رپورٹ(انقلابی سوشلسٹ)

گوادر حق دو تحریک کا آغاز 15 نومبر کو ہوا اور گوادر کے لوگ اپنے مطالبات کے لیے دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ گودار میں کچھ ماہ پہلے بھی بہت بڑا جلسہ ہوا تھا جس میں گوادر کے لوگوں نے حکومت اور مقامی انتظامیہ کو اپنے مطالبات پیش کئے تھے۔ ان کے حل کی بجائے گوادر کی مقامی آبادی کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اس دھرنے کی حمایت میں 29 نومبر کو گوادر میں خواتین نے ریلی نکالی جسے گوادر بلکہ بلوچستان کی تاریخ کی خواتین کی سب سے بڑی ریلی قرار دیا جا رہا ہے۔ ریلی کے منتظمین کے مطابق اس ریلی کے شرکاء کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ تھی جس میں خواتین کے ساتھ بچے بھی شامل تھے۔
اس ریلی سے خطاب کرتے ہوئے طالبہ نفیسہ بلوچ نے کہا کہ ”ہم گوادر کی مائیں اور بہنیں مولانا ہدایت الرحمان کو ڈرانے والوں کو یہ بتا دینا چاہتی ہیں کہ وہ ایک فرد نہیں ہیں بلکہ گوادر اور مکران کے مظلوم عوام کی آواز ہیں۔“
اگرچہ صوبائی حکومت نے دھرنے کے چار مطالبات کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے لیکن دھرنے کے شرکاء اس پر عملدآمد کے حوالے سے مطمئن نہیں ہیں۔
”گوادر کو حق دو” تحریک کے مطالبات۔ٹرالنگ پر مکمل پابندی کا عملی نفاذ۔ سیکورٹی چیک پوسٹوں کا خاتمہ۔مکران بھر میں شہریوں کی تذلیل کے طرزِ عمل کا خاتمہ۔بارڈر ٹریڈ پر روک ٹوک اور کمیشن و ٹوکن کا خاتمہ۔بنیادی شہری و انسانی حقوق کی بحالی۔ ریاستی جبر و استبداد کاخاتمہ۔سی پیک کی اولین ترجیحات کو مقامی لوگوں کے موافق استوار کرنا۔ڈرگ مافیا پر پابندی۔بلوچ مسنگ پرسنز کی ماورائے عدالت گمشدگی کو بند کرنا۔بلوچ مسنگ پرسنز کو بازیاب کرنا۔منشیات کا مکران بھر میں خاتمہ، نیز ان کے مقامات سِیل کرنا اور آئین و قانون کے تحت سزا دینا۔گوادر میں یونیورسٹی کی فعالیت۔جدید آلات سے آراستہ ہسپتال کا قیام اور ڈاکٹرز کی دستیابی کو ممکن بنانا۔
خواتین کی ریلی سے گوادر کو حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان کے علاوہ بڑی تعداد میں خواتین نے بھی خطاب کیا۔ خواتین نے کہا کہ وہ مجبور ہو کر اپنے گھروں سے نکلی ہیں کیونکہ ان کے مردوں کا روزگار ٹرالروں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری اور ایرانی سرحد پر تجارت پر پابندیوں کے بعد ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ یہاں ظلم کی انتہا ہے۔ ہم بھوکے ہیں اوربے روزگار ہیں۔ ہمیں صحت اور تعلیم کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ یہاں نہ پانی ہے اور نہ بجلی ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈرانے والے اپنی طاقت دکھا چکے ہیں اور اب ہم اپنی طاقت دکھائیں گے۔ ہم نکلے ہیں ان اداروں اور کرپٹ لیڈروں کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے اور مولانا سے ان کی بہنوں کا وعدہ ہے کہ وہ اس تحریک میں ان کے ساتھ ہیں۔ خواتین نے کہا کہ اب بھی اگر ان کے مطالبات پر عمل درآمد نہیں ہوا تو وہ مردوں کے ساتھ دھرنے میں شریک ہوجائیں گی۔
گوادر کی تحریک عام لوگوں کے مسائل پر ہے اور اب یہ دیگر شہروں میں بھی پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے انہیں پورے بلوچستان میں حمایت مل رہی ہے۔ یہ ایسے ہی نہیں ہورہا ہے اس کی وجہ بلوچستان میں کویڈ 19 کے بعد سے صورتحال میں ایک اہم تبدیلی آئی ہے اور اب صرف مسنگ پرسنز پر ہی احتجاج نہیں ہورہا ہے بلکہ لوگ اپنی روزمرہ زندگی کے مسائل پر متحرک ہورہے ہیں اور اس سے بلوچ سماج پر جو خوف کا تسلط تھا وہ ختم ہوگیا ہے۔
اب بلوچ طلباء بھی اپنے حق کے لیے احتجاج کرتے ہیں پولیس کے تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا بھی کرتے ہیں لیکن حکومت کو جھکنے یا پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتے ہیں چاہے یہ بولان میڈیکل کالج کی نجکاری کے حوالے سے ہو یا ابھی جس طرح بلوچستان یونیورسٹی کے طلباء نے اپنے دو ساتھیوں کی جبری گمشدگی کے خلاف یونیورسٹی کو بند کردیا اور ان کی حمایت میں بڑے پیمانے پر بلوچستان میں تعلیمی ادارے بند ہوئے اور حکومت مذاکرت پر مجبور ہوئی اور اس نے بازیابی کی یقین دہانی کروائی ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ اس میں کتنی کامیاب ہوتی ہے لیکن یہ بلوچ طلباء کی ایک بڑی کامیابی ہے۔
