تحریر:التمش تصدق جےکے این ایس ایف

سرمایہ دارانہ نظام کا زوال جتنا گہرا ہوتا جا رہا ہے سماجی تضادات اتنی ہی شدت سے اپنا اظہار کر رہے ہیں۔وہ تضادات جو معاشی ترقی کے نتیجے میں کسی حد تک وقتی طور پر دبے ہوئے تھے وہ دوبارہ سے سر اٹھا رہے ہیں۔قومی مسئلہ نہ صرف سابقہ نوآبادیاتی ریاستوں میں اُبھر کر سامنے آ رہا ہے جو قومی علیحدگی کی تحریکوں کی صورت میں اپنا اظہار کر رہا ہے بلکہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ریاستوں میں بھی دوبارہ سے سر اُٹھا رہا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی بحران کے اثرات خاندان سے لے کر ریاست، سیاست اور ثقافت کے بحران کی صورت میں اپنا اظہار کر رہے ہیں۔ نظام کا بحران سماج کی مختلف پرتوں کے شعور پر الگ الگ اثرات مرتب کر رہا ہے۔مستقبل میں بہتری کے حوالے سے غیر یقینی،نا اُمیدی اور خوف محنت کشوں کی پسماندہ، پچھڑی ہوئی پرتوں اور درمیانی طبقے کے افراد کو ماضی کے تعصبات میں پناہ لینے پر مجبور کر رہا ہے۔محنت کشوں کے معاشی اور سیاسی جمہوری حقوق چھینے جا رہے ہیں جو انہوں نے طویل جدوجہد کے بعد حاصل کیے تھے۔حکمران طبقے کے ان حملوں کے خلاف دنیا کے مختلف خطوں میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی انقلابی تحریکیں اُبھر رہی ہیں۔جن کو کچلنے کے لیے جہاں براہ راست ریاستی جبر کا استعمال کیا جا رہا ہے وہاں نسل پرستی،مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ واریت کو پروان چڑھا کر محنت کشوں کے طبقاتی اتحاد کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

حکمران طبقے کے لئے اب پرانے مہذب پارلیمانی جمہوری طریقوں سے اپنا اقتدار قائم رکھنا ناممکن ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب اعتدال پسند پارٹیوں کی جگہ ہر ملک میں رجعتی مذہبی انتہا پسند اور نسل پرست پارٹیوں کو اُبھارا جا رہا ہے۔محنت کشوں پر معاشی حملوں کے علاوہ مذہبی اور نسلی اقلیتوں،مظلوم قوموں،مہاجرین اور خواتین پر ریاستی تشدد اور سماجی تعصب میں اضافہ ہوا ہے۔اس ریاستی جبر کے خلاف مظلوم عوام کی مختلف تحریکیں چل رہی ہیں جو اس استحصالی نظام کو للکار رہی ہیں.

ان تحریکوں کے حوالے سے سوشلسٹوں کا کیا رویہ ہونا چاہیے یہ سوال آج کے عہد میں بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ کیا سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں اصلاح پسندانہ مطالبات کے گرد اُبھرنے والی تحریکوں کی سوشلسٹ انقلابیوں کو حمایت کرنی چاہیے یا اس بنیاد پر ان تحریکوں کو رد کر دینا چاہیے کہ سرمایہ داری میں اصلاحات کی گنجائش نہیں ہے؟ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر قسم کے جبر و تشدد،استحصال اور محرومیوں کے پیچھے حکمران طبقے کے طبقاتی مفادات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ رائج الوقت نظام  میں بہتری کی گنجائش ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید کم ہو رہی ہے۔جب تک محنت کش طبقہ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو شکست نہیں دیتا یہ اذیتیں اور ذلتیں ختم نہیں ہو سکتی ہیں یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جبر اور محرومیوں کا شکار عوام کو انتظار کرنا چاہیے۔اس وقت تک اس جبر کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر برداشت کرنا چاہیے جب تک محنت کش طبقہ نظام کو شکست نہیں دیتا..؟اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ جبر کا شکار عوام انتظار نہیں کر سکتی اس کے خلاف لازماً فوراً ردعمل آئے گا جو آج بھی مختلف تحریکوں کی صورت میں ہمیں نظر آ رہے ہیں۔سوشلسٹ پیٹی بورژوا جمہوریت پسندوں کی طرح جمہوری مطالبات کو ازخود مقصد نہیں بناتے بلکہ تمام جمہوری مطالبات کو اپنی جدوجہد کا حصہ اس لیے بناتے ہیں تاکہ سرمایہ دار حکمران طبقے کا تختہ الٹ دیا جائے۔

 جیسا کہ کمیونسٹ مینی فسٹو میں لکھا ہے کہ”کمیونسٹ ہر جگہ موجود سماجی اور سیاسی نظام کے خلاف ہر انقلابی تحریک کی مدد کرتے ہیں۔ ان تمام تحریکوں میں ملکیت کے سوال کو سامنے لاتے ہیں جو کہ ہر تحریک کا سب سے اہم سوال ہے، خواہ اس وقت وہ اپنی نشوونما کے کسی مرحلے میں ہی کیوں نہ ہوں”۔ اصلاح پسند سرمایہ دارانہ نظام کی حدود سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں وہ ان تحریکوں کو نظام کی حدود میں مقید کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور محنت کش طبقے کو دھوکہ دینے کے لیے ان تحریکوں کا استعمال کرتے ہیں۔وہ سامراج کی موجودگی میں پرامن سرمایہ دارانہ نظام پر یقین رکھتے ہیں۔سامراجی عہد میں نہ صرف پسماندہ ممالک میں قومی جمہوری انقلاب کے فرائض صرف محنت کش طبقہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر کے ہی ادا کر سکتا ہے بلکہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی حقیقی اکثریتی طبقے کی جمہوریت بھی محنت کش طبقہ ہی سرمائے کی آمریت کو شکست دے کر رائج کر سکتا ہے۔محنت کش طبقہ اقتدار پر اُس وقت تک قبضہ نہیں کر سکتا ہے جب تک وہ تمام جمہوری مطالبات کے ذریعے اکثریت کی حمایت حاصل نہ کرے۔بائیں بازو کے مرکزیت پسند رحجانات جمہوری تحریکوں کو اس بنیاد پر مسترد کرتے ہیں یا غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات کی گنجائش ختم ہو چکی ہے اس لیے انقلاب کے ذریعے ہی یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں یعنی وہ انقلاب کے خواہشمند تو ہیں پر اس راہ پر چلنے سے انکاری ہیں جو انقلاب کی طرف جاتا ہے۔ان کے لیے جمہوری تحریکوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ ان تحریکوں کو حکمران طبقہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔یہ حقیقت بھی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں طبقاتی مفادات سے بالاتر سمجھی جانے والی جمہوری آزادیوں کی تحریکوں کو سامراجی قوتیں اور مقامی حکمران طبقہ اپنی سیاسی اور معاشی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے۔اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان تحریکوں سے کٹ کر ان کو مقامی اور سامراجی حکمران طبقے کو استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ دی جائے۔جو سامرجی اور مقامی حکمران طبقے کی  مداخلت کو جواز بنا کر جمہوری تحریکوں کی مخالفت کرتے ہیں ان کے لیے انقلاب سماج میں جاری رہنے والے ارتقائی عمل کے انقلابی اظہار کے بجائے کوئی واقع ہے جو رونما ہو گا تو سب لوگ ہماری طرف آئیں گے اور سب اچھا ہو جائے گا۔