تحریر:شہزاد ارشد

کل جماعتی کانفرنس کا اعلامیہ حکمران طبقہ کے بڑھتے ہوئے اندرونی تضادات کو ظاہر کررہا ہے۔ یہ درست ہے کہ عمران حکومت کی عوام دشمن پالیسیاں آبادی کی وسیع ترین اکثریت پر ایک عذاب بن کر نازل ہوئیں ہیں اور اس حکومت کیخلاف سماج کے تمام حصوں میں شدید ترین غم و غصہ اور نفرت پائی جاتی ہے۔
نظام کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے اور محنت کش طبقہ اور طلباء پر حملوں میں اضافہ ہورہا ہے خاص کر مظلوم اقوام کے طلباء زد میں ہیں۔حکمران طبقہ میں اس کے حل پر شدید تضاد ات ہیں ایک مزید جبر کو حل سمجھتا ہے جب کہ دوسرا قانون کی حکمرانی کے زریعے حل چاہتا ہے لیکن دونوں اسی نظام کا حصہ ہیں اور اصلاح پسندی بھی اسی نظام میں حل دیکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کرقانون کی حکمرانی قائم ہوجائے گئی تو جمہوریت قائم ہوجائے گی لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان کی عالمی نظام میں نیم نوآبادیاتی پوزیشن کی وجہ سے یہ سرمایہ دار طبقہ کے مفاد میں نہیں ہے کہ وہ وسیع تر جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کرئے۔ان حالات میں بورژوا اپوزیشن سے جمہوریت کی جدوجہد کی امید اور اسے مثبت پیش رفت قرار دینا کا مطلب ہے مزدور جدوجہد،طلباء کے احتجاج، مظلوم اقوام کی جدوجہدکوحکمران طبقہ کے تابع کرنا ہے کیونکہ لیفٹ میں اکثریت پارلیمنٹ کی بالادستی اور اداروں کے اپنی حدود میں رہنے کو فوری حل کے طور پر پیش کررہی ہے اور ان کے لیے محنت کشوں اور طلباء کی جدوجہد یک نقاطی تحریکیں بن جاتیں اور معاشی مسئلے تک محدود ہوتی ہیں اور سرمایہ داری کا خاتمہ اور سوشلزم تمام تر نعرے بازی کے باوجود آج کا سوال نہیں رہ جاتاہے اوریوں بورژوا اپوزیشن سیاسی اور حکومتی متبادل بن جاتی ہے۔
اس بحرانی صورتحال میں سرمایہ دار طبقہ کا مفادریاست کے جبر کے ساتھ جڑا ہے اس لیے وقت ریاست کسی اختلاف رائے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور خاص کرفوج کے کردار کے حوالے سے کسی بھی تنقید کو سختی سے دبایا جاتا ہے کیونکہ فوج ہی ان کی آخری امید ہے۔ اس لیے میڈیا میں ایک سکوت طاری ہے اور ایسے قوانین منظور کیئے جارہے ہیں جو بچی کچھی جمہوری آزدیوں کو بھی سلب کررہے ہیں اور جو ان پر بات کرئے وہ جبری طور پر گمشدہ کردیا جاتا ہے۔یہ نئے قوانین ظاہر کررہے ہیں کہ ریاست کسی قسم کا اختلاف رائے کو برداشت کرنے کے لیے تیا ر نہیں ہے اور وہ ہر تنقید کو ختم کردینا چاہتا ہے۔ ریاست کا یہ آمرانہ کردار سرمایہ دار طبقہ اور عالمی سرمایہ کے مفاد میں ہیں۔
ان حالات میں بورژواء اپوزیشن خود کو ایک متبادل کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے اور انہوں نے عمران حکومت کے خاتمے کے لیے پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کے قیام کا اعلان کیا ہے اور اس کے تحت مظاہروں، دھرنوں اور لانگ مارچ کا بھی اعلان کیا ہے۔نواز شریف نے یہ بھی کہا ہے کہ ہماری لڑائی عمران خان کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کو سلیکٹ کرنے والوں کے خلاف ہے۔
