تحریر۔غفار راحمون

۔12نومبر کو کشمور میں ایک ایسا سانحہ پیش آیا جس نے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا۔ کراچی کے ایک اسپتال میں تبسم کی ملاقات رفیق ملک سے ہوئی جس نے اسے چالیس ہزار روپے اجرت پہ کام کرنے کی پیشکش کی۔ کورونا وبا کے بعد بھوک اور افلاس سے تنگ حالات کے پیش نظر تبسم نے اپنی چار سالہ بیٹی کے ہمراہ کشمور جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں پہنچتے ہی اسے نامعلوم جگہ منتقل کیا گیا اور پھر چار سالہ معصوم بچی علیشا اور تبسم کے ساتھ مسلسل چار دن تک ملزمان گینگ ریپ کرتے رہے۔ اس کے بعدعلیشا کی ماں تبسم کو اس شرط پہ چھوڑا کہ آپ کے ساتھ جو عورت اسپتال میں تھی اس کو بھی آپ بلائیں ورنہ ہم علیشا کو قتل کر دیں گے۔ اس عورت نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمور پولیس اسٹیشن سے رابطہ کیا تو وہاں پولیس افسر محمد بخش نے اس کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ملزمان سے اپنی بیٹی کی بات کروائی یہ تاثر دیتے ہوئے کہ یہ وہ لڑکی ہے جس کا مطالبہ انہوں نے کیاتاکہ علیشا کی زندگی بچائی جا سکے، یوں محمد بخش نے تبسم کا ساتھ دیا۔ اس کے بعد پولیس نے چھاپہ مارا مگر دو ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور رفیق ملک کو دیوار چھلانگتے ہوئے پولیس نے پکڑ کر اپنی تحویل میں لے لیا۔ رفیق ملک نے اعترافِ جرم بھی کیا جس کے بعد کشمور تھانہ میں مقدمہ بھی درج کر لیا گیا اور دونوں ماں بیٹی کو علاج کے لیے لاڑکانہ اسپتال منتقل کیا گیاہے۔ گھناؤنے فعل کے بعد بچی کی حالت بہت نازک ہے۔ مگر حکمران طبقہ کے اسمبلیوں میں بیٹھے درندہ صفت بے شرم نمائندے رفیق ملک کو آزاد کرانے کے لئے پولیس پر دباؤ ڈال رہے تھے۔
اس ریاست میں یہ کوئی ایک پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ہر روز ہمیں ایسی دل دہلا دینے والی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ زیادہ تر لوگ صرف مذمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اکثر اس مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش تک نہیں کرتے۔
بحیثیت مارکسسٹ یہ ہمارا فرض ہے کہ سماج میں رونما ہونے والے واقعات کے پیچھے اصل اور مادی وجوہات کو سمجھیں۔ کیا وجوہات ہیں کہ آئے روز عورت اور بچے زیادتی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں؟ ایسے واقعات کو سمجھنے کے لئے ہمیں اس پدرشاہانہ اور سرمایہ دارانہ نظام پر غور کرنا ہوگا کیونکہ یہی نظام ہے جس میں عورت اور بچے کسی نہ کسی مرد کی نجی ملکیت تصور کئے جاتے ہیں۔ نجی ملکیت کی بنیاد پر کھڑے اس سماج میں عورت اور بچوں کی کمتر حیثیت ہوتی ہے جبکہ مردوں کی بالادست حیثیت ہوتی ہے۔ یہ کمتر حیثیت اس جبری تقسیمِ محنت کے نتیجہ میں وجود میں آتی ہے جو طبقاتی نظام میں مردوں اور عورتوں کے مابین روا رکھی گئی ہے۔ اس تقسیمِ محنت سے ہمارے سماج میں یہ عام تصور ہے کہ مرد کا کام فیکٹری یا دفتر میں پیداواری عمل کا حصہ بننا ہے جبکہ عورت کا کام گھر کی نجی حدود میں تولیدی عمل (بچوں اور بوڑھوں کی دیکھ بھال، کھانا پکانا، برتن اور کپڑے دھونا، وغیرہ) کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ اس جبری تقسیمِ محنت کے نتیجہ میں عورت کو ایک کمتر سماجی حیثیت میں دھکیلا جاتا ہے، جس سے سماج کا عمومی شعور کچھ یوں تشکیل پاتا ہے کہ عورت کا وجود ہی مرد کی خدمت و تسکین کے لئے ہے۔ یہ پسماندہ اور رجعتی شعور عین سرمایہ دارانہ نظام کی منطق کے مطابق ہے کیونکہ خاص کر پاکستان جیسے نیم نو آبادیاتی سماج میں ریاست کی یہ سکت ہی نہیں کہ وہ تولیدی کام کا ذمہ نبھا سکے۔ لہٰذا سرمایہ داری کو زندہ رہنے کے لئے عورت کا گھر کی نجی حدود میں استحصال درکار ہے۔ اب جب کہ طبقاتی نظام میں عورت کے بارے میں عمومی شعور یہ ہو کہ اس کا وجود ہے ہی مرد کی خدمت و تسکین کے لئے تو جنسی زیادتی کے واقعات اتنے حیران کن نہیں رہتے ہیں۔
موجودہ دور میں عورت پر ہونے والے جنسی جبر اور ظلم کا ذمہ دار کسی فرد، قوم یا خود عورت کو ٹھہرانے کے بجائے اس فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام کو موردِ الزام ٹھہرایا جانا چاہئے۔ یوں تو اس ظلم و بربریت سے خواتین و بچوں کی اکثریت غیر محفوظ ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ سب سے زیادہ اس وحشیانہ تشدد کا نشانہ نچلے طبقات کی عورت اور بچے بنتے ہیں۔ کشمور کے واقعہ نے ایک بار پھر اس بربریت کی نشاندہی کی ہے جس کا سامنا پاکستان کی غریب اور نچلی ذات کی خواتین اور بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر کرنا پڑتا ہے۔ تبسم کی غربت اور نوکری کی تلاش ہی تھی جس کا فائدہ اٹھانے میں رفیق ملک اور اس کے ساتھی کامیاب ہوئے۔ آج پہلے سے بھی زیادہ واضح ہو چکا ہے کہ عورت اور بالخصوص محنت کش عورت پر اس استحصال اور جبر کی مادی جڑیں اس فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں کیونکہ نجانے کتنی ہی عورتیں اور چھوٹے بچے بچیاں فیکٹریوں، کارخانوں اور دفاتر میں یہی مظالم سہتے ہیں مگر نوکری کھونے کے خوف اور پسماندہ روایات کے سبب آواز تک نہیں نکال سکتے۔
آج برصغیر کو آزادی حاصل کئے 74 سال بیت چکے ہیں لیکن ہمیں اس نظام کا جائزہ لینے کے بعد یہی محسوس ہوتا ہے کہ اکثریت عوام کے لئے کچھ بھی نہیں بدلا اور ظالم حکمران طبقہ اور اس کی ریاستی مشینری اور عدالتی نظام اب بھی یہاں کے عوام کو بدترین ظلم و جبر کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یوں تو دوسری جنگِ عظیم کے بعد کے حالات میں برطانوی راج کا یہاں خاتمہ ہو گیا ہے مگر سرحد کے اس پار بھی اور اس پار بھی جنتا آج بھی تنگ ہے، بھوکی ہے اور طرح طرح کے ظلم و بربریت کا شکار ہے۔ محنت کش اکثریت کے حالات کو تبدیل کرنے کے لئے اس فرسودہ نظام کو انقلاب کے ذریعے ہی نیست و نابود کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی ریاست میں آئے روز خواتین پر کئے جانے والے جبر، ان کے ساتھ زیادتی، مار پیٹ اور جسمانی و جنسی تشدد کے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ امور سرمایہ دارانہ نظام میں پدرشاہانہ شعور اور اس کے تحت بنائے گئے رسم و روایات کا نتیجہ ہیں۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں خواتین پر ہونے والے جبر کو ثقافت، مذہب، سماجی اقدار اور ذات پات کے قدیم نظام کے پردوں کے پیچھے چھپا دیا جاتا ہے۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس پسماندہ شعور کے تحت عورت پیدا ہوتے ہی غربت کی وجہ سے خاندان کے اوپر بوجھ سمجھی جاتی ہے۔ اور پھر اسے اجرت پر کام، گھریلو کام اور خود سے امیر تر خاندان میں شادی کے ذریعہ اپنی زندگی کے بدلے میں خاندان کو سہارا دینا پڑتا ہے۔ اپنے باپ یا بھائی کی ملکیت سے اپنے شوہر کی ملکیت بننے تک کا یہ سفر مزدور اور کسان خواتین جنم سے موت تک جبر اور ظلم سہتی ہوئے طے کرتی ہیں۔ سرمایہ داری نظام میں خواتین کو اگر ایک طرف بطورِ محنت کش جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو دوسری جانب اسے عورت ہونے کی سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے جب اس پر گھر کے تولیدی کام کا دوہرا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔
کام کی جگہوں پر محنت کش خواتین کو اتنی کم اجرت دی جاتی ہے کہ دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ اس کے اوپر اپنی محنت کی کمائی کے پیسوں کو خرچ کرنے تک کا حق ان کے باپ یا شوہر ان سے چھین لیتے ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ پدرشاہی کے پسماندہ شعور کے تحت عورت اپنی کمتری کے باعث اپنی کمائی پر اختیار کا حق نہیں رکھتی۔ مزدور اور کسان طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی زندگیاں سختیوں، رکاوٹوں اور صعوبتوں سے بھری ہوتی ہیں۔ یہ خواتین اکثر اپنے شوہر اور باپ کی غلامی میں زندگی گزارتی ہیں اور انہیں بچپن سے ہی اپنی قوتِ محنت، اپنے جسم اور اپنی کمائی پر اختیارسے محروم رکھا جاتا ہے۔ اس تمام ظلم کے ساتھ ان عورتوں کو مالک مکان اور فیکٹری مالکان جنسی استحصال کا بھی نشانہ بناتے ہیں اور اگر وہ طلاق یافتہ یا بیوہ ہوں تو ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔اسی طرح وڈیرے اور چوہدری کھیتوں میں کام کرنے والی مزدور عورتوں کو ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ہوس کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔
کوروناوبا اور مزدور دشمن تبدیلی سرکار کے دور حکومت میں خواتین کے حالات مزید بگڑ چکے ہیں۔ عورتوں کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتیوں کے واقعات کو عورت کے کپڑے، اس کی آزادی، یا اس کے باہر نکلنے سے جوڑنا زیادتی اور جہالت ہے۔ کسی بھی پہلو سے کہیں بھی زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کا کوئی قصور نظر نہیں آتا۔ اس پدرشاہانہ نظام میں خواتین اپنے خاندان اور بالخصوص خاندان کے مردوں کی ملکیت ہیں جن کو ضرورت پڑنے پر جب چاہے، جیسا چاہے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت اس نظام میں خواتین پر گھریلو تشدد کی شرح میں ہوشربا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اجتماعی زیادتیوں اور قتل کے واقعات نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس کے خلاف بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا اور پریس کلبوں پر مظاہرے ہوئے ہیں جس میں زیادتی کرنے والوں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عورت اور بچے جب تک خاندان اور مردوں کی نجی ملکیت تصور کئے جاتے رہیں گے تب تک ہم کتنے ہی ریپسٹوں کو پھانسی پر لٹکا لیں، معاملہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ مسئلہ افراد کے شعور کا نہیں، مسئلہ اس نظام کا ہے۔