ان کا خیال ہے کہ مظلوم عوام جن مسائل کا شکار ہیں ان کے حل کی جدوجہد کے بجائے اس نظام کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیےجو فوجی جبر کا شکار عوام کو فوجی انخلا کے بجائے روٹی کے حصول کی جدوجہد کرنی چاہیےیا جولاپتہ پتہ افراد کی بازیابی کے بجائے اُجرتوں میں اضافے کی جدوجہد کرنی چاہیےیاقومی جبر کے خلاف ابھرنے والی علیحدگی کی تحریکوں کی حمایت انتہا پسندی ہےاورخواتین اور دیگر استحصال زدہ عوام کو اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کے بجائے ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہیئےکیونکہ ہم انہیں درست راستہ دیکھائیں گے وہ مارکسزم کو معیشت تک اور انقلابی پارٹی کے کردار کو ٹریڈ یونین کے کردار تک محدود کرنے کی کوششیں ہیں صرف معاشی مسائل کے گرد ابھرنے والی تحریکوں کو ہی تحریک تسلیم کیا جاتا ہے دیگر تمام مسائل کو فروعی مسائل گردانا جاتا ہے۔ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نظام کے جبر کے خلاف اُبھرنے والی بغاوتوں کی معروضی وجوہات کو سمجھ کر انہیں تسلیم کرتے ہوئے ہی طبقاتی بنیادوں پر مزدور تحریک سے جوڑا جا سکتا ہے۔ مسائل سے نظریں چرانے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے بلکہ اُن کے حل کی جدوجہد کے لیے ٹھوس عبوری اور مستقبل کے پروگرام پیش کرنا ہوں گے۔ حکمران طبقے کی طرف سے جہاں کہیں بھی عوام کو جمہوری حقوق سے محروم رکھا گیا ہے یا دستیاب حقوق پر ڈالا جاتا ہے انقلابیوں کا فریضہ ہے اس کے خلاف عوام کو متحرک کیا جائے۔

انقلاب روس کے قائد لینن نے سوشلزم کی فتح کے لیے قومی تحریکوں سمیت دیگر جمہوری تحریکوں کے ترقی پسندانہ کردار کو بھانپ لیا تھا جس نے دنیا کا سب سے عظیم بالشویک انقلاب کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔لینن کی سیاسی بصیرت آج بھی انقلابیوں کے لیے مشعل راہ ہے۔لینن قوموں کی حق خودارادیت اور سوشلزم میں لکھتا ہے کہ”سوشلسٹ انقلاب کوئی ایک قدم نہیں ہے،کسی ایک مورچے پر لڑائی نہیں ہے بلکہ شدید طبقاتی جدوجہد کا پورا دور ہے یعنی اقتصادیات اور سیاست کے تمام مسائل کے گرد لڑائیاں جن کا واحد انجام بورژوازی کی ملکیت کی ضبطگی ہو سکتا ہے۔یہ فرض کر لینا بنیادی غلطی ہو گی کہ جمہوریت کی خاطر جدوجہد پرولتاریہ کو سوشلسٹ انقلاب سے بھٹکا سکتی ہے یا اس کو دھندلا سکتی ہےیااس پر پردہ ڈال سکتی ہے وغیرہ جس طرح ایسا فتح یاب سوشلزم ممکن نہیں ہے جو مکمل جمہوریت کو رائج نہیں کرتا ہے۔اسی طرح پرولتاریہ اُس وقت تک بورژوازی پر فتح حاصل کرنے کی تیاری نہیں کر سکتی ہے جب تک جمہوریت کی خاطر چومکھی مسلسل انقلابی جدوجہد نہ کرے۔ لینن مزید لکھتا ہے” یہ اس سے کم سنگین غلطی نہیں ہو گی کہ جمہوری پروگرام کے کچھ نکتوں میں سے ایک کو مثلاً قوموں کے حق خودارادیت کے نکتے کو اس بناء پر نکال دیا جائے کہ یہ سامراج کے تحت ناممکن ہے یا خیالی پلاؤ ہے۔سوشلسٹ نوآبادیوں کو فوراً آزاد کر لینے کا مطالبہ کرتے ہیں وہ بھی  سرمایہ داری کے سائے میں اورایسا انقلاب کے پورے سلسلے کے بغیر نا قابل حصول ہے۔ بہرحال اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سوشلسٹ فوری اور فیصلہ کن جدوجہد سے باز رہیں۔اس کے برعکس اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان مطالبات کو اصلاح پسندانہ انداز سے نہیں بلکہ اُنہیں انقلابی ڈھنگ میں مرتب کیا جائے اور آگے بڑھایا جائے جو بورژوا قانون کے دائرے میں نہیں بلکہ اس کو توڑ کر اُس سے آگے بڑھایا جائے۔