پاکستان کی نیم نوآبادیاتی پوزیشن، نظام کے عدم استحکام اور سرمایہ دار طبقہ کی نااہلی کی وجہ سے فوج کا کردار بالادست ہے اس لیے لبرلز اورلیفٹ میں سے بھی کچھ کے لیے بنیادی تضاد سویلین بالادستی اور فوج کے کنٹرول کا ہے جس کی وجہ سے جمہوری آزادیاں نہیں ہیں۔یہ اس بورژوا ریاست میں فوج کے کردار کو آزادانہ طور پر پیش کرتے ہیں لحاظ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے تضاد ات اور مفادات کو فوج اور سویلین کے تضاد میں محدود کردیتے ہیں ان کے مطابق یہ ایک حقیقی لڑائی ہے جیسے لڑجائے البتہ ان کو افسوس بھی ہے کہ یہ عوامی مسئلہ کو لے کر نہیں چلتے ہیں۔لیکن ان کو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان جماعتوں نے بھی موجود نظام میں ہی حکومت کرنی ہے اس لیے ان کو ایک ایسی ریاست کی ضرورت ہے جو سرمایہ کے مفاد میں تمام تر رکاوٹیں دور کرئے اس لیے یہ فوج کے کردار کو سول حکومت کے تابع تو لانا چاہتے لیکن یہ اس کو مضبوط اور طاقتور بھی بنانا چاہتے ہیں جیسا کہ نواز شریف نے اسی تقریر میں کہا ہے۔
نظام کے بحران میں فرقہ واریت کے نام پرکلیسائی فاشزم بھی پروان چڑھ رہا ہے اور اہل تشیع کہ خلاف مقدمات کی لہر اور ان کی ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ بھی اسی کا حصہ ہے حالانکہ ابھی تک کلیسائی فاشزم کی قوتوں کی عوام میں بنیادیں مخصوص علاقوں تک محدود ہیں لیکن یہ تیزی سے آگے بڑھ سکتی ہیں کیونکہ نظام کے بحران کی وجہ سے لڑائی کی نئی کونپلیں بھی پھوٹ رہیں اور حکمران طبقہ اپنے تمام تر جبر کے باوجود ان پر قابو پانے میں ناکام ہے اس لیے یہ اس کلیسائی فاشزم کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالتا تاکہ نظام کے بحران کے خلاف جدوجہد میں آنے والوں کے ساتھ ان کا ٹکراؤ حکمران طبقہ کو موقع فراہم کرئے یہ ابھی سے کراچی میں ان کی طرف سے سندھی مسنگ پرسنز اور داؤمیڈیکل کالج کے طلباء پر حملے سے واضح ہے کہ ایک بحرانی صورتحال میں ان کا کیا کردار ہوگا۔
نظام کی متروکیت احتجاج اور جدوجہد کو جنم دئے رہی ہے اورتحریکوں کے درمیان یکجہتی میں اضافہ ہورہا ہے ہر طرف مزدور،مظلوم اقوام،عورتیں اور طلباء جدوجہد میں آرہے ہیں۔ لیفٹ ان تحریکوں کے ساتھ جڑرہا ہے لیکن اس لیے ضروری ہے کہ ان کو معاشی جدوجہد سے سیاسی جدوجہد تک لے کے جائے یوں لیفٹ کو بورژوا اپوزیشن،پارلیمنٹ اور اس نظام میں بحران کا حل دیکھنے سے آگے جانا ہوگا اور اس کوتحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے اوربورژوااپوزیشن کی محدودیت کو واضح کرتے ہوئے محنت کشوں کی حکومت کا پروگرام پیش کرنا ہوگا جو محنت کش طبقہ کے سامنے ریاستی اقتدار اور حکومت کا سوال پیش کرئے۔اس کے لیے جہاں محنت کش طبقہ کی انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے وہاں اس حکمت عملی کی بھی جو سرمایہ داری نظام کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب پر مبنی ہو۔