منرویٰ طاہر

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں جوں ہی فیصلہ آیا، اسٹالنسٹوں سے لے کر نیو لیفٹ تک ہر رنگ کے اصلاح پسندوں کے ہاں جشن کا سما پایا گیا۔ اب لبرل یہ کریں تو سمجھ بھی آتا ہے مگر جب نام نہاد لیفٹ ایسے کارنامے انجام دے تو کم از کم تنقید تو بنتی ہے کیونکہ انقلابیوں کی وفاداری اصلاح پسند قیادتوں کے بجائے محنت کش طبقہ کے مفادات سے ہوتی ہے۔ اس جشن پر میں نے فیسبک کے ذریعہ تنقید کی اور کہا کہ یہ منطق جڑی ہے اس امر سے کہ اسٹالنسٹوں کی اکثریت مشترکہ اور ناہموار ترقی کے معاملہ کو سمجھنے سے قاصر ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ آج تک منتظر ہیں کہ کب پاکستان کے حکمران طبقہ کا ترقی پسند حصہ یہاں انگلستان جیسا بورژوا انقلاب برپا کرے گا۔ اسی منطق کے سبب وہ حکمران طبقہ کے ایک یا دوسرے ترقی پسند حصہ کی جانب آس لگائے دکھائی دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ عوام میں نہیں جاتے کیونکہ ان کے مرحلہ واریت کے تصور کے مطابق تو پہلے بورژوا جمہوری انقلاب آنا ہے اس کے بعد سوچیں گے پرولتاریہ انقلاب وغیرہ کے بارے میں۔ یہ تنقید کچھ ساتھیوں کو پسند نہ آئی اور کچھ بحث کے بعد انہوں نے کہا کہ چار لائنیں لکھنے کے بجائے آپ ایک تحریر کے ذریعہ اپنا موقف پیش کریں تاکہ ہم جواب دے سکیں۔

