منرویٰ طاہر

پاکستان کے صدر عارف علوی نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ سندھ کے دو اہم جزائر، بنڈال اور بدو جنہیں مقامی زبان میں بھنڈار اور ڈنگی کے نام سے جانا جاتا ہے،اس کا کنٹرول وفاقی حکومت کے سپرد کر دیا۔ مقامی ماہی گیروں میں ریاست کے اس اقدام کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، جس کا اظہار مختلف احتجاجات کی صورت میں کیا جا رہا ہے۔
بھنڈار اور ڈنگی دو جزائر ہیں جو کراچی کے ساحل پر واقع ہیں۔ پاکستان فشرفوک فورم کے مطابق یہ تاریخ میں تیسری مرتبہ ہے کہ ان جزائر پر شہر تعمیر کرنے کے منصوبے حکومتوں کی جانب سے بنائے گئے۔ سرکار چاہتی ہے کہ ان جزائر پر شہر بنائے جائیں تاکہ انہیں تجارت اور سرمایہ کاری کے مراکز میں تبدیل کر کے عالمی منڈی کے لئے کھولا جائے۔ اس نام نہاد ترقی کے مقامی باسیوں اور ماحول پر اثرات سے نیولبرل سرمایہ دار سرکار کو کوئی غرض نہیں کیونکہ ان کے لئے انسانی قوتِ محنت کی طرح قدرتی وسائل حکمران طبقہ کی لونڈیاں ہیں جن کا وہ جس قدر چاہیں استحصال کریں۔ یہ جزائر سندھو دریا کے ڈیلٹا کا حصہ ہیں اور سرد ممالک سے ہجرت کرنے والے مہمان پرندوں کی پناہ گاہ ہیں۔ یہاں شہر آباد کرنے سے ساحلی ماحولیاتی نظام، یعنی ایکو سسٹم، پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے، جس کا خمیازہ وہاں کی مقامی ماہی گیر آبادی کو بھگتنا پڑے گا۔ جزائر پر شہروں کی تعمیر سے سمندری حیات کی تباہی بھی ناگزیر ہوجائے گی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ قدرت کے ساتھ اس قسم کے کھلواڑ کے نتیجہ میں سندھ کے ساحلی مینگروو بھی متاثر ہوں گے، جس کے سبب کراچی سمیت تمام ساحلی علاقہ پر طوفانوں اور سونامی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ یاد رہے کہ کراچی پہلے ہی زلزلہ کی فالٹ لائن کے بہت نزدیک ہے، جس کے سبب طوفان اور سونامی کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ ان خطرات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کراچی جیسے شہر میں اونچی عمارتیں تعمیر ہونی ہی نہیں چاہئے تھیں مگر حکمران طبقہ کو انسانی جان و ضروریات کا کب پاس رہا ہے۔ اس طبقہ کو صرف منافع کی ریل پیل سے غرض ہے لہٰذا یکے بعد دیگرے یہاں تعمیراتی منصوبے بنتے گئے اور حکمرانوں کی عیاشیوں کا سامان کرتے رہے۔ اس ناقابلِ فراموش حقیقت کے بعد یہی حکمران طبقہ اب نئے پراجیکٹ بنانا چاہتا ہے ان جزائر پر جس کے ماحول کا تحفظ کیا جانا چاہئے۔ یہ ترقیاتی پراجیکٹ مقامی آبادی کی اپنے گھروں اور روزگار سے بیدخلی پر تعمیر کئے جائیں گے مگر لاکھوں باسیوں کی بیدخلی سے ان کو کیا غرض جن کے لئے قدرتی وسائل بھی ان کی طبقاتی اقلیت کی نجی ملکیت ہیں۔
اس وقت وفاقی حکومت اور سندھ کی صوبائی حکومت کے مابین جزائر کے مسئلہ کو لے کر تصادم موجود ہے۔ صوبائی حکومت جزائر کے مقامی باسیوں کی نمائندہ بننے میں بھی کوشاں نظر آئی۔ مگر ان کا ڈھونگ عوام پر واضح ہے کیونکہ سامراج کی دلال یہی پاکستان پیپلز پارٹی تھی جس نے 2013 میں یہ جزائر امریکی کمپنی اور ملک ریاض کو بیچنے کا معاہدہ کیا تھا، جسے پھر عوامی مزاحمت کے نتیجہ میں ناکامی کا سامنا رہا۔ اسی طرح یہی پی پی پی کی حکومت تھی جس نے فرنٹیئر ورکس ارگنائزیشن سمیت دیگر کمپنیوں کو تھرپارکر کے کارونجھر پہاڑی سلسلہ سے قیمتی پتھر کاٹنے اور معدنیات نکالنے کی کھلی چھوٹ دی، جس پر پھر عدالتِ عظمیٰ میں کیس بھی چلا۔ نتیجہ پھر وہی تھا کہ مقامی انسانی و حیوانی آبادی کو ماحولیاتی اثرات کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ یہاں واضح ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے مابین حالیہ تصادم حکمران طبقہ کی مختلف پرتوں کی وسائل کی لوٹ کھسوٹ پر اندرونی لڑائی سے زیادہ کچھ نہیں۔ سندھ کی حکمران اشرافیہ چاہتی ہے کہ وہ اکیلے ہی سندھ کے وسائل پر راج کرے جبکہ وفاق کے حکمران طبقہ کو بھی اس میں اپنا حصہ چاہئے۔ دونوں صورتوں میں ماحولیاتی تباہی اور مقامی آبادی پر جبر ناگزیر ہے۔ البتہ سندھ گورنر عمران اسمٰعیل کی یہ ضمانت کہ بھنڈار اور ڈنگی جزائر پر کوئی ترقیاتی کام صوبائی حکومت کی رضا کے بغیر نہیں ہوگا نشاندہی کر رہی ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومت مل کر دونوں ہاتھوں سے جزائر کے وسائل لوٹنے کی تیاری میں سرگرم ہیں۔
