تحریر: دلارالورین،مارٹن سونک۔ترجمہ:عرفان خان

ایک بار پھراسرائیلی جنگی طیارے غزہ کی پٹی پر بمباری کررہے ہیں جو دنیا کا سب سے گنجان آبادی والا علاقہ ہے جس میں 15 لاکھ شہری آباد ہیں جن میں ایک ملین سے زیادہ مہاجرین بھی شامل ہیں۔اسرائیلی بمباری میں ٹاور کے دو بلاک تباہ ہوئے ہیں اوراب تک 13 بچوں سمیت 43 شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔

یہ بمباری بظاہر حماس کی طرف سے اسرائیل پر داغے گئے راکٹوں کی جوابی کارروائی ہے جس میں چھ اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ نسل پرست ریاست کے بلا امتیاز حملے غزہ کے لوگوں کے لیے اجتماعی سزا کی شکل ہے جس کی وجہ اولڈ سٹی اور بیت المقدس کے فلسطینی مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے جن پر اسرائیلی پولیس نے تشدد کیا تھا۔ تازہ ترین شعلوں کی جڑیں ایک ایسی کہانی میں پیوست ہیں جو سب کو معلوم ہے یعنی فلسطینی مکانات کو مسمار کرنے اور شہر کے ایک اور ضلع کی نسلی ترتیب کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔

مشرقی یروشلم کے ضلع شیخ جارح کے رہائشی ہفتوں سے اسرائیلی آباد کاروں کے حق میں فلسطینی باشندوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کی پولیس کی کوششوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ 2004 سے 2016 کے درمیان یروشلم میں 685 فلسطینی مکانات مسمار کردیئے گئے تھے اورجس کی وجہ سے2513 افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ قابض حکام کا کہنا ہے کہ شیخ جارح میں اراضی کے خالی ہونے پر 200 آبادکاروں کے لیے یونٹ تعمیر کیے جائیں گئے۔

یہ واضح طور پر ایک نئی اشتعال انگیزی ہے۔ دائیں بازو کے صیہونی منتظمین نے اسرائیلی فوج کے 1967ء میں یروشلم پر قبضہ کرنے کے جشن کے حوالے سے نام نہاد فلیگز آف ڈئے مارچ کے دوران شہر کے فلسطینی علاقوں سے گزرنے کی دھمکی دی تھی۔ اسرائیلی لبرل روزنامہ ہیریٹز کے اداریے میں لکھ ہے کہ ہمیشہ ”نسل پرست نعرے، نفرت انگیز گانے اور فلسطینی راہگیروں اور املاک پر پُرتشدد حملے ان کی خصوصیت ہے”۔ جب فلسطینی مظاہرین نے اولڈ سٹی میں ان کے داخلے کو روکنے کی کوشش کی تو پولیس نے سٹن گرنیڈ اور واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے درجنوں مظاہرین کو زخمی کردیاتھا۔ حماس نے دعوی کیا کہ اس کے پہلے راکٹ اس کا جواب تھے۔

اسرائیل کے مغربی حلیف، جو فوجی اور مالی طور پرنسل پرست ریاست کی حمایت کرتے ہیں انہوں نے ”ڈی ایسکلیشن” کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی اسرائیلی حکومت کو فلسطینی رہائشیوں کے غیر قانونی اور خونی جبر کو روکنے پر مجبور کرنے کے لئے کوئی انگلی نہیں اٹھائے گاجبکہ مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے کو تو چھوڑ ہی دیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے ”ڈیل آف دی سنچری“’ کے تحت یروشلم کو سرکاری طور پر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تھا۔ صیہونی حکومت، حکام اور عدالتوں کے ساتھ ساتھ دائیں بازو کے آباد کاروں کو بھی یہ واضح طور پر دعوت تھی کہ وہ مشرقی یروشلم کے قبضے کے لیے آگے بڑھیں جس کو فلسطینی اور بین الاقوامی قانون مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرتا ہے۔ لیکن جو بائیڈن کے تحت بھی واشنگٹن اس وقت تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایسی قرارداد کو بلاک کرتاہے جس میں غزہ پر اسرائیل کی بمباری پر کوئی تنقید ہویاوہ اس کو روکنے کا مطالبہ کرے۔

مغربی ذرائع ابلاغ کے ”اسرائیل فلسطین تنازعہ” کی کوریج میں جو چھپایا جارہا ہے کہ حقیقت میں حملہ آور کون ہے۔ مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے مکانات کی بے دریغ مسماری اور ان کے آبائی وطن سے منظم طور پربیدخلی اوربے رحم آباد کار ریاست کے ذریعہ فلسطینوں کی قومی بربادی  باقاعدہ ایک منصوبہ ہے۔ وہ فلسطینی جنہیں اسرائیل کی سرحدوں کے پار نہیں دھکیلا جاسکے وہ نسل پرست ریاست میں دوسرے درجے کے شہری ہیں۔

