سوشلسٹ ریزسٹنس رپورٹ

کراچی پریس کلب کے باہر 19 ستمبر کو شاہینہ شاہین، حیات بلوچ، ملک ناز بلوچ اور کلثوم بلوچ کے قتل کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں بلوچ نوجوانوں، بائیں بازو اور طلباء تنظیموں کے نمائندوں کے علاوہ سول سوسائٹی نے شرکت کی۔ تقاریر اور ظلم کے خلاف نعروں کے بعد پریس کلب کی دیوار کے ساتھ شاہینہ، حیات، ملک ناز اور کلثوم کی تصاویر کے سامنے ان کی یاد میں شمعیں بھی روشن کی گئیں۔

انقلابی سوشلسٹ موومنٹ کا مؤقف رکھتے ہوئے کامریڈ منرویٰ نے کہا کہ عدلیہ اور دیگر ادارے ہمیں ان واقعات پر انصاف دینے کے اہل نہیں ہیں کیونکہ یہ ادارے سرمایہ اور اس کی ریاست کے دلال ہیں اور یہ ہم عوام کے ادارے نہیں ہیں، نہ ہی یہ ہمیں انصاف دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر انصاف کی کوئی ضمانت ہے تو وہ ہمارے محنت کش طبقہ کی آزادانہ سیاست ہے۔

ہم انقلابی سوشلسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جبر و تشدد کے واقعات میں مردوں کو ایسا دشمن بنا کر پیش کرنا جن کے ساتھ کبھی اتحاد نہیں ہو سکتا، اصل معاملہ سے ہاتھ اٹھانے کے مترادف ہے۔ ہمارا اصل دشمن یہ سرمایہ دارانہ پدرشاہی نظام ہے جس کے خلاف معنی خیز لڑائی صرف سوشلسٹ جدوجہد ہے۔ اگر ہم حقیقی آزادی کے خواہشمند ہیں تو یہ جدوجہد محنت کش اور سوشلسٹ مردوں اور عورتوں کو مل کر سوشلسٹ پروگرام کے تحت لڑنا ہوگی۔ ہم شناخت کی سیاست کو رد کرتے ہیں اور مردوں کو عورتوں کا دشمن بنا کر پیش کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تمام تر محنت کش طبقہ کا معروضی مفاد، بشمول محنت کش مرد اور عورتیں، نجی ملکیت اور پدرشاہی کے خاتمے میں ہے۔ کثیرالطبقاتی خواتین کی تحریک سے ہم حکمت عملی کے حوالے سے مکمل طور پر اختلاف رکھتے ہیں کیونکہ محنت کش عورت کے مفادات کا ایسی تحریکوں میں نہ کبھی دفاع ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ بورژوا برابری کی لڑائی میں اگر یہ عورتیں کامیاب ہو بھی جائیں تب بھی محنت کش عورتیں غلامی کی زندگی گزاریں گی۔ لہٰذا ہم تمام سنجیدہ کامریڈز سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ شناخت کی سیاست سے محتاط ہو کر یکجہتی کا راستہ اپناتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کی تحریک کو تعمیر کریں کیونکہ سرمایہ داری کی موت ہی میں اب ہم سب کی حیات ہے۔