تحریرپیٹرمین۔ترجمہ عرفان خان
آئینی طور پرعوامی نیشنل کانگریس چین میں ریاستی طاقت کا ایک اعلی ادارہ ہے اگرچہ سال میں اس کی صرف ایک ہی میٹنگ ہوتی ہے لیکن دو ہفتوں تک اس کی کارروائی حکومت کی ترجیحات اور اس سمت کی وضاحت کرتی ہے کہ پالیسی کس طرح آگے بڑھ رہی ہے۔ اس سال کی میٹنگ جو مئی کے آخری دو ہفتوں میں ہونی تھی اسے کوویڈ 19 وبا کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہونا پڑا جس کے نتیجے میں ظاہر ہے کہ حکومتی منصوبوں کے لئے بالکل غیر متوقع تناظر پیدا ہوا ہے۔
صوبہ ہوبی میں لاک ڈاؤن اور قمری سال کی توسیع شدہ قومی تعطیلات کی وجہ سے جی ڈی پی 2019کی آخری سہ ماہی کے مقابلے میں پہلی سہ ماہی میں 9.8 فیصد کم ہوا۔ اب یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ معیشت پچھلی صلاحیت کے تقریبا 80 فیصد پر کام کررہی ہے بہر حال جیسا کہ سب بحرانوں کے معاملہ میں زیادہ تر ہوتا ہے امکان ہے کہ کوویڈ 19 ان رجحانات کو تیز کرے گا جو پہلے ہی تیار ہورہے تھے اور ایسی پالیسیاں جن پر پہلے ہی منصوبہ بن چکا تھا۔ وہان کے بدقسمت شہری کے نئے وائرس کا شکار بننے سے پہلے ہی معیشت تشویش کا باعث بنی ہوئی تھی۔ برآمدات جنہوں نے 30 سالوں سے چین کی تیز رفتار نمو میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے اس میں 2019 میں ہی 0.5 فیصد کی کمی واقع ہوئی تھی جو اس سے پہلے سال میں 10 فیصد بڑھ رہی تھیں۔ جی ڈی پی کے سرکاری تخمینے 6.5 فیصد کے مقابلے میں مجموعی طور پر جی ڈی پی میں صرف 6.1 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
عدم مساوات
امریکی صدر ٹرمپ کے تجارتی جنگ کے خطرات کے پیش نظر، وبائی مرض سے پہلے ہی برآمدات میں اضافہ کے ذریعے مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کے امکانات محدود ہورہے تھے۔ لہذا گھریلو کھپت میں اضافہ ایک اہم مقصد بن گیا ہے لیکن یہ وہ چیز ہے جس نے چینی سماج کی ایک خصوصیت کا انکشاف کیا یعنی بہت بڑی سماجی عدم مساوات جسے اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ چینی سماج میں اوسطََ فی کس آمدنی سالانہ تیس ہزار آریم بی ہے جو تقریباََ سال میں چار ہزار ڈالر بنتی ہے لیکن اس بات کو چھپایا جاتاہے کہ چالیس فیصد آبادی یعنی چھ سو ملین افرادایک ہزار آر ایم بی سے کم یعنی تقریباََایک سو تیس ڈالرپر ہیں۔
یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ 40 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ ایک طرف اس کا مطلب یہ ہے کہ نقد آمدنی ان کے گزار اوقات کا واحد ذریعہ نہیں ہے دوسری طرف واضح طور پر یہ اعلی قدر کے صنعتی سامان کے لیے ایک موثر منڈی نہیں ہیں، سال میں $ 130 کمانے والاکوئی نئی کار نہیں خریدسکتا۔ یہ اس بات پر بھی وضاحت کرتاہے کہ دیہی آبادی چین کی منڈی کی معیشت میں ضم ہونے سے کتنی دور ہے۔
این پی سی کے اختتامی اجلاس سے خطاب کے دوران وزیر اعظم لی چیانگ نے اس ممکنہ طور پر بہت بڑی مارکیٹ کی ڈسپوزایبل آمدنی میں اضافے کی ضرورت کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے لیکن انہیں یہ بھی وضاحت کرنا پڑی کہ یہ مائکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار تھے جو شاید اس کی تکمیل کرسکتے تھے جن کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ لی کی تقریر کے ایک اور مرکزی موضوع سے متعلق ہے یعنی بڑھتے ہوئے قرضوں اور ”غیر ادائیگی والے قرضوں ” سے نمٹنے کی ضرورت ہے ایسے قرضے جن پر قرض لینے والا سود ادا کرنے کا متحمل بھی نہیں ہوسکتا ہے۔
