تحریر وقار فیاض

پی ڈی ایم نے مختلف احتجاجی جلسوں میں اپنی بساط کے مطابق بھرپور قوت کا اظہار بھی کیا اوربیانیہ یہ دیا گیا کہ عوام مہنگائی اور دیگر مسائل میں اس بری طرح سے گھر چکی ہے اس لیئے ہم عوام کے درد کو سمجھتے ہوئے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ یہ بیانیہ بالکل اُس سے ملتا جلتا ہے جو پی ٹی آئی نے بحیثیت اپوزیشن رکھا تھا جب وہ اقتدار میں نہیں تھے کہ عوام اس لیئے بدحالی کا شکار ہیں کیونکہ روزانہ بیس ارب روپے کی کرپشن اُس وقت کی حکومتیں کر رہی ہیں اور ٹیکسوں کے پیسے سے حکمران مزے کر رہے ہیں اور ہم حکومت میں آکر چونکہ اس کا خاتمہ کر دیں گے اس لیئے عوام کو خوشحال کر دیں گے۔ یہ خوش کن باتیں پاکستان کی بالخصوص ڈگری ہولڈر مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کو بہت بھائیں کہ جب پرانی سیاسی جماعتوں کو اُلٹا لٹکا دیا جائے گا تو ملک میں زبردست صنعت کاری ہو گی اور بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان میں آئیں گی جس میں ان سب کو اعلی نوکریاں ملیں گی جس سے ان کی زندگیوں میں ناقابل یقین خوشحالی آئے گی گو کہ پی ٹی آئی نے نہ تو کوئی ٹھوس اور قابل عمل طریقہ کار بتایا تھااور نہ ہی کبھی کوئی شیڈو بجٹ بنا یا تھا اور نہ ہی کبھی آئی ایم ایف سے بچنے کا اور اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کا طریقہ کار بتایا تھا۔جب کہ اگر دیکھا جائے تو کسی کی مجبوری یا محرومی کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے لیکن پاکستان میں کرپشن کی تعریف محض سول اداروں اور محکموں میں کی گئی مالی خردبرد ہی ہے۔ ان تمام باتوں کا مرکزصرف یہ تھا کہ عمران خان کو اقتدار دلا دو سب ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ اگر ایک ایماندار شخص اوپر آ جائے تو نیچے سب ٹھیک ہو جاتا ہے یعنی کہ سرمایہ داری نظام میں اور اس کے انتظامی اسٹرکچر میں کچھ بھی خامی نہیں ہے جبکہ نظام توبہترین ہے اور مسئلہ صرف چند لوگوں کو تبدیل کرنے کا ہے۔پاکستان کے باشعور اور ترقی پسنددانشورطبقہ (ظاہر ہے اس میں ٹی وی ٹاک شو کے شوبز دانشوروں کی بات نہیں ہو رہی) اس بات کو سختی سے رد کر رہا تھے کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ نظام ہمیشہ شخصیات پر حاوی ہو جاتاہے اس لیئے اگر حقیقی بہتری چاہتے ہو تو نظام کو بدلو نہ کہ شخصیات کو لیکن اس پر تو کام ہی نہیں ہوا تھا۔اس کے علاوہ ایک اور اہم بات جس کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا وہ حکمران طبقہ کی تعریف تھی۔ پاکستان میں حکمران طبقہ صرف حکمران سیاسی جماعت کو کہا گیا جبکہ حقیقت میں حکمران جماعت جسکی مدد اور تعاون سے حکومت کر رہی ہوتی ہے وہ حکمران طبقہ کا ایک بہت بڑا دھڑا ہوتا ہے اور یہ سب ملکر حکمران طبقہ کہلاتا ہے اس کے کسی ایک خاص حصہ کو ہم مکمل طور پر حکمران طبقہ نہیں کہہ سکتے۔ اس طرح پاکستان میں پارلیمان اور اُس میں شامل مختلف سیاسی جماعتیں، عدلیہ، اہم سول اور دفاعی محکموں کے عہدیدار، بڑے سرمایہ دار،ملکی اور غیر ملکی کارپوریشنوں کے عہدیدار بلکہ بڑے زمیندار اور وڈیرے بھی اس میں شامل ہوتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ یہ تمام اس میں سیاسی جماعتوں کو اس نظام کو چلانے کا انتظام دیتے ہیں تاکہ یہ سیاسی جماعتیں محنت کش عوام کو مطمن رکھنا رکھیں اور اس کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی فورم پر ا ن کے ترجمان کے طور پر پیش ہوتے ہیں کیونکہ ان کو جمہوری حکومت کے طور پر پہچانا جاتا ہے حالانکہ پاکستان میں جو حکومت ایک سے ڈیڑھ کروڑ ووٹ حاصل کر لے وہ بائیس کروڑ عوام کی نمائندہ جماعت کہلائی جاتی ہے جبکہ حقیقی نمائندگی کے لیئے کم از کم بارہ سے پندرہ کروڑ ووٹ تو ضرور ہونے چاہیں ہیں۔ اس لیئے کوئی بھی سیاسی جماعت اتنی مضبوط نہیں ہوتی کہ وہ اسٹبلشمنٹ کو اپنے تابع کرسکے کیونکہ اس کے لیئے عوم کی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے جو یہ سماجی تبدیلی لا سکتی ہے لیکن ان جماعتوں کا سماجی تبدیلی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتاکیونکہ اگر دیکھا جائے تو جماعت کسی حکمران طبقہ کے مفادات کے تحفظ کے لیئے وجود میں آتی ہے۔ موجودہ جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں یہ اُسی حکمران مختلف دھڑوں کے مفادات کے تحفظ کے لیئے تعمیر کی جاتی ہیں اور پھر ان کو عوامی بنا کر میڈیا اور دوسرے زرائع سے عوامی سیاسی جماعت بنایا جاتا ہے جبکہ حقیقی محنت کش طبقہ کی جماعت محنت کش عوام کے مسائل کے لیئے ایک حل پیش کرتی ہے جس کو اگر پزیرائی حاصل ہو تومحنت کش عوام اس میں شامل ہو جاتے ہیں اور اسکی نہ صرف خودتنظیم سازی کرتے ہیں بلکہ اس کو خود چلاتے ہیں اور اس سے یہ کسی کو اقتدار میں نہیں لاتے بلکہ خود اقتدار میں آتے ہیں۔ محنت کشوں کی جماعت شخصیات کے لیئے نہیں بلکہ نظریات کے اطلاق کے لیئے جدوجہد کرتی ہے۔ یہ اُن تمام لوگوں کے لیئے جو ورکنگ کلاس،کسان اور دیگر محروم طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اُنکی نمائندہ جماعت ہوتی ہے اور اُنکے حقوق کے تحفظ کے لیئے وجود میں آتی ہے اور اس کی مثال آپکو دنیا بھر کی لیبر اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں میں مل سکتی ہے جو اسی طرح وجود میں آئیں تھیں (لیکن یہ بھی چونکہ موجودہ سرمایہ داری نظام میں حل دیکھتی ہیں تو یہ اسی جماعتیں بن جاتی ہے جو محنت کشوں کو اپنی جماعت میں لانے کے لیے ان کے مفاد میں نعرہ بازی تو ضرورکرتی ہے لیکن یہ اسی نظام میں سرمایہ دار طبقہ کے لیے کام کرتی ہیں اور دیگر پارٹیوں کے طرح کی ہی پاپولسٹ پارٹیاں بن جاتی ہیں۔ اس کی ایک قریب ترین مثال پاکستان میں پیپلز پارٹی کی ہے جو ریڈیکل نظریات کے ساتھ وجود میں آئی لیکن اس کے نظریات اس نظام سے آگے نہیں جاتے تھے اس لیے پہلے بھی یہ پارٹی اس نظام کا دفاع محنت کشوں کو مراعات دئے کررہی تھی اور آج بھی محنت کشوں کا نام لے کران پر نیولبر ل حملے کررہی ہے۔