ان معروضی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمیں اس عورت دشمن کلچر کا خاتمہ کرنا ہے تو نجی ملکیت کی بنیادوں پر کھڑے اس نظام کا تختہ الٹنا ہو گا۔ یہ جدوجہد صرف ایک سوشلسٹ پروگرام کے تحت ہی حقیقی معنوں میں کی جا سکتی ہے اور اس جدوجہد کی قیادت محنت کش انقلابی عورتوں کو کرنا ہوگی۔ اس نظام میں رہتے ہوئے عورتوں کی اکثریت کی حقیقی آزادی کا علٰم بلند نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اس نظام سے بغاوت اب ناگزیر ہو چکی ہے۔ جب تک ہم اس نظام میں جی رہے ہیں تب تک ہم اس میں اصلاحات کی لڑائی بھی لڑنی ہوگی۔ ہمیں ایسی قانون سازی کے لئے دباؤ بڑھانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ عورتوں کا اپنی زندگی پر اختیار میں اضافہ ہو اور اس کے ساتھ ایسا نظام واضح کیا جائے جس میں عورت پر جسمانی،ذہنی اور جنسی تشدد کو روکا جاسکے اور اس جبر، ظلم اور بربریت کے خلاف عورت کو متحرک کیا جاسکے۔ لیکن اس کے ساتھ ہمیں محنت کش عوام کے سامنے اقتدار میں بیٹھے تمام تر نام نہاد عوامی نمائندوں کے خلاف بھی مطالبات اور نعرے بلند کرنے ہیں جو خود جنسی ظلم جبر و استحصال کرنے کی سوچ رکھنے کے ساتھ کرتے ہوئے نظر بھی آتے ہیں۔ یہاں محنت کش عوام پر یہ واضح کرنا لازمی ہے کہ یہ نام نہاد نمائندے ایسی قانون سازی کیونکر کرنے لگے جب وہ خود اس میں ملوث ہیں۔ جو نظام اور جس نظام کے بیشتر نمائندے عورت کو بیوی کی صورت میں گھر کی چار دیواری میں قید کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوں وہی نظام اور اس کے حقیقی نمائندے کیسے عورت کی آزادی تسلیم کریں گے؟
ہم انقلابی سوشلسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک اس نظام کو کچل کر پھینکا نہیں جاتا تب تک حقیقی معنوں میں کچھ خاص نہیں بدلنے والا۔
اب ہمیں سوشلٹ نظام کی مشترکہ جدوجہد کو تیز کرنے کے لئے عورت پر جنسی جبر کے خاتمہ کے ساتھ اس کو گھریلو کام سے آزادی دلوانے کے لیے بہترین معیار کے عوامی کچن اور عوامی کینٹین، عوامی لانڈریاں اور عوامی دار الاطفال کا مطالبہ بھی اٹھانا ہوگا۔
ہم ایک ایسا سماج چاہتے ہیں جہاں عورت محض گوشت کا ٹکرا یا نجی ملکیت نہ ہو بلکہ آزاد اور خودمختار ہو اپنے ذاتی فیصلوں میں نہ کہ شوہر بھائی یا باپ کی اجازت کی محتاج۔ ہم اس سماج کا خواب دیکھتے ہیں جہاں عورت کے جسم، سوچ، عقل، شعور اور معاش پر عورت کی ہی مرضی ہو۔ اور ہم اس خواب کو عملی جامہ پہنائیں گے سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے ذریعہ کیونکہ سوشلزم وہ واحد نظام ہے جہاں مرد اور عورت کے درمیان خالص انسانی بنیادوں پر رشتے استوار کیے جا سکتے ہیں، جہاں معاشی انحصار اور تشدد کے عناصر کو ختم کیا جا سکتا ہے، اور جہاں انسانیت کی اکثریت کو بھوک، ننگ، غربت اور محرومیوں سے نکالا جا جا سکتا ہے