سب سے پہلے تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ پاکستانی بائیں بازو کی اکثریت کے ہاں تنقیدی کلچر کے فقدان کی وجہ سے ذاتی رشتوں،روابط اور اپنے لئے اسپیس کو عموماً نظریات پر فوقیت دینی پڑ جاتی ہے۔ عام طور پر سیاسی اختلاف کا اظہار کرنا ایک جرم سے کم نہیں سمجھا جاتا کیونکہ فوراً ہی سیاسی اختلاف کو ذاتی  انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے یا برا مان لیا جاتا ہے جسے جواز بنا کر ذاتی حملوں کے تیر برسائے جاتے ہیں بجائے سیاسی تنقید کا جواب سیاسی تنقید کے ذریعہ دینے کے۔ یہ ایک غیرمارکسی رویہ ہے کیونکہ اگر ہم کامریڈ لینن یا کسی بھی مارکسی انقلابی کی تحاریر اٹھا کر دیکھیں تو یہی سیکھنے کو ملتا ہے کہ کسی کی ذاتی خوشنودی یا اپنے لئے اسپیس کے حصول کے لئے نظریات کو چھپانا یا ان کا کھل کر اظہار نہ کرنا موقع پرستی کہلاتا ہے۔ بہت سے ساتھی ایسا شعوری طور پر نہیں کرتے۔ مگر یہ ایک عمومی مسئلہ ہے ہمارے لیفٹ کے کلچر کا کیونکہ پسماندہ روایات، خاندانی رکھ رکھاؤ اور لحاظ مروت ہمارے ہاں نہ چاہتے ہوئے بھی نظریاتی بات سے زیادہ اہمیت کے حامل ہو جاتے ہیں۔ اب مسئلہ یہاں یہ آتا ہے کہ جب آپ اس موقع پرستی کا حصہ نہیں بننا چاہتے اور اپنی سیاسی بات بنا کسی سمجھوتے کے دو ٹوک انداز میں کرتے ہیں تو آپ کو ذاتی حملوں کا شکار بنایا جاتا ہے اور بعض دفعہ تو آپ کو باقاعدہ طور پر کاٹا بھی جاتا ہے کیونکہ سامنے والے سے اپنی گھبراہٹ سنبھل نہیں رہی ہوتی۔ ساتھیوں کو سوچنا چاہئے کہ اپنی من پسند بات نہ ہونے پر ہر طرح کی سیاسی بحث سے گھبرانااور بات کو گھما کر کسی تنظیمی یا ذاتی مسئلہ پر لے آنا اصلاح پسندی کی روایت رہی ہے۔ ایک صحتمندانہ سیاسی کلچر کے لئے ہمیں ایسے رویوں کی جانب احتیاط برتنی چاہئے۔ بحیثیت انقلابی یہ ہمارا سیاسی فریضہ ہے کہ محنت کشوں کے مفادات کا کھل کر دفاع کریں اور طبقاتی جنگ کی راہ میں جو بھی رکاوٹ آئے اس کی کھل کر مخالفت کریں خواہ ہمارے ساتھ کوئی بھی نہ کھڑا ہو۔ ویسے بھی اصلاح پسندوں سے ساتھ کھڑا ہونے کی توقع کرنا اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ انقلابی اپنے خیالات کا بھرپور اظہار اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ہم اصلاح پسندوں کے برعکس ان محنت کشوں اور غرباء کو اپنے پروگرام پر جیتنا چاہتے ہیں جو نظام کے خلاف لڑنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ اپنے نظریات کو اگر ہم خود ہی مسخ کر کے پیش کریں گے تو محنت کشوں کے لئے ناممکن ہوجائے گا یہ سمجھنا کہ کیوں اصلاح پسندوں کے برعکس ہم انقلابی ان کے حقیقی ہمنوا ہیں۔ محنت کش عوام کا غم و غصہ خود ساختہ طور پر ان کے استحصال کے نتیجہ میں جنم لیتا ہے۔ اکثر خود ساختہ طور پر تحریکیں بھی پھوٹ پڑتی ہیں۔ مگر ریاست کے قہر کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ خود ساختہ تحریکیں کافی نہیں ہیں اور یہی لیننزم کی بنیاد ہے۔ تحریکوں کو سمت دینا انقلابیوں کا بنیادی فریضہ ہے، یعنی تحریکوں کو قیادت فراہم کرنے کے لئے انقلابی سیاست درکار ہے۔ کامریڈ لینن نے بغیر انقلابی پروگرام کے انقلابی سیاست کرنے کی کبھی کوئی مثال قائم نہیں کی بلکہ لکھا کہ:

If you must unite, Marx wrote to the party leaders, then enter into agreements to satisfy the practical aims of the movement, but do not allow any bargaining over principles, do not make theoretical “concessions”. This was Marx’s idea, and yet there are people among us who seek – in his name – to belittle the significance of theory! Without revolutionary theory there can be revolutionary movement. (What Is To Be Done? Burning Questions of Our Movement by VI Lenin)

اسی کتاب میں لینن نے اینگلز کا حوالہ دے کر مزید لکھا:

Engels recognises, not two forms of the great struggle of Social-Democracy (political and economic), as is the fashion among us, but three, placing the theoretical struggle on a par with the first two. (What Is To Be Done? Burning Questions of Our Movement by VI Lenin)

اس کتاب کے اختتام پر کامریڈ لینن روسی  سوشل ڈیماکریسی (جو اس زمانہ کی سوشلسٹ پارٹی تھی) کی تاریخ کو تین حصوں میں مختصراً بیان کیا اور پہلا حصہ یہاں نہایت اہمیت کا حامل ہے:

The first period embraces about ten years, approximately from 1884 to 1894. This was the period of the rise and consolidation of the theory and programme of Social-Democracy. The adherents of the new trend in Russia were very few in number. Social-Democracy existed without a working-class movement, and as a political party it was at the embryonic stage of development. (What Is To Be Done? Burning Questions of Our Movement by VI Lenin)

