رپورٹ)انقلابی سوشلسٹ)

العزیز پیپر مل مریدکےنے کورونا وئراس کی وجہ سے 31مارچ کو اپنی فیکٹری بند کردی حالانکہ یہ فیکٹری لاک ڈاؤن کے تحت نہیں آتی تھی۔جب فیکٹری بند کی گئی اس وقت فیکٹری میں 250سے زائد مزدور کام کررہے تھے اور ان کو راہ مٹریل نہ ملنا کا کہ کر اوربغیر واجبات کی ادائیگی کے گھر بھیج دیا گیا کہ جیسے ہی حالات بہتر ہوں گئیں تو ان کو کام پر واپس لے لیا جائے گا۔
اپریل کے آخرمیں جب فیکٹری میں کام بحال ہوا تو 90سے زائد ایسے مزدوروں کو کام پر نہیں بلایا گیا جو اس فیکٹری میں دو دہائیوں سے کام کررہے تھے۔جن مزدوروں کو واپس بلایا گیا یہ ایسے مزدور ہیں جو دوتین سال سے کام کررہے ہیں۔اس وقت ان سے 16گھنٹے تک کام لیا جارہا ہے لیکن ان کو کوئی اورٹائم ادا نہیں کیا جارہا ہے اور ان کو خوف ذدہ کیا جارہاہے کہ اگر انہوں نے اس حوالے سے بات کی تو ان کو بھی کام سے نکال دیا جائے۔
العزیز پیپرز مل کے مالکان سیاسی اثرورسوخ رکھتے ہیں اس لیے مزدوروں کو ڈریا دھمکایا جارہا ہے۔جب نوکری سے نکالے گئے ورکرز نے اپنی درخواست وزیر اعظم پورٹل پر ڈالی تو ایک لیبر انسپکٹر فیکٹری میں آیا اور اس نے مزدوروں سے ملاقات بھی کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل اور معاملے کو لیبر کورٹ میں بھیج دیا گیا ہے جسکے بعد ایک کے بعد دوسری تاریخ دی جارہی ہے جب کہ مزدوروں کے حالات زندگی اس عرصہ میں نہایت خراب ہوگئے ہیں اور انہیں فاقوں تک کا سامنا رہاہے۔لیکن نہ ہی مالکان اور نہ ہی حکومت کو ان مزدوروں کی کوئی پروا ہے کہ جن کے دم سے یہ معیشت چلتی ہے اور سرمایہ داروں کے منافع ہیں۔ان کے کیا حالات ہیں۔
اس صورتحال میں العزیز پیپرز مل کے مزدوروں نے مل کے سامنے احتجاج بھی کیا اور مالکان کے علاوہ وزیراعظم،وزیراعلیٰ پنجاب اور چیف جسٹس سے اپیل کی کہ ان کو نوکریوں پر بحال کیا جائے تاکہ وہ خود اور اپنے خاندان کی بنیادی ضروریات پوری کرسکیں۔لیکن اس سب کے باوجود العزیز پیپرز مل کے مزدوروں کی کہیں دادرسی نہیں ہے۔البتہ تاریخ پر تاریخ ضرور دی جاررہی ہے۔العزیزپیپرز مل میں کوئی ٹریڈ یونین تو نہیں ہے مگر یہ مزدور اکھٹے ہوئے اور یہ متحدہ لیبر فیڈریشن کے ساتھ رابطہ میں ہے اور انہوں نے ان کو ہر طرح کی مدد کا یقین دلایا ہے۔