انقلابی سوشلسٹ موومنٹ

نئے سال کا جشن جاری ہے جبکہ گزرا سال ایک تاریک اور تکلیف دہ سال تھا۔اس میں لاکھوں لوگوں کی نوکریاں اور کاروبار ختم ہوئے اور ان کی زندگیاں نہایت مشکلات کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ اب تک دنیا بھر میں بیس لاکھ کے قریب لوگوں کی کووڈ19کی وجہ سے اموات ہوچکی ہیں اور لاکھوں اب بھی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔
کووڈ19نے سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت آشکار کردی کہ کس طرح یہ محنت کش ہی ہیں جن کی وجہ سے یہ نظام چلتا ہے اور اگر وہ کام نہ کریں تو نظام رک جاتاہے۔اس وبا کے باوجود دنیا بھر میں کڑورہا محنت کش اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر معمولاتِ زندگی چلاتے رہے ہیں۔اس وبا کا مقابلہ ڈاکٹرز،نرسز،پیرا میڈکس اور صحت کے شعبہ میں محنت کشوں کی جرات اور ہمت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
اس سب کے باوجود کڑوروں محنت کش اس عرصہ میں بے روزگار ہوئے اور غربت کی دلدل میں دھنس دیئے گئے جب کہ دنیا بھر میں سرمایہ داروں کی دولت میں ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ان پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لیے حکمران طبقہ محنت کشوں اور غریبوں پر بڑے حملے بھی کررہا ہے۔ان حملوں کے خلاف ایک مزاحمت بھی جنم لے رہی ہے۔
کریمہ بلوچ کا کینڈا میں قتل اس سال کا بھی خاتمہ تھا۔ یہ قتل کوئی علیحدہ واقع نہیں ہے بلکہ ان پالیسیوں کاتسلسل ہے جو بلوچستان میں دہائیوں سے جاری ہیں، جن پالیسیوں کے نتیجے میں ہزاروں بلوچ گمشدہ ہیں اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی ہیں اور کبھی ان کی اجتماعی قبریں ملتی ہیں۔لیکن کریمہ بلوچ کے قتل نے جس طرح بلوچ سماج کو جنجھوڑا ہے یہ ہمت افزاء ہے۔ بلوچ خواتین نے جدوجہد کا علم بلند کیا ہے اور ان کو بانک کریمہ بلوچ نے جدوجہد اوربہادری کا راستہ دکھا دیا ہے۔ بلوچ خواتین کی تحریک وہ طاقت رکھتی ہے جو پاکستان اور دنیا بھر سے محنت کشوں،مظلوموں اور جمہوریت پسندوں کی اظہار یکجہتی جیت سکتی ہے۔ ان کا بیان طاقتور ہے۔یہ تحریک ریاست کو پیچھے ہٹنے اور جھکنے پر مجبور کرسکتی ہے۔
اس کے علاوہ علی وزیر بھی گرفتار ہیں اور مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی ایم کے جلسے دکھ اور درد کی داستانیں بیان کرتے ہیں۔ یہ جلسہ مظلوموں کے میلہ ہیں۔یہ دکھ اور درد سامراج اور ریاست کی ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو پچھلی چار دہائیوں سے اس خطے پر مسلط کی گئی ہیں۔یہ اتنی زبردست تحریک ہے کہ ریاست کے تمام تر جبر اور دہشت گردی کے باوجود ڈٹ کے کھڑی ہے۔اس تحریک کا بیانیہ امن اور زندہ رہنے کے حق کا ہے۔ اس کے باوجود ان پر جبر و تشدد ہورہاہے۔ البتہ طالبان کے ساتھ ابھی بھی ریاست کے معاملات طے ہوتے ہیں، ان کو سرکاری مہمان بھی بنایا جاتا ہے اور وہ فرار بھی ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح سندھی مسنگ پرسنز کے لواحقین کے لانگ مارچ پر جس طرح حملہ کیا گیا اور خواتین پر تشدد اور انہیں گرفتارکیا گیا، یہ اس نظام کی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔لیکن ریاست کے ہتکھنڈے زیادہ دیر لوگوں کو ان کی بنیادی حقوق کی جدوجہد سے نہیں روک سکتے ہیں۔ انعام عباسی کی گرفتاری قافلہ کو روک نہیں سکی ہے اور وہ بدترین تشدد کے باوجود اسلام آباد کی جانب دوبارہ چل پڑا ہے۔ یہ سب تشدد کے واقعات پی پی پی کی حکومت کے دوران ہوئے لیکن جمہوریت کے علمبرداروں کو اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ان کی سویلین بالادستی اور نام نہاد جمہوریت کی جدوجہد حقیقت میں نظام میں حصہ داری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
اسی طرح گلگت بلتستان اور ریاست جموں و کشمیر کے دونوں اطراف جو ہورہا ہے یہ قابل مذمت ہے اور واضح کرتاہے کہ کیسے اس نظام اور اس کی ریاستوں میں کوئی حل نہیں ہے۔بلکہ ان ریاستوں کا مفاد ہی ان کے لیے مقدم ہے۔
اس سب سے آج واضح ہے کہ مظلوم اقوام کو ان جبر کے دارلحکومتوں سے امید رکھنے کے بجائے ایک مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔یہ ہماری سانجھی جدوجہد ہے اور اس کی کامیابی سرمایہ داری نظام کے خلاف جدوجہد میں ہے۔ محنت کشوں اور مظلوم اقوام کا اتحاد ہی جمہوریت و بنیادی حقوق اور اس نظام کے ڈھانچوں کے خلاف لڑائی لڑ بھی سکتاہے اور جیت بھی سکتا ہے۔ تمام محنت کشوں اور مظلوموں کی جدوجہد کو سرخ سلام!