رپورٹ سوشلسٹ ریسٹنس
آن لائن کلاسز کے خلاف احتجاج کرنے والے80سے زائد بلوچ اور پشتون طلباء کی گرفتاریاں شرمناک ہیں جن میں بلوچ سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کے چیئرمین کے علاوہ،سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کے چیئرمین مزمل خان اور بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے جیئند بلوچ شامل ہیں یہ ریاست کے طبقاتی کردار کی وضاحت کرتی ہیں۔ اپنے معاشی بحران سے نمٹنے میں بری طرح ناکام یہ ریاست اس بحران کا بوجھ محنت کش خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء پر ڈالنا چاہتی ہے اور اسی لئے یہ آن لائن کلاسز کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔ مزید اس پر بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی دکھا رہی ہے کہ نظام کا بحران کس قدر شدت اختیار کر رہا ہے۔ ہر طرف افراتفری ہے، ہر شعبہ میں محنت کش حرکت میں آ رہے ہیں حتیٰ کہ طلباء اور نچلے درمیانے طبقات بھی نظام کے خلاف حرکت میں آ رہے ہیں۔ طلباء اور خاص کر خواتین کی گرفتاری اور تشددہر حوالے سے ایک شرمناک عمل ہے ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور گرفتار طلباء کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں آج دنیا بھر میں پھر وہی سوال ابھر کر سامنے آیا ہے ”سوشلزم یا بربریت؟” اور اس سوال کو جواب انسانیت کے حق میں حاصل کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ انقلابی محنت کش قیادت کے بحران کو حل کیا جائے اور اس فرسودہ ظام کا تختہ الٹ دیا جائے۔