کامریڈ لینن کی یہ کتاب واضح کرتی ہے کہ انقلابی سیاست اور عوام میں کام کرنے کی پہلی شرط ایک انقلابی پروگرام ہے۔ لہٰذا انقلابی اپنے پروگرام کی تشہیر کرتے رہیں گے تاکہ محنت کش ہم سے جڑنے کا شعوری فیصلہ کریں اور انقلابی صورت حال محض ایک حادثہ تک محدود نہ ہو جائیں ۔ حادثاتی یا خودرو تحریکوں کے پھوٹنے کے سوال کا جائزہ کامریڈ لینن نے مفصل انداز میں اس کتاب میں لیا ہے اور واضح کیا ہے کہ کیوں طبقہ کا انقلابی شعور اندرونی طور پر پیدا نہیں ہوتا بلکہ اسے باقاعدہ بیرونی طور پر پیدا کروایا جاتا ہے۔ آج بھی انقلابی پروگرام کی تشہیر اس لئے بھی ضروری ہے کہ تحریکوں میں رجعتی عناصر کو مات دینے کا اور انقلابی سمت فراہم کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں۔ غرض یہ کہ انقلابی نظریات اور اختلافات کی تشہیر جاری رہے گی خواہ اس کی قیمت کچھ بھی ادا کرنی پڑے۔ اصلاح پسندوں نے تو انقلابیوں سے کیا کیا قیمت نہیں لی ہے۔ پھر وہ ماسکو ٹرائلز ہوں یا سامراج سے پہلے خود لکسمبرگ، لیبکنشت، ٹراٹسکی اور ہر اصلاح پسندی کی مخالفت کرنے والے انقلابی بشمول 1945 میں اسٹالنزم کے ہاتھوں قتل کئے گئے ویتنامی انقلابیوں کو چن چن کر مارنا ہو، یہ تاریخ اصلاح پسندی کی روایت ہے جو نظریاتی عدم تحفظ اور دیوالیہ پن کے جواب میں جبر اور قتل و غارت کا سہارا لیتی رہی ہے۔

ٹراٹسکی ازم ایک مکتب فکر ہے جس نے اسٹالنزم کے طریقہ سیاست پر تنقید کی ہےاور اس تنقید کی بنیاد یہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹالنسٹ طریقہ سیاست نے مزدور تحریک اور محنت کشوں کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس پر تفصیلی کتب موجود ہیں کیونکہ اصلاح پسند نظریات کے برعکس ٹراٹسکیسٹ متکب فکر لیننزم کے اصولوں پر کاربند ہے اور نظریاتی تشہیر کو سیاسی و معاشی سوال کی بنیاد سمجھتا ہے۔ انقلابی سوشلسٹ اسٹالنزم کو اسٹالن کی ذات تک محدود نہیں کرتے بلکہ اسے ایک باقاعدہ سیاسی فکر کے طور پر دیکھتے ہیں جس کے ساتھ ہمارے اسٹریٹیجک اختلافات ہیں یعنی ہم یہ سمجھتے ہیں کی اسٹالنزم کا طریقہ سیاست اصلاح پسندی کی ایک شکل ہے اور سرمایہ داری و سامراج کو مکمل طور پر مات دینے میں ناکام رہا ہے اور آگے بھی رہے گا۔ ان اختلافات پر بات کرنا اپنے موقف کو واضح کرنے کے لئے اشد ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں بہت سے ساتھی ایسے ہیں جو اسٹالنزم کے محنت کش تحریک پر اسٹریٹیجک اثرات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اسٹالن کو صحیح سمجھتے ہیں یا اس بحث سے ہی گھبراتے ہیں اور اسٹالن-ٹراٹسکی کی بےجا بائنری میں الجھ جاتے ہیں، مگر اس سب کے باوجود ایسے ساتھیوں کا طرز سیاست وہ نہیں جو اسٹالنسٹ کہلائے، لہٰذا ایسے ساتھیوں کو باوجود ان کی اسٹالن کے ساتھ ہمدردی کے، نظریاتی طور پر اسٹالنسٹ نہیں گردانا جا سکتا۔

