سوشلسٹ ریزسٹنس رپورٹ

تمام تر اوچھے ہتھکنڈے آزمانے کے باوجود ریاست شیعہ لایئوز میٹر کا احتجاج روکنے میں ناکام رہی اور 20 ستمبر کی شام کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرہ ہوا۔ لاپتہ شیعہ اسیران کی مائیں اور بیٹیاں اپنے پیاروں کی تصاویر تھامے احتجاج میں کھڑی تھیں مگر ان کے درد کی آواز کو دبانے کے لیے ہیوی ڈیوٹی ساؤنڈ سسٹم بہت بڑے ٹرک پر لایا گیا تھا اور ساتھ وہی سارے لوگ موجود تھے جنہوں نے پچھلے ہفتہ ڈاؤ طلباء اور سندھی مسنگ پرسنز کیمپ پر حملہ کیا تھا۔ بظاہر ان لوگوں کا یہ احتجاج بھارت کے خلاف تھا۔ مگر اس مصنوعی احتجاج کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شرکاء میں سے جس سے بھی پوچھا کہ آپ یہاں احتجاج کرنے کیوں آئے ہیں تو ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ حتیٰ کہ منتظمین کی جانب سے بھارت کے خلاف بھی کوئی ایک تقریر تک نہ ہوئی۔ البتہ شیعہ لایئوز میٹر کے احتجاج کی آواز کو دبانے کے لئے بدترین تیز آواز میں گانے مسلسل چلتے رہے۔

اس مصنوعی احتجاج کی مضحکہ خیز حقیقت سب سے زیادہ تب واضح ہوئی جب شیعہ لایئوز میٹر کے احتجاج کے شرکاء نے پریس کلب کی سڑک پر ریلی نکالی۔ جوں ہی شرکاء مارچ کرتے گئے تو ان کے پیچھے نہ صرف مصنوعی بھارت مخالف احتجاج کے شرکاء چلے بلکہ وہ بڑا سارا ٹرک اور اس کا کانوں پر عذاب بھی ساتھ ساتھ چلا۔ اس بھونڈی حرکت نے ریاست کے کھوکھلے پن کو مزید واضح کر دیا۔

ریاست اس قدر کھوکھلی ہو چکی ہے کہ اب وہ نہتے احتجاج کرنے والے شہریوں کو تقریر کرنے اور نعرے لگانے سے روکنے کے لئے اس قسم کے ہتھکنڈے اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ ریاست یہ سمجھ رہی تھی کہ کانوں پر یوں عذاب نازل کر کے وہ مظلوموں کی آواز دبا دے گی مگر آج کے اس عمل سے ریاست نے خود اپنے پیر پر کلہاڑی ماری کیونکہ اس بھونڈے ہتھکنڈے کے بعد جب ریلی نکالی تو ساتھ بیٹھے سندھی مسنگ پرسنز کے کیمپ کے ساتھیوں نے بھی ریلی میں شرکت کی اور دعوت دی کہ ان کے کیمپ پر آ کر بیٹھ جائیں۔ شیعہ لاپتہ اسیران کے اہل خانہ اور سندھی مسنگ پرسنز کے لواحقین نے ایک دوسرے سے اپنا غم بانٹا اور سوشل میڈیا پر بھی ایک دوسرے سے یکجہتی کی۔ غرض یہ کہ ریاست نے جو ہتھکنڈا مظلوم کی آواز کو دبانے کے لیے آزمایا اس کے نتیجہ میں دیگر مظلوم لوگ ایک دوسرے سے قریب آ گئے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظام کا جبر ہے جس کے نتیجہ میں دیگر مظلوم اقوام اور گروہوں کو سڑکوں اور احتجاجات کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ ریاست نظام کے بحران سے نہ نمٹ پانے کی صورت میں ناکام اور کھوکھلی ہوتی جا رہی ہے اور اسی لئے کبھی اسے براہ راست جبر و تشدد کا سہارا لینا پڑتا ہے تو کبھی کلیسائی فسطائیت کا۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ نظام کے جبر کی شدت کے نتیجہ میں تمام شعبہ حیات میں محنت کش عوام اور طلباء حرکت میں آ رہے ہیں۔ ایسے میں ریاست کو اپنے وجود کی بقا کے لئے عوام کو تقسیم کرنا پڑتا ہے، کبھی لسان تو کبھی مذہب و فرقہ کا سہارا لے کر۔ شیعہ افراد پر حالیہ جبر کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں اور اس میں ہم سامراجی قوتوں کے کردار پر بھی واضح ہیں جن کی دلالی اور اپنے بقا کی ضمانت کے طور پر یہ ریاست فرقہ وارانہ شعلوں کو ہوا دے رہی ہے۔ مگر اس تمام سازش کو عوام میں کوئی خاص مقبولیت حاصل نہیں ہو رہی ہے کیونکہ کراچی شہر میں جگہ جگہ اب بینر لگے ہوئے ہیں جن پر لکھا ہے شیعہ سنی بھائی بھائی تکفیری نے آگ لگائی۔ یہ عوام کا تاریخی شعور ہے جسے ریاست زبردستی نفرت انگیز شعور میں تبدیل کرنا چاہتی ہے مگر پے در پے ناکام ہو رہی ہے۔