شیخ جارح اور اقصی کے لئے جدوجہد وہ چنگاری ہے جو ریاست بھر میں شعلوں کو بھڑکا سکتی ہے۔ مغربی کنارے کے متعدد شہروں میں نوجوان، مزدور، کسان اور غریب عوام سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔ ناصرت، کافر کانا اور شیفرام میں فسادات پھوٹ پڑے۔ غزہ میں ہزاروں افراد نے ہرمیٹک طور پر بنداور انتہائی عسکری حدود والی سرحد کی طرف مارچ کیا جہاں اسرائیل کے سنائپرز نے 2018ء اور 2019ء کے مظاہروں کے دوران 200 سے زائد فلسطینیوں کو ہلاک اور000 13کو زخمی کردیا تھے۔

فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے اسرائیل پر راکٹ حملے غیر متناسب جنگ میں ہیجانی اقدام ہے۔ وہ مزاحمت کوجاری رکھنے کے فلسطینی عوام کے عزم کے علامتی مظاہرے سے کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ راکٹ نہ صرف اشکیلون تک پہنچ چکے ہیں بلکہ تل ابیب اور یروشلم میں بھی اسرائیلیوں کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ ”لوہے کے گنبد” کے باوجود مکمل طور پر ناقابل شکست نہیں ہیں جس کی امریکہ کی طرف سے بڑے پیمانے پر مالی امداد کی جاتی ہے۔

فلسطینی مزاحمت اپنی تمام صورتوں میں جائز ہے اور ہم ظالم اسرائیلی ریاست اور اس کی فوج اور مظلوموں کے تشدد کے درمیان واضح طور پر فرق کرتے ہیں۔ ہم اس مزاحمت کے ساتھ مکمل یکجہتی میں کھڑے ہیں۔

یہ ایک نئی انتقاضہ ممکن ہے جسے نوجوانوں کی ایک نئی نسل جنم دئے رہی ہے۔اس وقت اہم سوالات یہ ہیں کہ یہ کس طرح  سے یہ پھیل سکتی ہےاور کیسے جیت سکتی ہے؟ آباد کاروں کی توسیع اور مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں 700000 تعدادبین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کا حقارت سے انکار ہےاور اس کے ساتھ نسل پرست دیوارایسے حقائق ہیں جن کو پلٹنا مشکل ہوگا۔ مصری اور سعودی فرمانبرداری نے بھی فلسطینیوں کو انتہائی مایوس کن صورتحال میں مبتلا کر دیا ہے اور بکھری ہوئے پی ایل او، حماس، فلسطینیوں کے بائیں بازو اور مزدور طبقے کے اندر سیاسی قیادت کے بحران کو بڑھا دیا ہے۔

اگرچہ فلسطینی اتھارٹی اور حماس دونوں مشرقی یروشلم میں مزاحمت کے لئے اپنی حمایت کا اعلان کرتے ہیں تاہم معاونت پسند فلسطینی اتھارٹی فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و ستم کا ایک ہتھیار ہے۔ مغربی کنارے میں حماس کی فتح کے خوف سے اس نے 2006 سے ہر انتخابات کو ملتوی کیا ہے۔ لیکن حماس کے پاس بھی فتح کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور ان کا تناظر رجعت پسنداور مذہبی ہے اس کا محنت کش طبقہ کے مفاد،ترقی پسندی اور سوشلزم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

فتح کے معاونت پسند اور حماس کی گوریلاازم کی بند گلی کے مابین پھنسے ہوئے لڑاکا فلسطینی نوجوانوں کی ایک نئی نسل اس چیلنج کا مقابلہ کررہی ہے۔ انہیں ایک نئی قیادت تعمیر کرنی ہوگی جس میں ایک حکمت عملی کے تحت جو اس تحرک کو ایک نئے انتفادہ کی تحریک میں بدل دے جس میں ورکشاپس اور میدانوں میں عام ہڑتال ہو اور وہ ایسے اداروں کو ضبط کرلے جو قابض قوتوں کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کررہے ہوں۔

 اسرائیل اور اس کی فوجی مشینری پردباؤ ڈالنے کے لیے مشرق وسطی کے ممالک میں مزدور طبقے اور مظلوموں کی یکجہتی، ہڑتالیں، سامان کی نقل و حمل روکنا اور مالی لین دین کرنے سے انکار انکا ایک بنیادی عمل ہوگا۔ اس سے اجتماعی یکجہتی مظاہروں کے ساتھ مصر اور سعودی عرب میں رجعت پسند عرب حکومتوں یا اردگان یا خامنہ ای جیسے فلسطینیوں کے دوست سمجھے جانے والے بھی بے نقاب ہوں گے اور یہ مزدور طبقے کو صہیونیت کے خلاف جدوجہد میں ایک اہم قوت بنائے گا۔