وہ طرزِ سیاست پھر ہے کیا؟ ویسے تو اختلافات اتنے گہرے ہیں کہ انسان مطالعہ کرنے بیٹھے تو عمر گزر جائے۔ مگر مختصراً اگر بیان کیا جائے تو اسٹالنزم اصلاح پسندی کی ایک شکل ہے جس کی قیادت اور جس کے غالب خیالات و تصورات محنت کش تحریک کو طبقاتی مفاہمت کے ذریعہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ طبقاتی مفاہمت سے مراد یہاں حکمران طبقہ کے ایک یا دوسرے حصہ سے ہاتھ ملانا یا اس سے امیدیں وابستہ کرنا ہے۔ یہاں بنیادی مسئلہ بنیادی تضاد کے تصور پر ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پاکستان میں بنیادی تضاد فوجی قبضہ اور سیولین بالادستی کی کشمکش کا ہے۔ یہ مرحلہ وایریت کا مینشوک نظریہ ہے جو یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پاکستان جیسے نوآبادیاتی ملک میں حکمران طبقہ میں صرف صنعتکار نہیں ہیں بلکہ بڑے زمیندار اور قبائلی رہنما بھی ہیں جن کے ہوتے ہوئے لینڈ ریفارم جیسے بورژوا جمہوری حق کی فراہمی کا مطلب حکمران طبقہ کی ان پرتوں کی ذاتی ملکیت میں مداخلت کرنا ہے۔ لہٰذا اس حکمران طبقہ سے یہ امیدیں باندھنا کہ یہ کوئی بورژوا جمہوری انقلاب برپا کرے گا، خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ یہ پرتیں ان تمام پارٹیوں میں بھی پائی جاتی ہیں جنہیں اصلاح پسند فوج مخالف اور ترقی پسند سمجھتے ہیں (مثلاً نون لیگ، پیپلز پارٹی وغیرہ جو ہر اپنے اپنے دور میں تحریک انصاف کی برباد حکومت سے پہلے ہی آئی ایم ایف کے پاس جھولی پھیلائے پہنچ چکی تھیں اور آج اصلاح پسندوں کی نظر میں ترقی پسند ہو گئی ہیں۔ یاد رہے کہ طاقت کے نشہ میں غالباً تمام بورژوا پارٹیوں نے فوج سے بھی ہاتھ ملایا ہے۔)۔ اس کے برعکس انقلابی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مینشوک نظریہ ہر لحاظ سے محنت کشوں کے انقلاب سے غداری ہے اور محنت کشوں کے مفادات کو سامراج نواز سرمایہ داروں کے ماتحت لانے کا کردار ادا کرتا ہے۔ “معروضی حالات” کے نام پر یہ نظریہ ایک ایسے سیاسی کلچر کو پروان چڑھاتا ہے جو سیاسی عمل سے دوری اور کاہلی کو جواز فراہم کرے، جس میں اصلاح پسند اور سینٹرسٹ بس نہایت بےبس افراد ہیں۔ اس کاہلی کا عملی نتیجہ پھر یہ سامنے آتا ہے کہ اس خلا کو پر کرنے کے لئے پوسٹ ماڈرنزم اور نیو لیفٹ جیسے پیٹی بورژوا نظریات عوام میں مقبولیت پانے لگتے ہیں اور پیٹی بورژوا قیادت پیٹی بورژوا مفادات کا دفاع کرنے کے لئے سامنے آ جاتی ہے۔ انقلابی یہ سمجھتے ہیں کہ سامراجیت میں نیم نوآبادیاتی حیثیت کے سبب پاکستان میں وہ جمہوری نظام نہیں قائم ہو سکتا جو یورپ میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ فوج کا یہاں بالادست کردار ہے۔ مگر اس بالادست کردار کے باوجود انقلابیوں کو سیویلین اشرافیہ سے بھی کوئی امیدیں نہیں ہیں کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سیویلین اشرافیہ بھی حکمران طبقہ کا حصہ ہے۔ حکمران طبقہ کے مختلف دھڑوں کے مابین تضادات کا جنم لینا سرمایہ داری کی منطق کے عین مطابق ہے۔ اور بحیثیت انقلابی یہ ہمارا بنیادی فرض ہے کہ حکمران طبقہ کے دھڑوں کی کشمکش کا حصہ بننے یا ایک یا دوسرے دھڑے سے ہمدردی کا اظہار کرنے کے بجائے ہم ان تضادات اور کشکمکش کو تیز کریں۔ لہٰذا 2014 میں جب حکومت کے خلاف عوام میں غصہ پایا جاتا ہے تو عوام کے پاس جا کر انہیں فلائر کے ذریعہ یہ پیغام دینا کہ بغیر سرمایہ داری مخالف سیاست کے کرپشن کو نہیں روکا جا سکتا، عین انقلابی عمل ہے۔ فرقہ پروروں کو تو مشکل ہے یہ بات سمجھ آئے کیونکہ انہیں عادت ہے قیادت کی بنا پر عوامی تحریکوں کو رد کرنے کی۔ مگر کچھ تحریک سے مخلص ساتھیوں میں بھی اس حوالہ سے ابہام پائے جاتے ہیں۔ عوامی مظاہروں میں سرمایہ داری مخالف فلائر کی تقسیم کو ایک سینٹرسٹ تنظیم کے ایک سرمایہ دارانہ جماعت میں نام نہاد اینٹری ٹیکٹک سے شبیہ دینا اور یہ کہنا کہ پاکستان تحریک انصاف میں انقلاب ڈھونڈ رہے تھے، بددیانتی یا سیاسی بصیرت کی عدم موجودگی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

