آتے رہیں گے بالخصوص ایسے وقت میں کہ جب معیشت کا بحران شدت اختیار کر رہا ہو اور سرمایہ داروں کی ریاستیں اپنی ناکامیوں سے نہ نمٹنے کی صورت میں محنت کش عوام پر بڑے حملے کر رہی ہو۔ محنت کش طلباء کے حقوق پر بڑے حملے کئے جا رہے ہیں اور یہ دنیا کی ایک سے ایک ریاستیں بھی کر رہی ہیں، بس اپنے اپنے حالات کے مطابق ان حملوں کی نوعیت تھوڑی مختلف ہے۔ جہاں پاکستان میں محنت کش و غریب طلباء پر آن لائن کلاسز کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے، وہیں برطانیہ میں محنت کشوں کے بچوں کے لئے پبلک اسکول کھولنے کا کھیل تماشا لگا ہوا ہے۔ یہ سب واضح کرتا ہے کہ کس طرح یہ مسائل اور بنیادی حقوق پر ریاستی حملے نیولبرل سرمایہ دارانہ نظام کی منطق سے جڑے ہیں اور اس کے خلاف لڑائی میں فتح کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں اس لڑائی کو انٹرنیشنل سطح پر لڑنا ہوگا اور انٹرنیشنلسٹ یکجہتی کا راستہ اپنانا ہوگا۔ ہمارے مطالبات:

-آنلائن کلاسز کا ڈھونگ فوری طور پر معطل کیا جائے اور پچھلے سیمسٹر کی کارکردگی کی بنیاد پر اس سیمسٹر سے طلباء کو پروموٹ کر دیا جائے۔
-طلباء کی پچھلے سیمسٹر کی وصول کر لی گئی فیسوں کا 60 فیصد حصہ طلباء کو لوٹایا جائے اور اسکولوں کالجوں کے کھلنے تک مزید کوئی فیسیں نہ طلب کی جائیں۔
-کم تعداد میں طلباء کو روٹیشنل نظام پر اسکول کالج جامعہ بلایا جائے یعنی اگر کلاس میں 30 طلب علم ہیں تو ہفتہ میں دو دو دن 10 طلباء پر مشتمل بیچ کو کلاسز دی جائیں۔ اس دوران وبا کے متعلق ایس او پیز کا انتظام انتظامیہ کرے۔ اس طرح اساتذہ کے روزگار بھی محفوظ رہیں گے۔
-جو اسکول، کالج اور جامعات ایسا کرنے پر محدود وسائل کا رونا روئیں انہیں قومی تحویل میں لے کر ادارے کے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے کہ یہ محنت کش پھر خود اپنے اداروں کو چلائیں گے۔
-تعلیمی اداروں میں طلباء و اساتذہ و دیگر محنت کش مل کر اپنے حقوق کے لئے تحریک چلائیں جس کے لئے دیگر ممالک کے محنت کشوں سے یکجہتی کی اپیل کریں اور دیگر ممالک کے محنت کشوں سے اظہارِ یکجہتی کے لئے خود بھی ایکشن منظم کریں۔
طلباء مزدور اتحاد، زندہ باد!