سوشلسٹ ریزسٹنس

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی سابقہ چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ کے کینیڈا میں قتل کے خلاف کراچی و لاہور میں زبردست احتجاجات منعقد کئے گئے جس میں بڑی تعداد میں بلوچ نوجوانوں اور بائیں بازو کے ساتھیوں نے شرکت کی اور مل کر بلوچستان میں دہائیوں سے جاری جبر کے خلاف آواز اٹھائی۔

مختلف تنظیموں کے نمائندوں نے بانک کریمہ بلوچ کو کراچی و لاہور میں خراج عقیدت پیش کیا اور ان کے قتل کی مذمت کی۔ اسی سلسلہ میں کل تربت میں بھی احتجاج منعقد کیا جائے گا۔

لاہور میں انقلابی سوشلسٹ موومنٹ کے کامریڈ شہزاد نے اس سفاک قتل پر بات رکھتے ہوئے کہا کہ ریاست کے پٹھو مختلف تاویلیں پیش کر رہے ہیں کہ کریمہ بلوچ نے خودکشی کی ہے یا یہ کہ یہ ریاست مخالف لوگ ہیں۔ ہم ان باتوں کو مسترد کرتے ہیں۔ کریمہ بلوچ کی جدوجہد ان پالیسیوں کے خلاف تھی جو پچھلے 70 سال سے پاکستان کی اشرافیہ نے بلوچ اور دیگر مظلوم اقوام پر مسلط کر رکھی ہیں۔ اس پالیسی کے نتیجے میں بلوچ قوم کے ہزاروں افراد گمشدہ ہیں، اکثر ان کی مسخ شدہ لاشیں تو کبھی اجتماعی قبریں ملتیں ہیں۔

اب بلوچ عورتوں کو بھی اُٹھایا جارہا ہے۔ یہ ایک قابلِ نفرت عمل ہے اور ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ کریمہ بلوچ ایک بہادر سیاسی لیڈر تھی جو اس وقت ڈٹ کر کھڑی ہوئی جب بی ایس او آزاد کے کسی مرد رکن کے لیے سیاست کرنا ممکن نہ رہی، وہ خودکشی کرئے یہ ایک جھوٹ ہے اس کا قتل انہی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس میں ایک سیاسی کارکن کو ملک سے باہر جانے پر مجبور کیا گیا اور اس سے پہلے رواں سال بلوچ صحافی ساجد حسین کا قتل بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔

یہ پالیسیاں نفرت اور تشدد کو فروغ دیں گی لیکن اس کے باوجود بلوچ پڑھنا اور امن سے رہنا چاہتے ہیں اور اس حق کے لیے انتہائی پسماندہ علاقوں کے نوجوان مسلسل جدوجہد کررہے ہیں۔ لیکن اس ریاست اور سامراج کی پالیسیاں بلوچ قوم کو دیوار سے لگا رہی ہیں۔ گوادر اس کی تازہ مثال ہے کہ کیسے بلوچ قوم کے افراد کو ان کے ہی علاقے سے ترقی کے نام پر بیدخل کیا جارہا ہے۔ یہ ترقی لوگوں کی ترقی نہیں ہے بلکہ سامراج اور بڑے سرمایہ کی ترقی ہے۔ جب آپ لوگوں کو ان کے وسائل پر حق نہیں دیں گے تو وہ جدوجہد بھی کریں گے اور آپ کی ترقی سے انکار بھی کریں گئیں جس میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

کریمہ بلوچ کے قتل کا مقصد ایک پیغام دینا ہے کہ کوئی ریاستی پالیسیوں کے خلاف آواز نہ بلند کرئے۔ لیکن کل کوئٹہ، حب، شال اور آج کراچی میں ہونے والے مظاہرے ظاہر کر رہے ہیں کہ حکومت ناکام ہوگئی ہے۔ جس طرح بلوچ خواتین نے جدوجہد کا علم بلند کیا یہ واضح کرتا ہے کہ سینکڑوں بلوچ عورتوں نے کریمہ کا راستہ اختیار کیا ہے۔ کل جس طرح بلوچ عورتیں لیفلیٹ تقسیم کر رہی تھیں یہ ایک طاقتور اظہار ہے جو بتاتا ہے کہ بلوچ قوم اپنےحق کے لیے پرامن جدوجہد کر رہی ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کریمہ بلوچ نے جدوجہد، ہمت اور بہادری کا راستہ دکھایا ہے اور اس سے بلوچ سماج میں جدوجہد کی خواہش نے جنم لیا ہے۔ آج بلوچ سماج کی جدوجہد آنلائن کلاسز کے خلاف، بی ایم سی، ناز بلوچ، پھر حیات بلوچ اور اب کریمہ بلوچ کے قتل کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔ یہ ایک سیاسی جدوجہد ہے جس کو عوامی حمایت حاصل ہے اور یہ بہت شاندار ہے کیونکہ یہی راستہ ہے جس سے ہم ریاست کی پالیسیوں کو شکست دے سکتے۔

بلوچ قوم پر تو جبر اور بربریت کی انتہاء جاری ہے لیکن یہ جبر پشتونوں اور دیگر مظلوم اقوام پر بھی ہو رہا ہے لہٰذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس ریاست اور سامراج کی پالیسیوں کو شکست مظلوم اقوام اور محنت کشوں کا اتحاد دے سکتا ہے۔ ہم پاکستان میں بسنے والی دیگر مظلوم اقوام اور محنت کش طبقہ اور سماج کی دیگر مظلوم پرتوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ اس جبر کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دیں تاکہ اس فرسودہ نظام کے حملوں کا مل کر مقابلہ کیا جا سکے۔