تحریر:کامریڈ مارٹن،ترجمہ:عرفان خان

افغانستان کی معیشت طالبان کے اقتدارپر قبضہ کے بعدسے اب تک مکمل طور پر برباد ہوچکی ہے۔ آئی ایم ایف کی پیشین گوئی کے مطابق ملک کا جی ڈی پی میں 30 فیصد تک سکڑ سکتا ہے اور یہ سب ایسی صورتحال میں ہورہاہے جب معیشت پہلے ہی برسوں سے زوال پذیرہے۔
اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کے خاتمے اور امریکی فوجیوں اور اتحادیوں کے انخلا سے پہلے ہی بے روزگاری، نیم بے روزگاری اور غربت نے دیہی علاقوں اور شہری کچی آبادیوں میں عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا تھا۔ دو تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔ یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ”آزاد تجارت” پر اصرار کا براہ راست نتیجہ تھا جس نے ملک کو سستی اشیا کے سیلاب کے لیے کھول دیا جس کا افغان معیشت مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ یہ خاص طور پر زراعت کے بارے میں سچ تھاجس کی وجہ سے دیہی آبادی شہروں کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئی ہے اس کے باوجود دیہی علاقے کو روایتی رہنماؤں کے کنٹرول میں رہنے دیا گیا تھا۔
اب افغان عوام پر ایک تباہی منڈلا رہی ہے۔ آبادی کا ایک تہائی یعنی37 ملین میں سے تقریباً 12ملین بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہے۔ تیز رفتار اور بڑے پیمانے پر امداد کے بغیرلاکھوں لوگوں کو موت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
سامراجیت
معاشی اور سماجی صورتحال کی ڈرامائی بگاڑ کی بڑی حد تک سابقہ قابض قوتیں ذمہ دار ہیں۔ امریکی/نیٹو فوجیوں کے انخلاء اور طالبان کی فتح کے بعد مغربی امدادی رقوم کو یکدم روک دیا گیا ہے۔
حالانکہ یہی وہ فنڈز تھے جن کی وجہ سے حالیہ دہائیوں میں ملک کا نظم ونسق امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے دور حکومت میں چل رہاتھا۔ افغانستان کی مجموعی گھریلو پیداوار کا تقریباً 40 فیصد بین الاقوامی امداد سے اور 60-70 فیصد حکومتی اخراجات مغرب یا عرب خلیج کے ممالک کی مالی کے ذریعے پورے ہورہے تھے۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ ذرائع بند ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے افغانستان کے ذخائر کو منجمد کر دیا۔ تب سے ان کا سب سے بڑا حصہ تقریباً 7 بلین امریکی ڈالر امریکی مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کے زیر کنٹرول ہیں۔ بائیڈن حکومت نے زیادہ تررقم کے ذخائر پر قبضہ کرلیاہے اور اس سے کابل حکومت کو بلیک میل کررہے ہیں۔
اس کے افغان معیشت کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ جی ڈی پی میں زبردست گراوٹ کے ساتھ بینکنگ سسٹم کی تباہی، رقم کی گردش میں خلل اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ تعجب کی بات نہیں کہ ہر وہ شخص جو حالیہ مہینوں میں کسی نہ کسی طرح اپنے بینک کھاتوں کو خالی کر سکتا تھا اس نے ایسا کیا ہے جس کے نتیجے میں رقم کا بحران مزید بڑھ گیا تھا۔ دکانیں، ریستوراں اور پبلک ایڈمنسٹریشن بڑی حد تک بند ہے۔ریاستی ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں کیونکہ ریاست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
افغانستان میں شاید ہی کوئی صنعتی پیداوار ہے۔ جنگ اور قبضے کے ساتھ ساتھ موسمی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی خشک سالی کی وجہ سے زراعت کی بربادی کی وجہ سے وہ اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ ایک تباہ کن قحط جنم لے رہاہے،مہنگائی اور مالیاتی گردش کے خاتمے کا مطلب یہ بھی ہے کہ بہت ساسامان ناقابل خرید ہوگیاہے – خاص طور پر کھانا، گرم کرنے کے لیے ایندھن اور کرائے گھر کے لیے پیسے نہیں ہیں لہذاموسم سرما کے ساتھ لوگوں کے منجمد ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