انقلابیوں کے لئے دنیا کے ہر ملک میں خواہ وہ سامراج ہو یا نیم نو آبادی، بنیادی تضاد طبقاتی تضاد ہے۔ یہ تضاد کبھی قومی تحریکوں کی شکل لے لیتا ہے تو کبھی مذہبی جبر کے خلاف تحریکوں کی شکل جیسا کہ بھارت میں ہے۔ لیکن تضاد ہمیشہ طبقاتی ہی رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاح پسندوں کی شدید لعن طعن کے باوجود انقلابی کسی بھی اتحاد میں بورژوا طبقہ کی تنظیموں کی شمولیت کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے محنت کش طبقہ کے مفادات کا دفاع کیونکہ ہم نے مارکسزم سے یہی سیکھا ہے کہ بورژوا طبقہ کے ایک بھی فرد کی شمولیت اتحاد کو بورژوا طبقہ کے مفادات کے ماتحت لائے گی اور یہ مزدور تحریک کے لئے خود کشی سے کم نہ ہوگا۔ تاریخ اس کی مثالوں سے بھری پڑی ہے مگراس کی ایک مثال میرا لاہور لیٖفٹ فرنٹ میں تجربہ بھی ہے کہ جس میں پیپلز پارٹی کے ایک نمائندے کی خواہش پر اس محاذ میں موجود اصلاح پسندوں اور سینٹرسٹوں نے کشمیریوں پر پاکستانی پولیس کی بربیت کے خلاف احتجاج کرنے سے انکار کر دیا۔ پیپلز پارٹی کے اس نمائندے کے مطابق، “کشمیر پنجاب کے لئے کوئی متعلقہ موضوع نہیں”۔