اس کے لئے حکومت کا مجوزہ حل جو بہت سالوں سے ہے یعنی ”مالیاتی شعبے کو کھولنا“ ہے۔ اس فارمولے کے زریعے ریاستی ملکیت میں موجود بنکوں میں مارکیٹ اصلاحات کی حمایت کی جاتی ہے جو ریاستی ملکیت والے اداروں کے ساتھ ترجیحی سلوک کرتے ہیں اورچھوٹے نجی ملکیت والے کاروباروں کے بجائے بہت بڑے ریاستی اداروں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ یہ حقیقت کہ ایک دہائی کے بڑے حصے میں یہ صدر شی جن پنگ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک رہا ہے یہ اس مسئلے کے بے قابو ہونے کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
ہدف
معیشت پر وبا کے اثرات کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ چالیس سے زیادہ سالوں میں پہلی بارچین کے پاس نمو کا سرکاری ہدف نہیں ہے۔ اس بارے میں لی کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے بیجنگ کے سرکاری ترجمان گلوبل ٹائمز نے کہا کہ پہلے سے متوقع 6 فیصد سے زیادہ کے اہداف کی امید واضح طور پر ناممکن ہے اور”کوئی بھی کم ہدف مفید نہیں ہوتا“دوسرے لفظوں میں ایسے اعدادوشمار جو پہلے سے طے کردہ سے کم ہوں تو یہ ملک بھر میں صنعت اور صوبائی حکومتوں کے لئے پیدوارمیں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
مارچ میں لاک ڈاؤن کے خاتمے کے فورا بعد ”معیشت کو ایک بار پھر تحرک دینے ”پر زوردیا گیا اور صرف چھ ہفتوں میں 80 فیصد کے اعداد و شمار کافی متاثر کن نظر آتے ہیں تاہم یہ سوال جنم لیتا ہے کہ بقیہ 20 فیصد کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟۔
چین میں 174 ملین مہاجر مزدور ں کا تخمینہ ہے جوشہری باشندوں کی حیثیت سے رجسٹرڈ نہیں ہیں، اگر ان کے پاس ملازمت نہیں ہے تو وہ بے روزگاری کے اعدادوشمار میں ظاہر نہیں ہوتے ہیں۔ اس بات کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ نئے قمری سال کے لئے عملی طور پر سب اپنے آبائی گاؤں لوٹ گے لیکن سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سالانہ تعطیل کے بعد صرف 123 ملین ہی شہروں میں لوٹ کر واپس آئے ہیں اور تقریبا 50 ملین دیہاتوں میں رہ گئے ہیں۔
اس کے علاوہ149 ملین سیلف ایمپلائیڈ ہیں،جو خدمت کے شعبے میں اور چھوٹے پیمانے پر پرچون کا کام کرتے ہیں دونوں ہی وبااور پہلے سے جاری معاشی سست روی سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ سال کے دوران قریب 8 ملین اسکول اور کالج چھوڑنے والے افراد افرادی قوت میں شامل ہوں گے۔ ان اعدادوشمار سے جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ چین کو بے روزگاری میں شدید اضافے کا سامنا ہے اور متاثرہ افراد کی اکثریت کو بے روزگاری الاونس بھی نہیں مل گا یہ ایک ممکنہ طور پر خطرناک صورتحال کو جنم دئے سکتا ہے۔
شی جن پنگ کی مقامی طور پرتیزی سے بڑھتی ہوئی جابرانہ پالیسیاں اور جارحانہ خارجہ پالیسی کی وجہ یہ خوف ہے کہ ان حالات میں سماجی بدامنی میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ بہت سے دوسرے ”طاقتور“ قومی رہنما ؤں“کی طرح وہ حبالوطنی کو ایسے اقدامات کو جائز قرار دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں جن کا مقصد حقیقت میں ”اپنے” لوگوں کو کنٹرول اور خاموش کرنا ہے۔
وبا پر قابو پانے کے لیے ایمرجنسی اقدامات،سنکیانگ کے ایغوروں پر وسیع پیمانے پر جبر، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر سخت کنٹرول اور گلیوں میں ہجوم کی نگرانی کے لئے چہرے کی شناخت والی ٹیکنالوجی کا وسیع استعمال ہنگامی اقدامات کی ایک منظم حکمت عملی کا حصہ ہیں تاکہ ممکنہ بدامنی کو کنٹرول کیا جاسکے۔