یہ دباؤ اسرائیل میں سرمایہ اور یہودی مزدور طبقے کے درمیان طبقاتی مصالحت کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے جس سے صہیونیت کے خلاف یہودی مزدور طبقے کے ساتھ فلسطینی مزدور طبقے اور کسانوں کی مشترکہ جدوجہد کاراستہ کھل سکتا ہے جومشترکہ وکثیرالقومی ریاست اور تمام فلسطینیوں کی واپسی کے حق کو تسلیم کرتا ہو۔

 مزدور طبقہ اور بائیں بازوبرطانیہ میں، امریکہ اور یورپی یونین اور دیگر سامراجی ریاستوں میں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے سڑکوں پر نکلے اور غزہ پر فضائی حملے اور مشرقی یروشلم میں ہونے والے جبر کو روکنے کے لئے اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کے لیے ہڑتال اور آمدورفت کے بائیکاٹ کا طریقہ کار اپنائے۔

بی ڈی ایس موومنٹ کو غیر قانونی بستیوں کے بائیکاٹ سے لے کر آبادکار ریاست کے تمام پہلوؤں کے خلاف اپنے محدود دائرہ کار میں اضافہ کرنا چاہئے۔ انہیں حقارت کے ساتھ اس دلیل کو مسترد کرنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل کو نقصان پہنچانے والی کوئی بھی بات حقیقت میں اینٹی سمیٹک ہے۔ فلسطینی کاز کے یہودی حامیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل ”دنیا کے یہودیوں کی ریاست” ہے یہ دعوی سراسر جھوٹ ہے۔ یاد رہے کہ کوئی بھی اورحقیقی اینٹی سمیٹک ازم یہاں تک کہ ”سامراجی مخالف اور صہیونی مخالف” کی طرف سے بھی در حقیقت فلسطینی مقصد کے طاقتور دشمن ہی ہے۔

یوم نکبہ15 مئی کو یکجہتی ریلیوں اور مظاہروں کے لئے حمایت برطانیہ میں کوربین تحریک اور بی ڈی ایس تحریک کے خلاف بین الاقوامی سطح پر چلنے والی جھوٹ پر مبنی ا ینٹی سمیٹک مہم کی کامیابیوں کے بعد یکجہتی تحریک کو دوبارہ شروع کرنے کا پہلا قدم ہوگا۔

اسرائیل کی طرف سے بمباری اس کی ظالمانہ ناکہ بندی اور غزہ کا محاصرہ اور مغربی کنارے میں بستیوں میں بے حد اضافہ نے نام نہاد دو ریاستی حل کی امید ختم کردی ہے۔ اسرائیلی حکومتوں کی بیدخلی کی پالیسی، جارحیت اور مداخلت کے پیش نظر یہ نہ صرف رجعت پسند ثابت ہورہا ہے جو یہ ہمیشہ تھا بلکہ یہ سراسر فریب اورایک سفارتی مذاق بھی ہے۔

اسکا ایک ہی ممکنہ جمہوری حل ہے اور جو کہ صیہونی ریاست کے نسل پرست نظام اور نسل پرستانہ بنیاد کا خاتمہ ہواور تمام فلسطینیوں کو وطن واپسی کا حق ہو اور مسلمانوں، یہودیوں اورعیسائیوں کی مکمل قانونی مساوات پر مبنی ایک ریاست کا قیام ہو

امریکہ، جرمنی، برطانیہ اور یورپی یونین جیسی سامراجی ریاستوں کو لازم ہے کہ وہ اس واپسی اور ضروری انفراسٹرکچراوررہائش کی تعمیر کے اخراجات کو برداشت کرئیں۔ کسی بھی قسم کے قومی تضادات کے بغیراس کا ہونا صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر جمہوری انقلاب کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔اس کے لیے بڑے سرمائے اور بڑی بڑی جاگیروں کو ضبط کرنا ہوگا۔

 قبضہ ختم کرو۔فلسطین پر بمباری بند کرو

فلسطینی مزاحمت کے ساتھ مکمل یکجہتی

ایک ریاست کے لئے جہاں نسلی بنیاد، زبان یا مذہب سے قطع نظر تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں

ایک سوشلسٹ فلسطین کے لئے جو سوشلسٹ مشرق وسطیٰ کا حصہ ہو