منرویٰ طاہر
نہتی عظمیٰ خان اور ان کی بہن پر پدرشاہانہ انداز میں زبانی و جسمانی حملوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔ خان بہنوں کے وکیل حسان خان کے مطابق حملہ آور خواتین ریئل اسٹیٹ ٹائکون ملک ریاض کی بیٹیاں ہیں۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح یہ حملہ آور خواتین خان بہنوں کے گھر میں اپنے ذاتی گارڈز کے ہمراہ داخل ہوتی ہیں اور دونوں بہنوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ گھر میں توڑ پھوڑ کرتی ہیں، ان کو آگ لگانے کی دھمکیاں دیتی ہیں، پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے نام پر دھمکیاں دیتی ہیں اور اپنے گارڈز کو کہتی ہیں ”ان لڑکیوں کو ہاتھ لگاؤ یہ تمہارے ساتھ سوئیں گی”۔ تمام ویڈیوز نہایت نیچ مغلظات سے لیس ہیں۔ ان خواتین کا دعویٰ ہے کہ آمنہ عثمان کے شوہر عثمان ملک سے عظمیٰ خان کے مراسم ہیں اور اس کی بنیاد پر انہوں نے خان بہنوں کے گھر پر یہ حملہ کیا۔ خان بہنوں کے وکیل کے مطابق آمنہ عثمان کی کزنز نے یہ گھٹیا کارنامہ سرانجام دیا۔ حسان خان کے مطابق یہ کزنز عنبر ملک اور پشمینہ ملک ہیں، جو ملک ریاض کی بیٹیاں ہیں۔ اس حملہ نے ایک طرف جہاں حکمران طبقہ سے تعلق رکھنے والی عورتوں کی حقیقت اور ریاست کے طبقاتی کردار کو ایک بار پھر کھول کر رکھا ہے، وہیں ایلیٹ طبقہ کی نام نہاد فیمنسٹوں کی طبقاتی ترجیحات کو بھی عیاں کر دیا ہے۔
ایلیٹ فیمنسٹ اس وقت بڑی احتیاط سے بیانات دینے کی کوششیں کر رہی ہیں اور بظاہر ”تصویر کے دو رخ” دکھانے میں کوشاں ہیں۔ وہ دو رخ یہ ہیں کہ یقیناً عظمیٰ خان اور ان کی بہن کے ساتھ جس انداز میں سلوک کیا گیا وہ غلط تھا مگر دوسرا رخ یہ ہے کہ امیر طبقہ کی خواتین بھی اپنے مردوں کے آگے بے بس ہیں اور بیوفائی وغیرہ کی صورت میں جبر کا نشانہ بنتی ہیں لہٰذا ان کے ساتھ ہمدردی دکھائی جائے۔ جس انداز میں یہ زاویہ پیش کیا جاتا ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ دراصل ان ایلیٹ فیمنسٹوں کو محض اس ”انداز” سے مسئلہ ہے جس میں یہ حملہ کیا گیا اور بہتر انداز اس حملہ کا یہ تھا کہ بس زبانی ذلت سے کام لیا جاتا اور جسمانی تشدد کا راستہ نہ اپنایا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زبانی ذلت سے یہ ایلیٹ فیمنسٹیں خود بھی بخوبی کام لے رہی ہیں۔ مختلف انداز میں بہتان تراشی جاری ہے اور طرح طرح کے الزامات و القابات سے خان بہنوں کو کھلے عام نوازا جا رہا ہے۔ ایسا ہی ایک لقب جو ایلیٹ فیمنسٹوں کی جانب سے عظمیٰ خان کے سر رکھا گیا ہے وہ انگریزی زبان کی اصطلاح ”گولڈ ڈگر” ہے۔ مارکسسٹوں کے لئے اس بہتان تراشی میں پنہاں پدرشاہی اور سرمایہ دارانہ ترجیحات و مفادات پریشان کن ہیں۔
ایلیٹ طبقہ کی عورتیں خواہ کتنی ہی ”فیمنسٹ” ہو جائیں یہ واضح کرتے زیادہ دیر نہیں لگاتیں کہ جو مراعات و دولت ان کو اور ان کے خاندانوں کو میسر ہے، اس میں سے ذرہ برابر حصہ بھی ان سے نچلے طبقہ کی کسی عورت کو اگر مل جائے تو وہ خود کو مظلوم بنا کر پیش کریں گی اور اس عورت کو گولڈ ڈگر، یعنی معاشی فوائد سمیٹنے والی کہیں گی۔ چونکہ وہ طبقاتی سماج کی حقیقت کی جانب اندھی ہوتی ہیں، انہیں اس بات سے کوئی سر و کار نہیں کہ یہ طبقاتی تقسیم ہی ہے جو عورت کو کبھی اپنا جسم فروخت کرنے پر تو کبھی بنیادی مالی ضروریات کے لئے کسی امیر شادی شدہ مرد کے ہاتھوں دوسرے طریقوں سے استعمال ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ آپ ایلیٹ عورتوں کو برا صرف اس لئے لگتا ہے کیونکہ آپ کا تعلق اس وحشیانہ طبقہ سے ہے جس کی تمام تر عیاشی دیگر طبقات کے استحصال پر مبنی ہے اور آپ کو ہرگز یہ برداشت نہیں ہوتا کہ آپ کے طبقہ نے جو لوٹ کھسوٹ کے ذریعہ دولت کے انبار لگائے ہیں اس میں سے کسی نچلے طبقہ کی عورت کا کوئی فائدہ ہو جائے۔ آپ اس مسئلہ کو بیوفائی کا مسئلہ بنا کر کتنا ہی پیش کر لیں، آپ کی طبقاتی ترجیحات اس بات سے واضح ہو جاتی ہیں کہ اکثر ”دوسری عورت” کو ذلیل و رسوا کرنے کے بعد آپ اپنے اسی بے وفا مرد کے ساتھ ہنسی خوشی گزر بسر کرتی ہیں کیونکہ اس مرد کا تعلق آپ کے طبقہ سے ہوتا ہے۔ آپ کی اپنی طبقاتی حیثیت بھی اکثر اسی بے وفا مرد سے جڑی ہوتی ہے لہٰذا آپ اسے اور اس سے جڑی معاشی مراعات کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتیں۔ اور آپ میں سے جو چند ایک عورتیں اپنے بے وفا مردوں کو چھوڑ بھی دیتی ہیں وہ اکثر اپنے باپ بھائی یا اپنی ذاتی طبقاتی حیثیت کے تحفظ کی بناء پر چھوڑتی ہیں۔ غرض یہ کہ یہ تمام معاملہ طبقاتی سماج کی حقیقت کے ساتھ جڑا ہے۔ چونکہ پدرشاہی اس طبقاتی نظام کا بنیادی جز ہے لہٰذا آپ ایلیٹ عورتیں اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر پدرشاہانہ حملے کرنے سے بھی نہیں رکتیں اور بے بس عورت کو گولڈ ڈگر جیسے القابات سے نوازنے میں دیر نہیں لگاتیں۔
ویسے تو آج کے دور میں ”گولڈ ڈگر” جیسی میساجنسٹ اصطلاح کا استعمال ہی نہایت شرم ناک ہے، بالخصوص اگر نام نہاد فیمنسٹ ایسی بیہودہ اصطلاح کو زیر استعمال لائیں۔ مگر اس اصطلاح کے استعمال نے ایک بار پھر ایلیٹ عورت کی طبقاتی ترجیحات کو عیاں کر دیا ہے در حقیقت تو ان کا تمام تر طبقہ ہے جو گولڈ ڈگر ہے کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جو اس تمام تر دولت پر قابض ہے جو اس نے پیدا ہی نہیں کی بلکہ محنت کش طبقہ نے پیدا کی اور اس کو بس اس حکمران طبقہ نے ہڑپ لیا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اب آپ کی چوری کردہ دولت میں سے اگر آپ کے مرد کسی نچلے طبقہ کی عورت کو جنسی استحصال کے عوض تھوڑا حصہ دے دیتے ہیں تو آپ کا بس جس پر چلتا ہے آپ اسی کو گولڈ ڈگر جیسے القابات سے نوازنا شروع کر دیتی ہیں۔ ان سب باتوں نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ خواتین کی تحریک کبھی بھی ایلیٹ عورتوں کے ساتھ مل کر نہیں چلائی جا سکتی کیونکہ ان ایلیٹ عورتوں کے طبقاتی مفادات کا جب جہاں سوال اٹھے گا یہ ہمیشہ نچلے طبقات کی عورتوں کو کچل دینے کے حق میں ہوں گی۔ لہٰذا یہ نہایت اہم ہے کہ ایک محنت کش پروگرام کی بنیاد پر خواتین کی
تحریک تعمیر کی جائے جو برملہ اظہار برات کرتی ہو تمام ایلیٹ عورتوں کے طبقاتی و پدرشاہانہ مفادات سے۔ محنت کش عورت کی آزادی میں ہی تمام عورتوں اور سماج کی حقیقی آزادی ہے۔

1 thought on “عظمیٰ خان اور ایلیٹ فیمنسٹوں کی طبقاتی ترجیحات

  1. عمدہ تحریر ہے. خاص کر وہ پہلو کہ ایلیٹ فیمنسٹ زبانی لیبل بازی کے استعمال کو جائز اور جسمانی تشدد کو ناجائز قرار دے رہے ہیں. اچھے انداز میں عظمی خان کا ساتھ دیا ہے.

Comments are closed.