مغربی سامراج کی پالیسی اورسب سے بڑھ کر امریکہ ایک گھٹیا حساب کتاب پر عمل پیرا ہے جو انسانیت کی توہین ہے۔ یہ دکھ، بھوک اور سردی کو شعوری طور پر قبول کرتا ہے اور اسے سیاسی فائدہ کے لیے استعمال کررہا ہے۔ طالبان کے عسکری طور پر جیتنے کے بعد اب انہیں مالی دباؤ کے ذریعے شائستہ بنائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے اورجس میں ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کی کم از کم عارضی چوری بھی شامل ہے۔
نیٹو، امریکہ یا اس کے اتحادیوں کی طرف سے امدادی رقوم کی روک تھام کو اکثر عام افغانوں کی حمایت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ ملک کے مستقبل پر اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے ایک مذموم کھیل کا حصہ ہے۔ یہاں تک کہ اگر طالبان کے ساتھ ”انسانی ہمدردی” کے معاہدے کیے جاتے ہیں اور صرف امدادی رقم دی جاتی ہے، مغربی ریاستیں اصرار کریں گی کہ وہ یا ان سے منسلک این جی اوز رقم کی تقسیم کو کنٹرول کریں۔
اقتصادی طور پر کابل کی حکومت کی صورتحال بہت نازک ہے۔ مغرب کے متبادل کے طور پر طالبان حکومت نے امریکہ کے عالمی ہم منصب چین کے ساتھ ساتھ پاکستان، ایران اور روس کے ساتھ بہتر تعلقات کی امید ظاہر کی ہے۔
لیکن چین اور خطے کی دیگر طاقتیں بھی اپنے مفادات کو سامنے رکھ رہی ہیں۔ اگر بیجنگ طالبان کی مالی مدد کرتا ہے تو یہ صرف سیاسی اور اقتصادی مراعات کے بدلے میں ہو گا۔ اس میں سب سے پہلے ISIS-خراسان کا خاتمہ شامل ہو گاجو کہ ملک میں طالبان کے خلاف لڑنے والی ایک انتہائی رجعتی قوت ہے اوراس کے علاوہ سنکیانگ میں واقع ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ اور دیگر تمام اسلام پسند گروپ جو پڑوسی ریاستوں اور شاہراہ ریشم سیکورٹی کے لیے خطرہ سمجھے جاتے ہیں۔ دوسرااس کا مطلب یہ ہوگا کہ چین کو ملک کے ابھی تک غیر استعمال شدہ معدنی وسائل تک رسائی دی جائے۔
آگ لگانے والی طالبان حکومت
مختلف سامراجی طاقتوں کی استحصالی پالیسیوں کے علاوہ موجودہ مصیبت میں اضافہ کرنے والے دوسرے عنصر کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے جس میں طالبان کی تھیوکریٹک آمریت بھی شامل ہے۔
ایک تنظیم کے طور پر طالبان کے پاس ملک پر حکومت کرنے کے لیے صلاحیت کافقدان ہے۔ نفرت انگیز قابض قوتوں کے خلاف ملک بھر میں افواج کو متحرک کرنے کی صلاحیت ہے لیکن مقامی رہنماؤں اور علما پر انحصار کرتے ہوئے یہ ایک قومی انتظامیہ نہیں بناپائی ہے حتیٰ کہ فوجی سطح پر بھی اسے اس میں ناکامی کا سامناہے۔مرکزی قیادت میں بھی ٹوٹ پھوٹ کے امکانات موجود ہیں۔
بلاشبہ اگر جی ڈی پی کا ایک تہائی اور قومی بجٹ کا دو تہائی ضائع ہو جائے تو کسی بھی معاشرے اور سیاسی حکومت کو معاشی اور سماجی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن طالبان سب سے پہلے اپنی نئی اسلام پسند حکومت کو محفوظ بنانے کی فکر میں ہیں۔ اس طرح اقتدار میں آنے کے بعد سے وہ سماجی زندگی سے خواتین کو خارج کرنے پر زور دے رہے ہیں اور جبر، عوامی حملوں، تذلیل اور یہاں تک کہ خواتین کے حقوق کی علمبردار خواتین پر ظلم و ستم کے ذریعے حقوق کو محدود کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر خواتین کو بہت سے پیشوں سے باہر دھکیل دیا گیاہے خاص طور پر پبلک ایڈمنسٹریشن، ثقافتی زندگی، صحت کی دیکھ بھال، یونیورسٹیوں اور اسکولوں سے باہر یا محدود طور پر بیان کردہ علاقوں تک محدود رکھا جارہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ خواتین مخالف، رجعتی پالیسیوں کا مطلب یہ ہے کہ اہل پیشہ ور افراد کو کام کرنے سے روکا جاتا ہے۔جس سے معاشی اور سماجی زندگی مزید درہم برہم ہوتی ہے۔ منظم صنفی جبر میں جو سچ ہے وہ سماجی اور سیاسی زندگی کے دیگر تمام شعبوں میں بھی پایا جا سکتا ہے یعنی محنت کش طبقے، کسانوں، دانشوروں اور قومی اور مذہبی اقلیتوں جیسے ہزارہ پر ظلم ہے۔
