منرویٰ طاہر

مظلوم اقوام سے تعلق رکھنے والے بہاءالدین یونیورسٹی ملتان کے طلباء پچھلے 22 روز سے جامعہ کے باہر کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ احتجاج انتظامیہ کے ان طلباء کے اسکالرشپ ختم کرنے کے فیصلہ کے خلاف ہے۔ ہم نے بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے طالبِ علم جیند بلوچ سے اس معاملہ پر گفتگو کی۔
جیند بلوچ کا کہنا تھا کہ اس ریاست نے آج تک بلوچستان کی زمین سے جتنے معدنیات نکالے ہیں اس کا کوئی حساب کتاب نہیں مگر آج بلوچستان حکومت کے ڈیفالٹر ہونے کے نام پر بلوچستان اور فاٹا کے طلباء کو اب پنجاب کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے تک سے روکا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ اسکالرشپ مشرف کے دورِ اقتدار کے خاتمہ کے بعد پی پی پی حکومت نے آغازِ حقوقِ بلوچستان کے نام پر دینا شروع کئے تھے جس کے مطابق بلوچستان کے طلباء پنجاب کے تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلے لے سکتے تھے اور اس کے علاوہ وظیفہ حاصل کرنے کے بھی اہل قرار پائے تھے۔ وظیفہ تو نہ مل سکا مگر بہر حال بلوچستان جسے تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کے حوالہ سے منظم انداز میں باقاعدہ پسماندہ رکھا جاتا ہے، وہاں کے طلباء کے لئے یوں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے کچھ مواقع پیدا ہوئے۔ جیند بلوچ کے مطابق سب سے پہلے ان طلباء کے اسکالرشپ پر حملہ کرنے کی کوشش 2013 میں ہوئی تھی مگر وہ اس وقت کے بلوچستان کے حالات کے سبب ناکام رہی۔ پھر 2017 میں اوپن میرٹ پر ہونے والے داخلوں کے اسکالرشپ ختم کر دئے گئے اور بس 2 فیصد کوٹہ رکھا گیا جس کے مطابق بلوچستان سے بس دو دو اور فاٹا سے چار چار طلباء پنجاب کے تعلیمی اداروں کے ہر شعبہ میں پڑھنے جا سکتے تھے۔ حالیہ صورتِ حال یہ ہے کہ اس کوٹہ پر آنے والے طلباء کے لئے بھی اسکالرشپ ختم کر دئے گئے ہیں۔ بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے طلباء داخلے تو لے سکتے ہیں مگر انہیں کوئی اسکالرشپ نہیں دئے جائیں گے اور ٹیوشن فیس سے لے کر ہاسٹل کی فیسیں بھی اب طلباء کو خود بھرنا ہوں گی۔ غرض یہ کہ اب پنجاب کے تعلیمی اداروں کے ہر شعبہ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دو طلباء اور سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے چار طلباء داخلے تو لے سکیں گے مگر اپنے تمام اخراجات کے لئے خود ذمہ دار ہوں گے۔
بلوچستان، سابقہ فاٹا اور دیگر اطراف کے علاقوں کو سرمایہ داری کی مشترکہ اور غیر ہموار ترقی کی منطق کے مطابق ایک منظم انداز میں پسماندگی کے دلدل میں دھنسا جاتا ہے۔ ایک طرف ان کے اپنے علاقوں میں اعلیٰ تعلیم کی سہولیات محدود ہوتی ہیں یا اکثر علاقوں میں سرے سے ہوتی ہی نہیں ہیں۔ پھر جب شہری مراکز کا رخ کرنے پر مجبور ان طلباء سے اسکالرشپ بھی چھین لئے جاتے ہیں تو یہ نسل در نسل جبری طور پر غیرترقی یافتہ رکھنے کا سلسلہ بن جاتا ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر محنت کش خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء پر ہوتا ہے۔ اس تمام ظلم و زیادتی کے خلاف بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے باہر 22 دن سے طلباء احتجاج کر رہے ہیں۔ طلباء تنظیموں نے اپنی کمیٹی بھی بنا لی ہے جس میں بلوچستان کاؤنسل ملتان، پشتون کاؤنسل بلوچستان، پشتون کاؤنسل فاٹا اور بی زیڈ یو کلیکٹو شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں میں طلباء تنظیموں نے جامعہ جانے والی سڑک کو بلاک کر دیا تھا، جس کے بعد انتظامیہ مذاکرات کے لئے آنے پر مجبور ہوئی۔ ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں انتظامیہ اور طلباء کے نمائندے شامل ہیں۔ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ 2017 سے بلوچستان کی صوبائی حکومت نے بلوچستان کے طلباء کے اسکالرشپ کی مد میں جو رقوم پنجاب کی جامعات کو بھیجنا تھیں، ان رقوم کو ادا کرنے سے حکومت قاصر رہی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 2017 سے اب تک پھر بھی جیسے تیسے طلباء کے لئے جامعہ نے اسکالرشپ کا انتظام کیا مگر اب حالیہ ایچ ای سی بجٹ میں کٹوتیوں کے بعد ان اسکالرشپس کا بوجھ اٹھانا جامعہ کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اس ضمن میں نو تشکیل شدہ کمیٹی نے پنجاب حکومت اور بلوچستان حکومت کو خط بھی لکھا ہے۔ جیند بلوچ نے انتظامیہ کے مؤقف پر تنقید رکھتے ہوئے بیان کیا کہ ستر سالوں سے بلوچستان کے معدنیات و وسائل کو بغیر کسی حساب کتاب کے لوٹا گیا اور ریاست نے ہمیں صرف یہ چند ایک اسکالرشپ دے رکھے تھے جو وہ اب ہم سے بلوچستان حکومت کے نام پر چھین رہی ہے کہ “صوبائی حکومت پر 35 کروڑ کا قرضہ ہے”۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان معدنیات و وسائل کا حساب کیا جائے جو ریاستِ پاکستان نے بلوچستان کی سرزمین سے لوٹے ہیں تو وہ حساب کتاب اس رقم سے کہیں زیادہ ہو گا۔
اس تمام صورتِ حال میں بائیں بازو، قوم پرست اور ترقی پسند رجحان رکھنے والی طلباء تنظیموں نے اپنا اتحاد قائم کیا ہے جبکہ جمعیت جیسی رجعتی اور ریاست کی دلال تنظیموں نے انتظامیہ کے مؤقف کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ بلوچستان اور فاٹا کے طلباء کے اسکالرشپ ختم کر دینے چاہئے۔ دوسری جانب طلباء کا اتحاد انتظامیہ کو مذاکرات پر مجبور کرتا ہے۔ اس وقت طلباء نے سڑک کھول دی ہے ٹریفک کے لئے مگر کیمپ جاری رکھا ہوا ہے اور اگلے عرصہ میں آئندہ کا لائحہ عمل بھی تشکیل دے رہے ہیں۔ طلباء کے اتحاد سے خوف زدہ عناصر نے ان کو ڈرانا دھمکانا بھی شروع کر دیا ہے، کبھی کیمپ پر آ کر ان کی تصاویر بنا کر ہراساں کرتے ہیں تو کبھی طلباء یا ان کے گھر والوں کو فون کالز کر کے دھمکانے کے اوچھے ہتھکنڈے آزماتے ہیں۔
اس تمام صورتِ حال میں انقلابی سوشلسٹ موومنٹ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے طلباء کی عظیم جدوجہد کو سرخ سلام پیش کرتی ہے اور پاکستان کے زیرِ انتظام تمام علاقوں میں بسنے والے طلباء اور مزدوروں سے اپیل کرتی ہے کہ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے طلباء کی حالیہ جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کریں۔ ساتھ ہم جدوجہد میں سرگرم طلباء کو یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اپنی صفوں میں موجود ان کالی بھیڑوں سے بھی ہوشیار رہیں جن کا کام ریاست کی دلالی کرنا اور جدوجہد کو ٹھنڈا کرنا ہے۔ انتظامیہ یا فلاں وزیر یا ڈھمکاں بیوروکریٹ کے نام پر کسی بھی ریاستی دلال کا بھروسہ صرف اور صرف طلباء کی جدوجہد کو نقصان پہنچائے گا۔ اگر انتظامیہ طلباء سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئی ہے تو وہ طلباء کی اپنی سیاسی جدوجہد اور حرکت کے نتیجہ میں ہوئی ہے نہ کہ کسی کے وزیروں یا بیوروکریٹس کے رابطوں کے نتیجہ میں۔ طلباء کو اپنی آزادانہ سیاست کے لئے انتظامیہ سے علیحدہ کمیٹی بنائے رکھنی چاہئے اور اس کمیٹی کو جامعہ کے اساتذہ و دیگر محنت کشوں سے رابطے قائم کرنے چاہئے کیونکہ ان محنت کشوں اور جدوجہد کرنے والے طلباء کا طبقاتی و سیاسی مفاد ایک ہے۔ ہمارے طبقہ کی آزادانہ سیاست ہی اس گلے سڑھے نظام کے خلاف فتح کی واحد ضمانت ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں موجود طلباء کو یکجہتی میں مظاہرے بھی منظم کرنے چاہئے اور اس مسئلہ کو دیگر طلباء کے مسائل کے ساتھ جوڑنا چاہئے۔ اس وقت جامعہ کراچی اور ڈاؤ میڈیکل کالج سے لے کر بولان میڈیکل کالج اور بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے طلباء کی حالیہ کمپینز یہ واضح کرتی ہیں کہ نظام کا جبر نوجوانوں اور بالخصوص محنت کش طبقہ اور مظلوم اقوام کے نوجوانان پر کس بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی دلال یہ ریاست تعلیم کے شعبہ پر کٹوتیوں کی صورت میں بڑے حملے کر رہی ہے۔ ان حملوں کی جڑ جب ایک ہے تو اس کے خلاف لڑائیوں کے مظاہر کو بھی اب یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ فرسودہ سرمایہ داری نظام اب اپنا ترقی پسند کردار مکمل کر چکا ہے اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے اس نظام کو ڈھانے کی جدوجہد ہم سب کو مل کر کرنی ہو گی۔ فتح تک جدوجہد!