البتہ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ انقلابیوں کا رویہ حکمران طبقہ کی جانب مختلف ہوتا ہے اور اصلاح پسندوں اور سینٹرسٹوں سے مختلف۔ محنت کش طبقہ کے مفادات کے دفاع کے لئے ہم اصلاح پسندوں کے ساتھ مخصوص حالات میں عمل میں جڑ بھی جاتے ہیں تاکہ حکمران طبقہ کے حملوں کا مل کر مقابلہ کیا جا سکے۔ مگر یہ واضح رہے کہ یہ جڑت عمل کی حد تک ہوتی ہے اور کسی قسم کی پروگرام پر رعایت کے بغٰر ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انقلابی فرقہ پرور نہیں ہوتے اور اصولوں اور پروگرام پر سمجھوتہ کئے بغیر اپنی ذاتی پسند ناپسند پر محنت کش طبقہ کے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو لوگ اس قسم کی فرقہ واریت میں پڑتے ہیں، ان کے لئے کامریڈ لینن نے لکھا ہے:

Only those who are not sure of themselves can fear to enter into temporary alliances even with unreliable people; not a single political party could exist without such alliances. (What Is To Be Done? Burning Questions of Our Movement by VI Lenin)

ہم کام بھی محنت کشوں میں ہی کرتے ہیں اور یقیناً ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ مڈل کلاس کے ایکٹسوٹوں کو بھی انقلابی سوشلزم کے پروگرام پر جیت سکیں۔ اکثر اس انقلابی کام کو سازش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مگر یہ کام ہم اپنی ذاتی تشہیر کے لئے نہیں کرتے بلکہ محنت کشوں کی تحریک کو تعمیر کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ اگر اس انقلابی عمل کو اپنے سیاسی دیوالیہ پن کو پردہ دینے کے لئے سازش کہا جائے تو انقلابیوں کو پروا کئے بغیر اپنا کام جاری رکھنا چاہئے۔ اس کے علاوہ اس قسم کے حملے کرنے والوں کو اینٹری ٹیکٹک کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ کس طرح شدید سیاسی جبر کے حالات میں انقلابی کام کرنے کے لئے کس قسم کے ٹیکٹکس کی ضرورت پڑی۔ حیرت انگیز طور پر معاملہ آج بھی زیادہ مختلف نہیں ہے کیونکہ اکثر انقلابیوں کا یہی معاملہ رہا ہے کہ ریاست سے پہلے ان پر اصلاح پسندوں اور اصلاح پسندوں کی آو بھگت کرنے والوں کے حملوں کی بارش ہوتی ہے۔ نظریاتی عدم تحفظ اور دیوالیہ پن کا جواب انقلابیوں کوالگ تھلگ کر کے دیا جاتا ہے کیونکہ نظریاتی کام، جو لیننزم کی بنیاد ہے، ہمیشہ سے ان کی کمزوری رہا ہے۔ اس قسم کے الزامات لگانے اور حملے کرنے کے بجائے ساتھیوں کو چاہئے کہ وہ بتائیں کہ ان کا انقلابیوں سے پروگرام پر کیا اختلاف ہے۔ اگر آپ اپنے پروگرام پر ثابت قدم ہیں اور اسے درست تصور کرتے ہیں تو آپ کو گھبرانا بھی نہیں چاہئے کہ آپ کے ممبران کو کوئی “چرا” لے جائے گا۔ انقلابی تو ہر نئے ممبر کا حوصلہ بڑھاتے ہیں کہ جاؤ، سب سے بحث کرو اور اگر کسی سے متاثر بھی ہو جاؤ تو آ کر ہمیں بھی بحث کے ذریعہ متاثر کرو۔ البتہ ایسا کرنے کے لئے دراصل ایک پرگرام درکار ہوتا ہے اور اپنے نظریات کی وہ پختگی جس کی کامریڈ لینن نے بات کی ہے۔