پارلیمنٹ میں تقریروں اور زبانی جمع خرچ پر اتفاق کر کے نہیں بلکہ بڑی سرگرمیوں میں عوام کو کھینچ کر ہر قسم کے بنیادی جمہوری مطالبے کی خاطر جدوجہد میں پھیلاؤ اور شدت پیدا کر کے آگے بڑھایا جائے جس کی تان بورژوازی کے خلاف پرولتاریہ کے براہ راست دھاوا بولنے پر ٹوٹے یعنی سوشلسٹ انقلاب پر جو بورژوا ملکیت کو ضبط کرے گا۔سوشلسٹ انقلاب بڑی ہڑتال، سڑک پر کسی مظاہرے،فاقوں سے جنم لینے والے کسی فساد،فوجوں میں بغاوت،کسی نوآبادیاتی سیاسی بحران یا کسی مظلوم اور محکوم قوم کی علیحدگی کے سلسلے میں ریفرنڈم وغیرہ کے طور پر پھٹ پڑے۔سامراج کے تحت قومی ظلم و جبر میں تند و تیزی سوشلسٹوں کے لیے اور بھی ضروری کر دیتی ہے کہ وہ قوموں کے علیحدگی کی آزادی کے لیے جدوجہد کی حمایت کرے جسے بورژوازی خیالی جدوجہد کا نام دیتے ہیں.وہ اس سلسلے میں اُبھرنے والے جھگڑوں اور ٹکراو کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور ان کو بورژوازی کے خلاف احتجاج اور انقلابی دھاوے کے لیے استعمال کریں۔قوموں کے حق خودارادیت کا مطالبہ ہی نہیں بلکہ ہمارے کم سے کم جمہوری پروگرام کے سارے نکات بہت پہلے ہی سترہویں صدی اور اٹھارویں صدی میں پیٹی بورژوازی نے پیش کیے تھے۔ پیٹی بورژوازی آج تک ان تمام مطالبات کو خیالی جنت کے باسیوں کے انداز میں اُٹھا رہی ہے وہ طبقاتی جدوجہد کو نہیں دیکھتی بلکہ اس کی آنکھیں اس حقیقت کو دیکھنے سے قاصر ہیں کہ طبقاتی جدوجہد جمہوریت کے سائے میں اور تند و تیز ہوتی ہے”.

میکانکی طرز فکر رکھنے والے ترقی پسند جو قومی علیحدگی کے حق کے مطالبے کو قوم پرستی یا فیڈریشن کے خلاف تصور کرتے ہیں اس حوالے سے لینن لکھتا ہے کہ ” قوموں کے حق خودارادیت کا مطلب صرف سیاسی معنی میں حق خود اختیاری ہے، ظالم و جابر قوم سے آزادی، سیاسی علیحدگی کا حق. ٹھوس معنوں میں اس مطالبے کا مطلب علیحدگی کے حق میں ایجی ٹیشن کرنے کی آزادی، علیحدگی کے حق چاہنے والی قوم کی ریفرنڈم کے ذریعے علیحدگی کے سوال کو طے کرنے کی آزادی، نتیجے کے طور پر یہ مطالبہ اور علیحدگی، بٹوارے اور چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کرنے کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ یہ مطالبہ محض منطقی اظہار ہے کسی بھی شکل میں قومی ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کے اظہار کا۔ریاست کا جمہوری نظام علیحدگی سے جتنا قریب آئے گا علیحدگی کی جدوجہد اتنی کمزور ہوتی جائے گی۔ سوشلزم کا مقصد چھوٹی چھوٹی ریاست میں بنی نوع انسان کے بٹوارے اور قوموں کی تمام الگ الگ خانہ بندیوں کو ختم کرنا اور قوموں کو ایک دوسرے کے ساتھ لانا ہی نہیں بلکہ ان کو شیر و شکر کر دینا ہے۔اس مقصد کو پورا کر لینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک طرف تہذیبی قومی خودمختاری کے رجعت پسندانہ خیالات کی حقیقت  عام لوگوں کو بتائیں اور دوسری طرف محض عمومی اور مبہم انداز میں نہیں اور نہ ہی سوشلزم کے قائم ہونے تک اسے اُٹھائے رکھنے کی بات کر کے بھی نہیں بلکہ صاف صاف انداز میں سیاسی پروگرام مرتب کریں جو ظالم اور جابر قوموں کے سوشلسٹوں کی ریاکاری اور بزدلی کو بھی خاص طور پر نظر میں رکھےٹھیک جس طرح بنی نوع انسان محکوم طبقے کی آمریت کے عبوری دور سے گزر کر ہی طبقوں کا خاتمہ کر سکتا ہے اسی طرح بنی نوع انسان قوموں کے شیر و شکر ہو جانے کی ناگزیر منزل تک پہنچنے کے لیے محکوم و مظلوم قوموں کی مکمل آزادی یعنی اُنکی حق علیحدگی کے عبوری دور سے گزر کر پہنچ سکتا ہے۔”

