طالبعلم ساتھیوں!
تعلیمی اداروں کی نجکاری، فیسوں میں اضافے، ہاسٹل یعنی طلباء کے رہائش کے حق پر حملے، اسکالرشپ کے خاتمے، تعلیمی اداروں میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بڑھتے ہوئے شرم ناک واقعات، غیر معیاری تعلیمی نصاب، تربیت یافتہ اساتذہ کا فقدان، اور ڈگریاں مکمل کرنے پر نوکریاں کا میسر نہ ہونا وہ مسائل ہیں جو طلباء کی اکثریت کو اس ملک میں درپیش ہیں کیونکہ طلباء کی اکثریت کا تعلق زیادہ تر غریب اور محنت کش خاندانوں سے ہوتا ہے۔ اس لیے حکومت کو ان مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس کا مقصد صرف بڑے سرمایہ داروں کے مفاد کا خیال رکھنا ہے۔
ہم طلباء تحریک کے تمام مطالبات کی حمایت کرتے ہیں اور ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی طاقت جدوجہد میں اکھٹا ہونے میں ہے۔ حکومت سرمایہ داروں کو بڑے بیل آوٹ پیکج دینے کے لیے طلباء اور محنت کشوں کی مراعات پر حملہ آور ہے تو ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے طلباء کے متحدہ محاذ کو از سرِ نو منظم کیا جائے اور یہ محنت کش طبقہ کی جدوجہد کے ساتھ جڑے۔ ایسے متحدہ محاذ کو محض سالانہ پروگرام منعقد کرنے سے آگے جانا ہوگا اور ملک گیر جدوجہد کا ہر اول دستہ بنتے ہوئے ایک باقاعدہ تحریک کاآغاز کرنا ہوگا۔
سرمایہ داری نظام اب اپنی عمر پوری کر چکا ہے اور محنت کشوں، خواتین و جنسی اقلیتوں، نوجوانوں، بچوں، مظلوم اقوام کے علاوہ دیگر اقلیتوں پر بڑے حملے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اس نظام میں اب بہتری کی گنجائش ہی نہیں یا یہ کہ یہ عوام کی اکثریت کو اس کے بنیادی حقوق فراہم کر سکے۔
ہم طلباء سے اپیل کرتے ہیں کہ اس نظام کے خاتمہ کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور طلباء تحریک جیسی بنیادی جمہوری حقوق کی تحریکوں کو اس نکتہ کے گرد تعمیر کریں کہ حکمران طبقہ کا مفاد ہی نہیں کہ یہ طلباء کے مسائل حل کرے۔ لہٰذا اب جدوجہد ہی واحد حل ہے۔ ڈاؤ میڈیکل کالج کے بوائز ہاسٹل کا معاملہ ہو، کوئٹہ میں بولان میڈیکل کالج کی حیثیت کا معاملہ ہو، اسلامیہ یونیورسٹی پشاور میں خواتین طلباء کا جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف احتجاج یا بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے بلوچ اور پشتون طلباء کی جدوجہد ہو، ان سب مثالوں سے واضح ہے کہ حکمران طبقہ صرف اسی صورت میں کوئی جمہوری حق عوام کو دیتا ہے جب اسے جدوجہد کے ذریعہ اس پر مجبور کیا جائے۔ لہٰذا ہم طلباء سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے حکمران طبقہ سے امید لگانے کے بجائے تعلیمی اداروں میں اپنی جدوجہد کی کمیٹیاں تشکیل دیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ طلباء کی ایک انقلابی تنظیم تشکیل دی جائے جو سرمایہ داری مخالف اور سامراج مخالف ہو اور سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد کرے تاکہ نوجوانوں کو متحرک کرتے ہوئے محنت کش تحریک کی تعمیر کو تقویت و معاونت فراہم کی جا سکے اور نظام کے حملوں کا مل کر مقابلہ کیا جا سکے۔ جدوجہد کے اس راستہ میں ہمارا کا ساتھ دیں کیونکہ مستقبل سرخ ہے!
مطالبات
طلباء یونین پر عائد پابندی کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام تعلیمی اداروں میں فوری طور پر یونین کے الیکشن کروائے جائیں۔
تعلیمی اداروں میں حلف نامے کا خاتمہ کرکے کیمپس کے اندر طلباء کی سیاسی و ادبی سرگرمیوں پر پابندی فی الفور اٹھائی جائے اور طلباء کو منظم یونین سازی کا حق دیا جائے۔
طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کرکے یکساں اور مفت تعلیم فراہم کی جائے اور تمام نجی تعلیمی اداروں کو سرکاری تحویل میں لیا جائے۔
یونیورسٹیوں کی حالیہ فیسوں میں اضافے کو ختم کیا جائے۔
تمام تعلیمی اداروں میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف طلباء و طالبات کی کمیٹیاں قائم کی جائیں۔ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے متعلق آگاہی مہم کے ذریعہ کمیٹی ممبران کے شعور کو تشکیل دیا جائے۔ تعلیمی اداروں میں اس حوالہ سے آگاہی مہم بڑے پیمانہ پر کی جائے۔
تعلیمی اداروں کے اندر نصب تمام کیمرے ہٹائے جائیں اور طلباء کی سرویلنس کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اس کے علاوہ سیکورٹی فورسز تمام تعلیمی اداروں سے واپس جائیں اور ہاسٹلوں پر ان کا قبضہ ختم کیا جائے۔
تعلیمی اداروں میں ہاسٹل، میس، کینٹین، پینے کا صاف پانی، لائبریری، آئی ٹی لیب، دیگر لیبارٹریاں اور ٹرانسپورٹ کی مفت و معیاری سہولت فراہم کی جائے۔ ہاسٹل کے اوقات کار کو طلباء و طالبات کیلئے یکساں کیا جائے۔
بلوچستان، فاٹا، کشمیر، گلگت بلتستان اور اس کے علاوہ سندھ، خیبر پختوانخواہ اور پنجاب کے دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی معیاری G 4 سروسز مہیا کی جائیں۔ اس کے ساتھ طلباء کیلئے مفت انٹرنیٹ پیکیجز کا آغاز کیا جائے اور آن لائن کلاسوں کیلئے اساتذہ کو معیاری ٹریننگ اور آلات مفت فراہم کئے جائیں۔
طلباء اور اساتذہ تعلیمی اداروں میں دیگر محنت کش اسٹاف کے ساتھ مل کر اتحاد قائم کریں تاکہ طلباء اور محنت کشوں کے مفادات کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جاسکے۔
بلوچستان، فاٹا، کشمیر اور گلگت بلتستان کے طلباء کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے اور ان کے اسکالرشپ و کوٹہ میں اضافہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ان کے علاقوں میں معیاری تعلیمی ادارے قائم کیئے جائیں۔
خواتین و خواجہ سرا کی شرح خواندگی کو بڑھانے کیلئے تمام جامعات میں ان کیلئے مخصوص نشستیں اور سکالرشپ مختص کیئے جائیں۔
ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اور طلباء سیاسی اسیران کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ اس کے لیے تمام طلباء تنظیمیں مل کر مشترکہ حکمت عملی ترتیب دیں۔
بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کیا جائے یا 25 ہزار روپے بیروزگاری الاؤنس دیا جائے۔

1 thought on “نوجوانوں کے مستقبل کی ضمانت سرمایہ دارانہ نظام کی موت ہے

Comments are closed.