(اداریہ)

عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو ایک اور شدید بحران کا سامنا ہے کورونا وباء نے اس صورتحال کو مزید ابدتر کردیا ہے جبکہ پاکستان جس کی معیشت پہلے ہی شدید بحران کا شکار ہے اورحکمران طبقہ کو اس وجہ سے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننا پڑیں تاکہ بڑے سرمایہ کا منافع برقرار رہے لیکن اس کے لیے جن شرائط کو تسلیم کیا گیا اس کا مطلب محنت کش طبقہ اور شہری و دیہی غریب کے لیے بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
لیکن حکمران طبقہ ان بربادی اور تباہی کی پالیسیوں کو بھی اپنی کامیابی بنا کرپیش کررہا ہے۔یہ درست ہے کہ اس سے نظام کا انہدام تو فوری طور پر روک گیا ہے اور بڑے سرمایہ کا منافع بھی برقرار ہے لیکن اس سب کے لیے حکمران طبقہ نے بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقہ پر ڈال دیا ہے۔
اس سب کے لیے بالواسطہ ٹیکسوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اس کے ساتھ ترقیاتی بجٹ،عوامی سبسڈیز اور سہولیات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کی گئی ہیں لیکن یہ سب یہاں ہی ختم نہیں ہوجاتا بلکہ بڑے پیمانے پرمحنت کشوں پر حملے کیئے جارہے ہیں اور نجکاری اور ڈاؤن سازی کے نئے منصوبے قومی معیشت کی بحالی کے نام پر سامنے آرہے ہیں جن میں اسٹیل مل،ریلوے،یوٹیلیٹی سٹور،پی آئی اے،واپڈااور ہسپتال اور تعلیمی ادارے شامل ہیں اس کے علاوہ کورونا وباء کا بہانہ بنا کر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپنشنوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ قومی معیشت کے نام پر جبری رٹیائرمنٹ کے احکامات اور پنشنوں کو بوجھ قرار دے کرختم کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں جبکہ بیروزگاری میں اضافہ کے باوجود سرکاری محکموں میں موجود لاکھوں کو ختم کردیا گیا ہے یعنی ریاست یہ واضح کررہی ہے کہ وہ کسی طورپر عوامی بہبود کے کسی منصوبہ پر خرچ نہیں کرئے گی اور محنت کشوں کی نوکریوں اور ان کی مراعات کو ختم کرئے گئی کیونکہ یہ بڑے سرمایہ کے منافع پر بوجھ ہیں۔
اسی طرح بجٹ میں بھی اور وباء میں بھی بڑے سرمایہ داروں کو ہزاروں ارب روپے کے پیکچ دیئے گے تاکہ ان کے منافعے برقرار رہیں لیکن اس کے باوجود جن سرمایہ داروں کو یہ تمام تر پیکچ ملے انہوں نے نہ صرف محنت کشوں کو نوکریوں سے نکالا بلکہ ان کی تنخواہوں میں کٹوتیاں کیں یا ان کی ادائیگی سے ہی انکار کیا۔جبکہ محنت کشوں اور شہری و دیہی غریبوں کو پیکچ کے نام پر لالی پوپ دیا گیا۔جس کی وجہ سے مارچ کے آخر سے ہی ہم صنعتی علاقوں میں مزدور جدوجہد میں ایک ابھار دیکھ رہے ہیں پھر چاہے یہ کراچی،لاہور،فصل آباد یا دیگر شہر ہوں۔جب بھی محنت کش اکھٹے ہوئے اور انہوں نے جدوجہد کی وہ انتظامیہ کے تمام تر دباؤ کے باوجود مالکان کو جھکنے یا پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہوئے اور اسی دوران ورکرز سالیڈیرٹی کا قیام اور اس کی کال پر 29سے زائد شہروں میں احتجاجات نے مزدور طبقہ کی لڑنے کی خواہش کو ظاہر کیا۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سرکاری اداروں کے محنت کش بھی پہلے بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ کے لیے متحرک ہوئے اور ان کا یہ تحریک ڈاؤن سائزنگ اور نجکاری اور حکومت کی مختلف پالیسیوں کے خلاف بدل گیاہے۔ پچھلے عرصہ میں مزدور تحریک میں ایک تحرک سامنے آیا اور اس سے ٹریڈ یونین کی قیادت پر نیچے سے بڑا دباؤ سامنے آیا بلکہ اگر ان پالیسیوں پر عمل ہوجاتا ہے تو ان کی قیادت کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ اس صورتحال میں محکموں کی سطح پر اور مختلف محکموں کے محنت کشوں کے درمیان اتحادات تشکیل پائے یقینی طور پر یہ ایک اہم پیش رفت ہے جو مزدور تحریک کو موجود توڑ پھوڑ سے باہر نکال سکتی ہے۔اس لیے5اگست کی پہیہ جام ہڑتال بہت اہم تھی لیکن ہڑتال سے پہلے ہی حکومت سے مذاکرات کے بعد اس ہڑتال کو جس طرح ختم کردیا گیا۔یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے لیکن اس کی بنیادیں موجود ہ مزدور تحریک کے اندر موجود ہیں جس میں محنت کش طبقہ کا ایک بہت چھوٹا حصہ یونین میں موجود ہے اور زیادہ تر صرف قیادت کے ساتھ شخصی تعلقات کی وجہ سے کھڑے ہیں اور ان کی نظریاتی اور تنظیمی بنیادیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ان حالات میں انقلابی سوشلسٹوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تحریکوں کا حصہ بنتے ہوئے ایسے مطالبات سامنے لائیں جومزدور جدوجہد کا واضح پروگرام دئے کہ کیسے موجود صورتحال میں نیولبرل حکومت کے معاشی حملوں کامقابلہ کیا جاسکتا ہے تاکہ ٹریڈ یونین تحریک کی تاریخی کمزوری کوختم کرئے۔
جس میں سب سے اہم نجی صنعتوں کے محنت کش اور سرکاری محنت کش اپنا ایک مشترکہ محاذ بنائیں اور مختلف اداروں اور دیگر اتحادات ایک مزدور اتحاد میں اکھٹے ہوں۔
ٹریڈ یونینز کی ممبر شپ کو بڑھایا جائے اور یونینوں اور اداروں میں انتخابات کروایں جائیں تاکہ منتخب قیادت سامنے آسکے جو اپنی ممبر شپ کو جواب دہ ہو اس کے علاوہ اداروں میں مزدور کمیٹیوں کو قائم کیا جائے جو ادارے میں مزدوروں کو درپیش مسائل اور ان کے حل پر سنجیدہ مباحثہ کرکے کسی نتیجے پر پہنچے۔اس کے علاوہ ایسی کونسلز بھی تشکیل دی جائیں جہاں مختلف اداروں کے محنت کش موجود ہوں جو مل کر مشترکہ جدوجہد کرئیں۔
انقلابی سوشلسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ حکمران طبقہ کے حملوں کا سامنا ایک بڑی جدوجہد اور عام ہڑتال کے بغیر نہیں کیا جاسکتاایک بڑی جدوجہد کے لیے ضروری ہے کہ تحریک قیادت کے فیصلوں کے تحت چلنے کی بجائے محنت کشوں اور ان کی جمہوری کمیٹیوں کے فیصلوں کے تحت چلے اور طبقہ خود تحریک کا پروگرام اور حکمت عملی طے کرئے۔