(رپورٹ(سوشلسٹ رزیسٹنس

نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے تحت جمعرات 28مئی کو کراچی پریس کلب کے باہر پی آئی اے انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا گیا اور پلین کریش حادثہ پر اظہارِ افسوس کرنے کے لئے شمعیں جلائی گئیں۔
سماجی دوری کے اصولوں کی ممکنہ حد تک پابندی کے ساتھ احتجاج کیا گیا۔ احتجاج کے بعد دیگر ساتھیوں نے ہاتھوں کی صفائی کے لئے ہینڈ سینیٹائزر کے قطرے بھی بانٹے۔
کامریڈ ناصر منصور کا کہنا تھا کہ پی آئی اے انتظامیہ کے ساتھ ساتھ فرانس کی اس کمپنی کو بھی ذمہ دار سمجھتے ہیں جس نے طیارہ فراہم کیا اور اس کے معیار کی جانچ پڑتال نہ کی۔
شرکاء نے پی آئی اے انتظامیہ اور سرکار کے خلاف نعرے لگائے اور حادثہ میں جانیں کھونے والے مسافروں اور عملہ کے اراکین کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا۔ شدید گرمی اور پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کے باوجود 50 سے زائد افراد نے احتجاج میں شرکت کی۔ شرکاء میں سانحہ بلدیہ متاثرین ایسوسی ایشن کی چیئرپرسن سعیدہ خاتون بھی موجود تھیں، جن کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا جو بلدیہ فیکٹری سانحہ میں جان بحق ہوا وہ کبھی واپس تو نہیں آ سکتا مگر وہ دیگر مزدوروں کے حقوق کی جنگ میں ان کے ساتھ کھڑی ہیں اور لڑتی رہیں گی۔
پی آئی اے کریش نے پاکستان اور اس کے زیر انتظام علاقوں میں بسنے والے تمام شہریوں کے دل دہلا دئے۔ عید سے دو روز قبل سفر کرنے والے افراد نے جانیں کھوئیں جنہوں نے خود اور جن کے پیاروں نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ ائیر لائن انتظامیہ کی غفلت کے باعث وہ عید منانے سے محروم رہ جائیں گے۔ مزید ستم یہ کہ پی آئی اے انتظامیہ نے خود کو ہر قسم کی ذمہ داری سے سبکدوش کر لیا ہے اور پائلٹ پر الزامات کا ملبہ ڈالا جا رہا ہے جو کہ نہایت افسوسناک بات ہے۔
اس سانحہ میں جانیں کھونے والوں کے لواحقین اور مکان کھونے والوں کو سرکار دس لاکھ روپے معاوضہ ادا کرے۔ اس کے علاوہ پی آئی اے کے ملازمین محنت کشوں پر مبنی کمیٹی تشکیل دیں جو حادثہ کی جانچ پڑتال کرے کیونکہ حکمران طبقہ کے کسی بھی فرد کو انکوائری کمیٹی میں شامل کرنے کا مطلب ہے انتظامیہ اور حکمران طبقہ کے مفادات کا تحفظ۔