انقلابیوں کے لئے اس وقت وہی اندرونی بحران کھڑا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے وقت انقلابیوں کو درپیش تھا، یعنی انقلابی قیادت کا بحران۔ اور اس کی سب سے بڑی مثال یہی ہے کہ ملک بھر میں حتیٰ کہ دنیا بھر میں عوام نظام کے خلاف حرکت میں آ رہے ہیں مگر لیفٹ باقاعدہ قیادت فراہم کرنے میں ناکام ہے اور بس یوں ہی خودرو احتجاجات ہوتے رہیں گے اور پھر ریاستیں جارحانہ انداز میں ان زبردست تحریکوں کو کچل ڈالیں گی۔ اس بحران کو حل کرنے کی پہلی شرط ایک انقلابی پروگرام ہے جو محنت کش عوام کے شعور پر اسی طرح اثر انداز ہو جیسے بالشیوکی نے کیا۔ اصلاح پسندوں، بالخصوص اسٹالنسٹوں نے تاریخ سے اگر کچھ سیکھا ہوتا تو آج بھی یوں ہی ضد پکڑے، بنا کسی کنکریٹ عملی جدہوجہد کے پروگرام کے سیاست نہ کر رہے ہوتے اور دیگر انقلابیوں سے رابطے کر کے ایک انقلابی پروگرام پر ایک انقلابی پارٹی تشکیل دے رہے ہوتے۔ کوئی بھی چھوٹا ٹراٹسکیسٹ گروپ خواہ کتنی ہی بڑی بڑی باتیں کر لے، انقلابی پارٹی کی تعمیر کا کام اکیلے نہیں کر سکتا۔ اپنی ممبرشپ کو بڑھا چڑھا کر بیان کر کے آپ صرف خود فریبی سے کام لے رہے ہیں۔ ہمیں باقاعدہ ٹرینڈ کیڈرز درکار ہیں اگر ہم حقیقتاً انقلابی پارٹی تعمیر کرنے کے معاملہ پر سنجیدہ ہیں، اور اس سنجیدگی کا پہلا اظہار انقلابی پروگرام کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ انقلابی پروگرام کا ہی فقدان ہے کہ لیفٹ کے بیشتر لوگ لاہور میں برمش کے لئے احتجاج میں نہیں نکلتے۔ لہٰذا سرمایہ داری اور سامراج کے بحران کے خلاف اب یہ پہلے سے بھی زیادہ لازم ہے کہ انقلابی پروگرام لکھا جائے، اس کو لکھنے کے عمل میں تفصیلی بحث مباحثے ہوں اور پھر ایک باقاعدہ انقلابی پارٹی تعمیر کی جائے جس کی قیادت میں محنت کش اپنا انقلاب برپا کریں۔ ماضی کے ناسٹالژیا میں انسان جب تک چاہے رہ سکتا ہے اور اس کی بنا پر دوسروں کو کام نہ کرنے کے طعنے دے سکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم تاریخ اٹھائیں تو کسی بھی انقلابی تنظیم نے اپنے اوائل میں اپنے کام کی اس طرح تشہیر نہ کی جیسے نیو لیفٹ اور اصلاح پسند کر سکتے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں جو سنجیدہ سیاسی کام کرنے والوں کو بہت اچھی طرح معلوم ہوتی ہیں۔  اسٹالن ٹراٹسکی کی بائنری تعمیر کرنے سے اور اس بحث کے اسٹریٹجک پہلووں سے بھاگتے رہنے سے ہم کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ ماضی میں آپ کے بڑوں نے زبردست کام کیا ہوگا مگر آج وہ بھی 50 سے زیادہ افراد بمشکل جمع کر پاتے ہیں اپنے احتجاجات میں۔ اس کے علاوہ تاریخ وہ امتحان ہے جو ہمارے خیالات اور نظریات کو صحیح یا درست ثابت کرتی ہے۔ لہٰذا ماضی کے رومانس سے نکل آئیں اور تاریخ سے سیکھتے ہوئے حال پر توجہ دیں۔ جو ساتھی آپ کے ساتھ مل کر آج کام کرنا چاہتے ہیں ان سے دیانت داری کے ساتھ کھلے دل کے ساتھ بحث مباحثے کیجئے تاکہ ہم آگے بڑھ سکیں۔