محنت کشوں کی انقلابی پارٹی ہی ان کے مفاد میں کام کرسکتی ہے اسے اس نظام سے کو جڑ سے اکھاڑ پھکنے کی ضرورت ہے۔آئیے اب اس تناظر میں ہم موجودہ پاکستانی سیاسی منظر نامہ کو دیکھتے ہیں۔ موجودہ سیاسی اُفق پر ہم کو اُوپر بیان کردہ کوئی بھی عوامی مفادات کی سیاسی جماعت نظر ہی نہیں آتی یہ تمام کسی نہ کسی طریقہ سے یا تو مکمل طور پر اُن دھڑوں کی تخلیق کردہ ہیں یا پھر کم از کم اُن کے مفادات کے تحفظ کی نگران ہیں جب کبھی ان کی اپنے مفادات کے لیئے باقی دھڑوں سے ان بن ہو جاتی ہے تو باقی دھڑے اُنکو دُودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیتے ہیں اور پھر کسی اور کی باری آجاتی ہے اور یہ سب کچھ بظاہر عوامی مفاد اور ملکی سلامتی کے لیئے ہوتا ہے۔اب عتاب زدہ جماعت اندرون خانہ باقی دھڑوں یا اُس میں سے کسی ایک دھڑے سے سازباز شروع کرتی ہے اور صاحب اقتدار سیاسی جماعت اور باقی دھڑوں کو دباو میں لانے کے لیئے عوامی مشکلات اور محرومیوں کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مظاہروں اور جلسوں کا اہتمام کرتی ہے تاکہ باقی کے حکمران دھڑوں کو یہ باور کرایا جاسکے کہ ہمیں واپس اقتدار میں لایا جائے کیونکہ اب بپھرے ہوئے عوم کو وہی سنبھالنے کی پوزیشن میں ہیں۔ یہ سیاسی دھرنے اور جلسے جلوس اسی لیئے کیئے جاتے ہیں کیونکہ اگر ہم دیکھیں تو موجودہ اپوزیشن کوئی بھی ایسا پروگرام دینے سے مکمل طور پر قاصر ہے جو عوامی مشکلات کا حل ہو اور تمام زور صرف اور صرف اس بات میں ہے کہ موجودہ حکومت کو ہٹا کر ہمیں اقتدار دلا دو اور یہی سب کچھ موجودہ حکومت نے اپنے اپوزیشن کے دور میں کیا تھا۔ اگر واقعی انکو عوامی مشکلات کا درد ہوتا تو وہ دھرنا جو ہزاروں کی تعداد میں مزدوروں، لیڈی ہیلتھ ورکرز، پیرا میڈیکل سٹاف، ینگ ڈاکٹرز اور دیگر محنت کشوں نے اسلام آباد میں دیا ہوا ہے یہ اُسکا حصہ بنتے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو براہ راست اپنی مشکلات کے تدارک کیلے سراپہ احتجاج ہیں اور لڑ رہے ہیں یہ ان کو اپنی تحریک کا ہراول دستہ بناتے اور اُنکے پیچھے خود کھڑے ہوتے اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں طلباء کے سکالر شپ ختم کردیئے گئے ہیں ان میں وہ بلوچ طلباء بھی ہیں جن کو آغاز حقوق بلوچستان کے تحت تعلیم کیلے وظائف ملتے تھے وہ اس موجودہ حکومت نے ختم کردیئے جس کو اس کے اپوزیشن کے دور میں سب سے زیادہ مروُڑ تعلیم اور صحت کے کم بجٹ پر اُٹھتے تھے یہ مسئلہ بھی آج کی متحدہ اپوزیشن کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے حالانکہ یہ پیپلز پارٹی کے دور میں ہی شروع ہوا تھا۔
اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ ان جلسوں کی الیکٹرانک میڈیا پر ایک میراتھن ٹرانسمیشن پیش کی گئی اور نام نہاد تجزیہ نگاروں کو بٹھا کر سیاسی دنگل بنایا گیا اور اس کی آڑ میں کمائی کی گئی جبکہ اسکے دسویں حصے کے برابر بھی اسلام آباد میں محنت کشوں کے دھرنے کو کوریج نہیں دی گئی اور نہ ہی بہاوالدین یونیورسٹی کے اُن بلوچ طلباء کو کوریج دی گئی جو ملتان سے اسلام آباد اپنے سکالرشپ کی بحالی کیلے پیدل لانگ مارچ کر رہے تھے یا جو ملتان سے کوئٹہ لانگ مارچ کر ہے تھے یا جو پنجاب یونیورسٹی کے گیٹ یا گورنر ہاوس کے باہر دھرنا دیئے ہوئے تھے۔یاد رہے جب سیاست اور صحافت عوام سے اتنی بیگانگی اختیار کر لیتے ہیں تو پھر عوام کا بھی اُن سے مکمل اعتبار اُٹھ جاتا ہے اور وہ بھی ویسی ہی بیگانگی اختیار کر لیتے ہیں پھر اسکا نتیجہ انقلاب ہوتا ہے جو آج کل لبنان میں، کزغزستان میں، چلی میں اور کئی دیگر ممالک میں ہو رہا ہے۔