سوشلسٹ ریزسٹنس رپورٹ
کراچی: پاکستان کے دیگر ادارے اس وقت تباہی کی اس نہج پر کھڑے ہیں کہ ہر ادارے سے محنت کشوں کو نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے اور اداروں کی نجکاری کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
آج کراچی میں پانچ سو افراد نے پاکستان اسٹیل کے برطرف محنت کشوں کے احتجاج میں حصہ لیا۔ عوامی ورکرز پارٹی، ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ اور سوئی گیس کی انصاف جفاکش یونین نے بھی شرکت کر کے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔
عوامی ورکرز پارٹی کے جنرل سیکرٹری کامریڈ خرم علی نے پاکستان اسٹیل اور دیگر اداروں کے ملازمین سے اپیل کی کہ ان حالات میں گھروں سے باہر نکلیں اور اپنے حق کے لئے آواز اٹھائیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ عوامی ورکرز پارٹی اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن اب نجکاری کے خلاف ملک گیر احتجاجات منعقد کرنے جا رہی ہے۔ کراچی میں نیشنل ہائی وے، سپر ہائی وے اور حسن اسکوائر بلاک کیا جائے گا اور دیگر اداروں کے برطرف اور استحصال زدہ ملازمین کے حق کی آواز اٹھائی جائے گی۔عوامی ورکرز پارٹی کی کامریڈ لیلا رضا اور کامریڈ منروا طاہر نے زبردست نعرے لگائے جنہوں نے مظاہرہ کو تقویت بخشی۔
کامریڈ لیلا نے میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف پاکستان اسٹیل کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہر ادارے کو اسی طرز پر تباہ کیا جا رہا ہے اور اب وقت ہے مزدور یکجہتی کا۔
کامریڈ منروا نے کہا کہ یہ ریاست اپنی نااہلی و ناکامی کا معاشی بوجھ محنت کشوں پر لاد رہی اور یہ تمام تر برطرفیاں و نجکاری آئی ایم ایف و ورلڈ بینک جیسے سامراجی اداروں کی ایما پر ہو رہی ہیں۔ انہوں نے میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہی محنت کش ہیں جو آج سے پہلے بھی پاکستان اسٹیل کو چلا رہے تھے اور اگر یہ نااہل ریاست ادارے کو چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو نجکاری کر کے کوڑیوں کے مول بیچنے کے بجائے ادارے کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دے۔ وہ پہلے بھی اپنا ادارہ خود چلاتے تھے اور آگے بھی چلا لیں گے۔
ٹریڈ یونین رہنما نوید آفتاب نے کہا کہ اگر اسٹیل ملز کا مقدمہ کوئی لڑ سکتا ہے تو وہ محنت کش خود ہیں لہٰذا جدوجہد کے لئے سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔
ہر اہم مظاہرہ کی طرح آج کے مظاہرہ میں بھی ایک مذہبی جماعت کا وفد تصویریں بنوانے آگیا تھا اورانہوں نے نفرت انگیز تقاریر بھی کیں۔ مگر اسٹیج پر اپنی شو شا کے بعد یہ وفد خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔
اسی طرح گیارہ ہزار سے زائد پولیو ہیلتھ ورکرز کو برطرف کر دیا گیا ہے تو دوسری جانب پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کی نجکاری کا راستہ پکا کیا جا رہا ہے جبکہ پچھلے ایک سال میں ایک ہزار سے زائد ملازمین کو ائیر لائن نے نکال دیا اور مزید برطرفیاں ابھی متوقع ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز کے نو ہزار سے زائد ملازمین کو نکال دیا گیا ہے اور محنت کشوں کے مطابق پراویڈنٹ فنڈ و گریچوٹی وغیرہ میں بھی بڑے گھپلے کئے جا رہے ہیں کیونکہ انتظامیہ کسی کو جوابدہ نہیں۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ پاکستان ریلویز میں بھی چھانٹی کی منظورہ دے دی گئی ہے۔ ان سب حالات و واقعات نے واضح کر دیا ہے کہ محنت کشوں کی ملک گیر تحریک ہی اب حکومت کے اس حملے کا مقابلہ کرسکتی ہے۔اس لیے سرکاری اور نجی اداروں جہاں سے محنت کشوں کی نوکریوں کو ختم کیا جارہا ہے اور اس بجٹ میں محنت کشوں کی تنخواہوں میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیاان کو آپس میں جڑنے کی ضرورت ہے اور اکھٹے ہوکر ہی یہ حکومت کے حملوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور ٹریڈ یونین کی قیادت کے ساتھ یہ سوشلسٹوں کا اہم فریضہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں کردار ادا کرئیں اور محنت کشو ں کی مختلف پرتوں کو آپس میں جوڑتے ہوئے ان کی تحریک میں عام ہڑتال کے مطالبہ کو لے کر جانا چاہیے یہی ایک واحد طریقہ ہے جس سے ہم حکمران طبقہ کے حملے کو روک سکتے ہیں اور انہیں شکست دئے سکتے ہیں۔