خستہ حال معیشت اور سامراجی دلالی کی تیاریاں
سامراجی عہد میں پاکستان کی نیم نوآبادیاتی حیثیت اور موجودہ معاشی بحران کے سبب یہ واضح ہے کہ اگر جزائر پر ترقیاتی منصوبے تعمیر کرنے بھی ہیں تو دیوالیہ ریاست کے پاس ان کی تکمیل کے لئے اپنے کوئی وسائل نہیں۔ خسارے اور آئی ایم ایف کے اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کے بعد ایک ہی طریقہ ہے جس سے ایسے ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے، اور وہ ہے بیرونی امداد اور سرمایہ کاری۔ پاکستان کے دیگر علاقوں میں اس کی بے شمارمثالیں موجود ہیں، جن میں سرِ فہرست پاک چین اقتصادی راہداری یعنی سی پیک معاہدہ کے تحت تعمیر کئے جانے والے ترقیاتی منصوبے ہیں۔ مزید وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی سندھ کے جزائر پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ” سری لنکا نے امریکہ کی 14 ارب ڈالر کی براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری سے ایک ہزار ایکڑ سے کم کی زمین پر بندرگاہ شہر تعمیر کیا، ہمارے پاس تو کراچی میں آٹھ ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین ہے اور اگر ہمیں بھی کہیں سے 14 ارب ڈالر مل جائیں تو اس منصوبہ کے نتائج کا سوچیں، ڈیڑھ لاکھ نوکریاں پیدا ہوں گی”۔ عمران خان نے مزید کہا کہ دنیا بھر سے اس منصوبہ میں دلچسپی لی جا رہی ہے اور ہم تقریباً 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی امید کرتے ہیں لہٰذا اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ وزیرِ اعظم صاحب کے نوکریوں کے حوالہ سے تاریخی ڈھکوسلے بازی سے قطع نظر، انہوں نے بہر حال حکمران طبقہ کے عزائم سچائی سے یہاں واضح کر دیئے ہیں جب انہوں نے 50 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کی بات بنا کسی لگی لپٹی کے کر ڈالی ہے۔
یہاں سے یہ واضح ہے کہ اگر جزائر پر اب ترقیاتی منصوبے شروع ہوتے ہیں تو وہ سامراجی دلالی کے عہد کی نئی معراج ہوگی جس کے نتائج مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی صورت میں ملک بھر کے محنت کش عوام اور شہری و دیہی غرباء کو بھگتنا ہوں گے۔ پاکستانی ریاست کے دیوالیہ پن اور کھوکھلے پن کی اس سے بہتر مثال آج موجود نہیں۔
ریاستی جبر کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
ماضی میں بھنڈار اور ڈنگی پر ریاستی حملوں کا مقابلہ مقامی آبادی نے مزاحمت کے ذریعہ کیا ہے اور یہ تسلسل آج بھی جاری ہے۔ مختلف احتجاجات ہو چکے ہیں اور مزید ابھی ہونے جا رہے ہیں۔ مگر ہم آج یہ بھی جانتے ہیں کہ پہلے کے حالات کے بِال مقابل آج کی ریاست کہیں زیادہ خستہ حالی کا شکار اور کھوکھلی ہے لہٰذا اس کے حملوں کی شدت بھی اب پہلے کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے۔ ملک بھر میں نظام کے جبر کے خلاف مختلف تحریکیں ابھر رہی ہیں اور ریاست ان کو کچلنے کے لئے جارحیت و بربریت کا سہارا لے رہی ہے۔ ایسے میں سندھ کے جزائر کو بچانے کے لئے اب یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ الگ الگ احتجاجات کرنے کے بجائے بائیں بازو کی قوتیں متحد ہو کر ایک عملی محاذ تشکیل دیں۔ انقلابی پارٹی اور محنت کشوں کی انقلابی قیادت کے فقدان کے سبب لیفٹ کی قوتِ بازو اس وقت ریاست کے مقابلے میں کمزور ہے۔ لہٰذا ریاست کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے عمل کے متحدہ محاذ کی تشکیل آج کے عہد کی ضرورت ہے۔ ہم لیفٹ کی تنظیموں اور ٹریڈ یونینوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ جزائر کے تحفظ کی تحریک سے جڑیں اور اسے تعمیر کریں تاکہ فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام کے حملوں کو شکست دیتے ہوئے ہم اس نظام کے تختہ الٹنے اور ایک منصفانہ سوشلسٹ نظام کی تعمیر کے حالات کو سازگار بنا سکیں۔