رپورٹ)انقلابی سوشلسٹ)

بلوچ سالیڈیرٹی کمیٹی کے زیراہتمام بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کے احتجاجی طلباء کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے لاہور پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا گیا جس میں بڑی تعداد میں بلوچ اور پشتون طلباء شریک ہوئے اس کے علاوہ،پنجابی،کشمیری اور سندھی طلباء کے ساتھ مختلف لیفٹ کے گروپوں کے ساتھی بھی اظہار یکجہتی کے لیے شامل ہوئے۔اس موقع پر احتجاجی کیمپ میں موجود شرکاء نے بلوچ اور سابقہ فاٹا کے طلباء کی سیٹوں کی بحالی کے لیے نعرہ لگائے اور مطالبہ کیا کہ ان کی سکالرشپ بحال کی جائے۔
مختلف مقررین جن میں ظہیر بلوچ،قدیر حسینی بلوچ،عامر قیصرانی،محسن ابدالی،زین بلوچ،رفیق خان،رائے اسد،شہزاد ارشداور مزمل خان نے احتجاجی کیمپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہبہاؤ الدین یونیورسٹی ملتان کے طلباء پچھلے 24 روز سے جامعہ کے باہر کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔ہمارا یہ احتجاج انتظامیہ کی طرف سے ان طلباء کے اسکالرشپ ختم کرنے کے فیصلہ کے خلاف اور طلباء سے اظہار یکجہتی کے لیے ہے۔ اس اسکالرشپ کاآغاز پی پی پی حکومت میں آغازِ حقوقِ بلوچستان پیکچ کی وجہ سے شروع ہوا تھا جس کے مطابق بلوچستان کے طلباء پنجاب کے تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلے لے سکتے تھے اس سے طلباء کے لئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے کچھ مواقع پیدا ہوئے مگر 2017 میں اوپن میرٹ پر ہونے والے داخلوں کے نام پر اسکالرشپ ختم کر دئے گئے اور بس 2 فیصد کوٹہ رکھا گیا جس کے مطابق بلوچستان سے بس دو اور فاٹا سے چار طلباء پنجاب کے تعلیمی اداروں کے ہر شعبہ میں پڑھنے جا سکتے تھے۔ حالیہ صورتِ حال یہ ہے کہ اس کوٹہ پر آنے والے طلباء کے لئے بھی اسکالرشپ ختم کر دئے گئے ہیں۔ بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے طلباء داخلے تو لے سکتے ہیں مگر انہیں کوئی اسکالرشپ نہیں دئے جائیں گے اور ٹیوشن فیس سے لے کر ہاسٹل کی فیسیں بھی اب طلباء کو خود بھرنا ہوں گی۔ غرض یہ کہ اب پنجاب کے تعلیمی اداروں کے ہر شعبہ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دو طلباء اور سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے چار طلباء داخلے تو لے سکیں گے مگر اپنے تمام اخراجات کے لئے خود ذمہ دار ہوں گے۔
ایک طرف ان طلباء کے اپنے علاقوں میں اعلیٰ تعلیم کی سہولیات محدود ہیں یا اکثر علاقوں میں سرے سے ہوتی ہی نہیں ہیں اور اب شہری مراکز کا رخ کرنے پر مجبور ان طلباء سے اسکالرشپ بھی چھین لی گی ہے اس کا سب سے زیادہ اثر محنت کش خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء پر ہوتا ہے۔ اس تمام ظلم و زیادتی کے خلاف بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے باہر 24 دن سے طلباء احتجاج کر رہے ہیں۔ انتظامیہ کا موقف ہے کہ 2017 سے بلوچستان کی صوبائی حکومت نے بلوچستان کے طلباء کے اسکالرشپ کی مد میں جو رقوم پنجاب کی جامعات کو بھیجنا تھیں، ان رقوم کو ادا کرنے سے حکومت قاصر رہی ہے۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 2017 سے اب تک پھر بھی جیسے تیسے طلباء کے لئے جامعہ نے اسکالرشپ کا انتظام کیا مگر اب حالیہ ایچ ای سی بجٹ میں کٹوتیوں کے بعد ان اسکالرشپس کا بوجھ اٹھانا جامعہ کے لئے ممکن نہیں ہے۔ یہ واضح ہے کہ آئی ایم ایف سے سمجھوتے کے نتیجے طلباء اور محنت کشوں کے لیے تو صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے پاس چند کروڑ روپے نہیں ہیں جب کہ بڑے سرمایہ داروں کوہزاروں اربوں کی سبسڈیز دی جارہی ہے۔یہ شرمناک ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی اور ان کے حقوق کی دعویدار جماعتیں یہ سب کررہی ہیں۔
انقلابی سوشلسٹ موومنٹ ان احتجاجی طلباء کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی ہے اور ہم ریاست سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان طلباء کی سکالرشپ نہ صرف بحال کی جائے بلکہ اس میں مزید اضافہ کیااورمظلوم اقوام کے طلباء کے لیے سیٹوں میں اضافہ کیا جائے کیونکہ ایسا کرنا حکومت کے لیے ممکن ہے کیونکہ وہ اگر سرمایہ داروں کو ہزارہا ارب دئے سکتی تو طلباء کے لیے بھی رقم فراہم کی جاسکتی ہے لیکن ہم یہ سمجھتے حکومت کو مطالبات ماننے پر مجبور کرنے کے لیے احتجاج اور جدوجہد ہی واحد راستہ ہے۔ اس حملے کے خلاف بلوچ اور پشتونوں طلباء جدوجہد کررہے ہیں اسی طرح محنت کش طبقہ بھی اپنے اوپر ہونے والے حملوں کے خلاف جدوجہد میں آرہا ہے تو ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ طلباء اور مزدور مل کر اس نیولبرل حکومت کے حملوں کا مقابلہ کرئیں اور جمہوری حقوق پر حملوں کے خلاف آواز اُٹھائیں۔یہ مظلوم اقوام اور محنت کش طبقہ پر ایک مشترکہ حملہ ہے اور ہم مل کرہی اس کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