برمش کی ماں کے قتل اور بعد ازاں حیات بلوچ کے قتل پر بلوچ یکجہتی کمیٹیاں ابھریں ہیں اور جدوجہد اور تحریک عوام کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔ بانک کریمہ بلوچ کے بیرون ملک قتل کے بعد جب ان کا جسد خاکی بلوچستان آیا تو ایک زبردست موبلائزیشن ہوئی۔
بلوچ سماج پر ریاست کا قائم کردہ خوف ٹوٹنے سے وہ سیاسی طور پرمتحرک ہوئے ہیں اور اب بلوچستان میں لڑائی ریاست اور گوریلوں کے درمیان ہی نہیں ہے بلکہ طلباء، عورتیں، محنت کش، لوئر مڈل کلاس اور غریب بھی سیاسی میدان میں ہیں اور وہ اپنے حق کے لیے باربار میدان میں کود رہے ہیں جس سے بلوچ سماج میں جمود ختم ہوگیا ہے اور وہ اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لینے کی طرف گامزن ہیں۔
یہ تحریک بلوچ سماج کے لیے ایک بڑا قدم ہے۔ ہمیں یہ مطالبہ سامنے لانا چاہیے ہے کہ گوادر میں شروع ہونے والے تمام پراجیکٹس میں گودار کے محنت کش عوام کی مرضی شامل ہونی چاہیے اس کے لیے کام کی جگہ اور محلوں میں ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جن کی رضامندی سے شہر کے انتظام، سہولیات اور روزگار پر کام کرنے والوں کے کنٹرول کو تسلیم کیا جائے۔ یہ کمیٹیاں ہی تحریک کا لائحہ عمل ترتیب دے اور اس کے ڈھانچہ اور قیادت کو جمہوری طور پر منتخب کرے اور قیادت کو کمیٹیوں کو جواب دہ ہونا چاہئے۔
بلوچ سماج سرمایہ دارانہ استحصال اور جبر کے خلاف متحرک ہے اس لیے ان کی تحریک کی قومی شکل ہونے اور اس کے ایک حصہ پر ایک مذہبی شخص کی قیادت کے باوجود ہمیں اس تحریک کی حمایت کرنی چاہیے کیونکہ تحریک کے مطالبات بالکل جائز ہیں لیکن ہمیں جماعت اسلامی کے رجعتی کردار کوبھی واضح کرنا چاہیے ہیں کہ تحریک پر ان کا کنٹرول اس کو نقصان پہنچائے گا کیونکہ جماعت کی یہ تاریخ ہے کہ یہ تحریکوں کو اپنے رجعتی مفادات کے لیے استعمال کرتی ہے اور اس رجعتی سوچ کو عوامی مسائل کے گرد سیاست کر کے پروان چڑھا کر طبقاتی جدوجہد کے جذبہ کو تحلیل کرنے میں بڑھ چڑھ کر کوشاں رہتی ہے۔ جماعتِ اسلامی اگر ایک طرف ایک مذہبی انتہا پسند جماعت ہے تو دوسری طرف وہ سرمایہ دارانہ نظام کے دفاع کی پارٹی بھی ہے اور بالخصوص مڈل کلاس اور تاجر برادری کی ان پرتوں کو موبلائز کرنے میں اہم کردار کرتی ہے جن میں فسطائیت پر مبنی سوچ کو فروغ دینا ان کے طبقاتی مفادات کے تحت زیادہ آسان ہوتا ہے۔ ایک عرصہ سے جماعت اسلامی کراچی میں بھی اسی طرز کی سیاست کرنے میں کوشاں رہی ہے مگر عوامی مقبولیت کے حوالہ سے ناکام رہی ہے۔ اب وہی حربے پاپولسٹ طرز کی سیاست کے ذریعہ گوادر میں آزمانے میں مصروف عمل ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک سے جڑے عوام کو جماعت جیسی رجعتی تنظیموں کے عزائم سے خبردار رہتے ہوئے اپنی عوامی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دینی چاہیے تاکہ تحریک کی سمت و سیاست کا تعین اپنے مسائل کے گرد اپنے فیصلوں کی بنیاد پر کریں اور اپنی جبر کے خلاف ایک جائز تحریک کو مذموم مقاصد کے لئے استعمال ہونے سے محفوظ کر سکیں۔
سوشلسٹوں کو اس تحریک کی حمایت کرنی چاہیے ہے اور اس کے لیے محنت کش طبقہ کی یکجہتی حاصل کرنی چاہیے ہے کیونکہ یہ تحریک نظام کے ساتھ ٹکراؤ کے نتیجہ میں اتنی پذیرائی حاصل کر پائی ہے۔ اس لیے اس کو پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ تحریک سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی لوٹ مار کے خلاف اپنی جدوجہد کوآگے بڑھا سکے۔ تحریک کو اس کے منطقی انجام یعنی سرمایہ اور سامراج کی مخالف تک لے کر جانے کا طریقہ اس سے خود کو کاٹ لینا یا باہر سے بیٹھ کر قیادت کی بنا پر تحریک کو رد کرنا نہیں ہے بلکہ ان جائز مطالبات کو قبول کرتے ہوئے ان مطالبات کی حقیقی جڑوں کے خلاف جدوجہد کو منظم کرنا ہے۔