فطری طور پرحب الوطنی کے جذبات میں اضافہ غیر ملکی خطرات کی طرف اشارہ کرکے کیا جاتا ہے اور یہاں ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ موقع فراہم کیاہے یعنی اس کی بیان بازی اور تجارت سے متعلق پالیسیوں نے دونوں کوہی آسان ہدف فراہم کیا ہے۔ اس سال کیNPC کے بعد ہانگ کانگ کوزیادہ کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کومیڈیا نے نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔ ہانگ کانگ کی قومی سلامتی سے متعلق قانون سازی میں توسیع کا واضح طور پر یہ مقصد ہے کہ سابق برطانوی کالونی میں حزب اختلاف کی تحریک کو جرم قراردیا جائے۔ آزادی کا مطالبہ تو ایک طرف صرف وسیع تر جمہوریت کے مطالبات کو ہی”ریاستی طاقت سے بغاوت” سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور مظاہرے یا ہڑتال کو منظم کرنا”دہشت گردی“یا ”غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت“کا ثبوت سمجھا جاسکتا ہے۔
بیجنگ نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر ہانگ کانگ کی مقامی انتظامیہ اس علاقے کو متزلزل کرنے والے سالوں سے جاری سیاسی مظاہروں اور تحریک کو روکنے میں ناکام رہی ہے تو وہ وہاں اپنی سیکیورٹی سروسز متعین کرے گا۔ یہ چیف ایگزیکٹوکیری لام کے متعلق مایوسی کا اظہار ہے لیکن یہ طویل مدتی مقصد کی سمت ایک قدم بھی ہے۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کے لئے”ایک ملک دو نظام“فارمولے کی منظوری جو ہانگ کانگ کے ”سپیشل ایڈمنسٹریشن ریجن“کے طور پر حیثیت کی تائید کرتی ہے، چینی علاقے کی چینی سرزمین کی واپسی کو ہموار کرنے کے لئے مکمل طور پر عملی طریقہ کار ہے۔یہ غیر مساعی معاہدوں کی آخری بازگشت تھی جسے 19 ویں صدی میں چین قبول کرنے پر مجبور ہوا تھا۔اب ارادہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ہانگ کانگ کو گوانگ ڈونگ صوبے کا گریٹر بے ایریا کہلانے والے علاقے میں مکمل طور پر ضم کرلیاجائے۔
اس منظر نامے میں کسی بھی ریاست کا مشورہ جیسے برطانیہ یا امریکہ اور ان کو یہ حق کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ اس علاقے پر کس طرح حکومت ہو، ایک بار پھر چین کی خودمختاری کو محدود کرنے کی کوشش ہوگئی۔ انٹرنیشنلسٹ انقلابیوں کے پاس سامراجی حکومتوں کے مابین تنازعات میں کس کا ساتھ دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے لیکن اگر کسی آبادی کے جمہوری حقوق کو خطرہ ہو تو آبادی کا ساتھ دینا ضروری ہے۔
موجودہ صورتحال میں ممکنہ المیہ یہ ہے کہ ہانگ کانگ میں زیادہ ریڈیکل حزب اختلاف دیگر سامراجی طاقتوں سے حمایت کی اپیل کرتے ہوئے بیجنگ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں یا بدتر آزادی کے مطالبے کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ نہ صرف ناقابل قبول مطالبہ ہے بلکہ پوری طرح گمراہ کن حکمت عملی ہے۔ ”سرزمین” کی طرف پیٹھ پھیرنے کے بجائے ان جمہوری حقوق کو استعمال کرنا کہیں بہتر ہے جو ان حقوق کے لئے ابھی بھی مہم چلارہے ہیں، اور اسے زیادہ سے زیادہ چین میں اپنے ہم وطنوں تک بڑھایا جاے۔
دنیا اس بحران کے دہانے پر ہے جو وبائی بیماری سے پہلے ہی پروان چڑھ رہا تھا، لیکن وبا سے یقینا اس کی شدت بڑھی ہے، یہ بات لازمی ہے کہ عظیم طاقتوں کے مابین دشمنی بیان بازی سے تجارتی جنگ اور ممکنہ طور پر حقیقی فوجی محاذ آرائی کی طرف بڑھ سکتی ہے جیسا کہ ہم پہلے ہی دیکھ سکتے ہیں ان حالات میں ان ریاستوں کی حکومتیں تیزی کے ساتھ آمرانہ ہوتی جارہی ہیں جس کا جواز غیر ملکی خطرہ اور اس مقابلہ کرنے کی ضرورت کے طور پر پیش کیا گیاہے۔یہ پہلے سے زیادہ اہم ہے کہ سامراجی ممالک کے سوشلسٹ اس بات کو تسلیم کریں کہ مزدور طبقہ کا اصل دشمن گھر میں ہے یعنی ان کا پنا حکمران طبقہ اور ان کو خود عالمی سطح پرتمام سامراجوں کے خلاف منظم ہونا ہوگا۔