طالبان کی ظالمانہ پالیسیاں، ظلم و ستم کا خوف، یہاں تک کہ قتل، دسیوں لاکھوں کو نہیں تو لاکھوں کو بھوک کی وجہ سے ہجرت پر مجبور کررہاہے۔ پہلے ہی پاکستان اور ایران میں تقریباً 30 لاکھ افغان مہاجرین رہتے ہیں۔ آنے والے ہفتوں میں ان ممالک اور تاجکستان کے سرحدی علاقوں میں کیمپوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ تاہم، جبر، بھوک اور مشکلات سے بھاگنے والوں میں سے زیادہ تر اندرونی پناہ گزین ہیں اوریہ تعداد بڑھ رہی ہے۔
کیا کیا جائے؟
اس آنے والی انسانی تباہی کو روکنا جس سے لاکھوں لوگ غربت، بھوک اور سردی کا شکار ہو سکتے ہیں۔اس لیے ہر ترقی پسند اور انٹرنشنلسٹ پالیسی کا اسے حصہ ہونا چاہیے اور یہ فوری توجہ کا متقاضی ہے۔
مغربی ریاستوں میں جنہوں نے افغانستان پر کئی دہائیوں سے قبضہ کر رکھا تھا، اس کا مطلب سب سے بڑھ کر امریکی حکومت اور اس کے اتحادیوں کو اپنے مالی وسائل کو سیاسی بلیک میلنگ کے ذریعے استعمال کرنے سے روکنے کے لیے لڑنا ہوگا۔ امریکہ کو مجبور کیا جائے کہ وہ بغیر کسی شرط کے ذخائر حوالے کرئے۔ ہمیں امدادی رقم کے اجراء کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ بھوک سے بھاگنے والے تمام افراد کی بقا ء کو یقینی بنایا جا سکے، خواہ وہ افغانستان کے اندر ہوں یا مہاجر کیمپوں میں اور ان تمام مہاجرین کے لیے یورپی یونین، امریکہ یا برطانیہ کے لیے سرحدیں کھول دی جائیں ان پناہ گزینوں کے لیے جو ان ممالک میں جانا چاہتے ہیں۔
جس طرح مالی امداد کی تقسیم پر کنٹرول کے حوالے سے سامراجی طاقتوں میں سے کسی پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح کابل کی حکومت پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس طرح کی رقم اور سامان کی منصفانہ تقسیم کرے۔
طالبان کی آمرانہ، ظالمانہ حکمرانی اور ان کی جبر کی مشینری کی وجہ سے ٹریڈ یونینوں، بائیں بازو اور جمہوری خواتین کی تنظیموں کے ذریعے امداد کی تقسیم کے لیے جدوجہد صرف غیر قانونی حالات میں ہی چلائی جا سکتی ہے۔ بہر حال یہ فوری ترجیح ہونی چاہیے ہے۔جہاں بھی ممکن ہو مقامی، جمہوری طور پر کنٹرول کرنے والی تنظیموں کو منظم کرنا تاکہ جو بھی سامان خریدا جا سکتا ہے اس کی تقسیم کی نگرانی کریں۔ ستمبر میں کام کرنے کے حق کے لیے خواتین کے بہادرانہ مظاہرے ظاہر کرتے ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے طاقتیں موجود ہیں۔ گہرا ہوتا ہوا بحران طالبان کے لیے اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنا مشکل بنا رہا ہے اور اس سے آبادی کو کھانا کھلانے اور امداد اور قلیل وسائل کی تقسیم پر کنٹرول کے مسائل کے گرد متحرک ہونے کی جگہ کھل رہی ہے۔ لاکھوں کی بقا کے مسائل کو حل کرنے سے طالبان حکومت کے خلاف جدوجہد کو تیز کیا جا سکتا ہے۔
اسباق
اس تناظر میں دو سیاسی اسباق مرکزی حیثیت رکھتے ہیں: پہلا، جمہوری اور سماجی مطالبات کی جدوجہد میں سامراجی طاقتوں یا ان کے علاقائی نمائندوں میں سے کسی پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی آزادی اہم ہو گی۔ حقیقی اتحادی صرف خطے اور عالمی سطح پر ان قوتوں کے درمیان پائے جائیں گے جنہوں نے ”اپنی” حکومتوں سے اپنی آزادی کا مظاہرہ کیا ہے۔
دوم، افغان انقلابیوں کو مستقل انقلاب کے پروگرام پر مبنی ایک نئی پارٹی تنظیم بنانا چاہیے جو ناگزیر سماجی اور سیاسی جدوجہد کو محنت کش طبقے اور کسان تنظیموں کی تعمیر سے جوڑتی ہو۔ وہ تنظیمیں جو موجودہ حکومت کا تختہ الٹنے اور اس کی جگہ مزدوروں اور کسانوں کی حکومت لے سکیں جب طبقاتی جدوجہد میں شدت آئے۔