لینن قومی غلامی اور جبر کے خلاف ظالم قوم کے محنت کشوں کے فرائض اورمظلوم قوم کے محنت کشوں اور انقلابیوں کے فرائض کے حوالے سے لکھتا ہے کہ”ظالم اور جابر قوم کا پرولتاریہ عمومی قسم کے گھسے پٹے جملوں اور فقروں تک خود کو محدود نہیں کر سکتا جو کوئی بھی صلح پسند بورژوا جبراً الحاق کے خلاف قوموں کی برابری کے حقوق کے بارے میں عام طور پر کہہ سکتا ہے۔پرولتاریہ اس سوال سے نگاہیں نہیں چرا سکتا جو سامراجی بورژوازی کے لیے خاص طور پر ناخوشگوار ہے یعنی ایسی ریاستوں کی سرحدوں کا سوال جو قومی ظلم و جبر پر مبنی ہے۔ پرولتاریہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا کہ مظلوم اور محکوم قوموں کو خاص ریاست کی سرحدوں کے اندر زبردستی بند رکھنے کے خلاف جنگ کرے اور یہی مطلب ہے حق خودارادیت کی جدوجہد کاہے۔ پرولتاریہ کا فرض ہے کہ وہ اُن نوآبادیوں اور اُن قوموں کی سیاسی علحدیگی کی آزادی کا مطالبہ کرے جن کو پرولتاریہ کی اپنی قوم ظلم و محکومی کا شکار بنائے ہوئے ہے۔جب تک پرولتاریہ ایسا نہیں کرتی پرولتاری بین الاقوامیت محض بے معنی اصطلاح رہے گی۔ اس کے بغیر ظالم و جابر اور مظلوم و محکوم قوم کے درمیان نہ باہمی اعتماد موجود ہو گا اور نہ  ہی طبقاتی یکجہتی ہوگی اور نہ ہی حق خودارادیت کے اصلاح پسند وکیلوں کی ریاکاری کی قلعی کھلے گی جو قوموں کے بارے میں ہونٹوں پر گوند چپکائے بیٹھے رہتے ہیں۔دوسری طرف مظلوم و محکوموں کے سوشلسٹوں کو چاہیے کہ وہ محکوم قوموں کے مزدوروں اور ظالم اور جابر قوموں کے مزدوروں کے درمیان مکمل اور بھرپور اتحاد کے لیے جس میں تنظیمی اتحاد بھی شامل ہے لڑیں اور اس کو عملی جامہ پہنائیں ورنہ پرولتاریہ کی آزاد پالیسی کے لیے لڑنا اور بورژوازی کے چور دروازوں، دغابازیوں اور دھوکے فریب کی موجودگی میں دوسرے ملکوں کے پرولتاریہ کے ساتھ طبقاتی یکجہتی کا پرچم لہرانا ناممکن ہو جائے گاکیونکہ مظلوم اور محکوم قوموں کا حکمران طبقہ قومی آزادی کے نعروں کو مستقل محنت کشوں کو دھوکہ دینے والے ہتھکنڈوں کے طور پر استعمال کرتا ہےاوراندرونی سیاست میں ان نعروں کو حکمراں قوموں کی بورژوازی کے خلاف رجعت پسندانہ معاہدے کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے”.

جمہوری پروگرام کو انقلابی سوشلزم کے ساتھ جوڑنے کے حوالے سے لینن کی حکمت عملی آج بھی اتنی ہی کارآمد ہے جتنی ایک صدی پہلے تھی ۔سرمایہ دارانہ جمہوریت سرمائے کی آمریت ہے جو اقلیتی سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے لیے ہے جسے مزدور جمہوریت کے ذریعے شکست دے کر حقیقی جمہوریت رائج کی جا سکتی ہے۔جس کے لیے ضروری ہے کہ تمام استحصال زدہ پسے ہوئے طبقات کی جمہوری تحریکوں کے مطالبات کو اپنا کر طبقاتی جدوجہد سے جوڑتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو شکست دی جائے۔محنت کش طبقہ جب تک آزادانہ طور پر طبقاتی بنیادوں پر منظم ہو کر تمام جمہوری تحریکوں کی قیادت نہیں کرتا تب تک حکمران طبقہ ان تحریکوں کو اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال کرتا رہے گا۔سوشلزم میں ہی محنت کش طبقے،خواتین،محکوم قومیتوں، مہاجرین اور سماج کے دیگر کچلی ہوئی پرتوں کی ظلم جبر استحصال اور محرومیوں سے نجات ممکن ہے